Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Tuesday, June 26, 2012

سوالات


کہانیاں پڑھنے کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب پچاس پیسے میں الاسد پبلی کیشنز کی ننھی کہانیاں بازار سے مل جایا کرتی تھیں۔ فکشن ہمیشہ سے پسندیدہ ادبی صنف رہی ہے۔ اور جب سائنس فکشن ہوجائے تو پھر سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔ آج کل سٹار ٹریک نیکسٹ جنریشن سلسلے کی ٹی وی سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یار لوگوں نے چھوڑی ہے اور بہت دور کی چھوڑی ہے۔

محمدعلی مکی کی یہ پوسٹ دیکھی تو دل کیا میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ تاثرات کیا سوالات ہیں جو یہ سیریز دیکھنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔

پہلا سوال تو یہ کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے دس گنا زیادہ پر بھی سفر کرکے اپنی کہکشاں کا بیس فیصد بھی کور نہیں کرسکتا تو کائنات کے بارے میں کیسے جان سکے گا۔ اس سیریز میں خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرکے نئے نئے سیاروں پر جاتے ہیں، لیکن اس بات کا اظہار بھی موجود ہے کہ اب بھی انسان فاصلوں کا قیدی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہزاروں میل بہت زیادہ ہوتے تھے، ہزاروں نوری سال بہت زیادہ ہیں۔

میرے ذہن میں وہ وقت آجاتا ہے جب انسان خلاء کا کچھ حصہ ہی سہی مسخر کرلے گا۔ پھر مذہب اور خدا کی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا کسی اور سیارے پر جاکر اسلام پر عمل کیا جاسکے گا؟ جیسا آج زمین پر ہم کرسکتے ہیں۔ اجتہاد کا آپشن بالکل موجود ہے، لیکن میرے ذہن سے یہ سوال نہیں جاتا کہ اگر اللہ سائیں پوری کائنات کے لیے ایک ہے تو نبی مکرم ﷺ بھی ایک ہی ہیں؟ اور کیا یہ زمین کو ہی اعزاز بخشا گیا ہے کہ آخری نبی مبعوث ہو؟ کتنے گنجلک سوال ہیں کہ جن پر غور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ اہل تصوف و فلسفہ ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا ان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہی ناقص ہے۔

رہی بات ابن رُشد کے فلسفے کی تو اس وقت کے محدود علم کے مطابق اس نے اپنے خیالات کو قرآن سے مطابقت پذیر کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلا اعتراض یہ ہے کہ قرآن سائنس کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ قرآن کے بہت سے بیانات ایسے ہیں کہ انھیں زمین کی تخلیق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور کائنات کی تخلیق پر بھی۔ تخت پانی پر تھا، آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی صرف دھواں تھا۔ یہ تو سیارہ زمین کی حالت بھی ہوسکتی ہے جو شروع میں پگھلی ہوئی چٹانوں کا آمیزہ تھی، اور جس کا کرہ ہوائی تھا ہی نہیں۔ کائنات جتنی وسیع و عریض ہے، اس کو چلانے کے لیے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو اس کی حدود سے ماوراء ہو۔ جس پر وقت اور خلا کا اثر نہ ہو۔ اور وہ ہر جگہ موجود ہستی رب کریم کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ جو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی رہے گی۔ شاید ہم جسے قیامت کہتے ہیں وہ ہر کائنات میں ہر لمحہ برپا ہوتی رہتی ہے، کسی نہ کسی زمین پر، شاید۔ ہمارا علم کائنات کے بارے میں بہت محدود ہے۔ چہ جائیکہ ہم خدا کی حیثیت کا تعین کریں۔ ہمیں تو یہ نہیں پتا کہ جہاں یہ کائنات ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد کیا ہے؟ کیا لامتناہی خلاء ہے یا کسی کمرے کی دیواروں کی طرح سرحدیں ہیں۔ کہ جہاں وقت اور خلا کا تصور ہی مٹ جاتا ہے۔

کائنات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔ زمان و مکان کی جن جہتوں سے ہم واقف ہیں ان کے علاوہ بھی جہتیں موجود ہیں۔ اگر محمد الرسول اللہ ﷺ لمحوں میں عرش بریں کا سفر کرکے واپس آسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی بہت سی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں، اور زمان و مکان کے فاصلے ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے جن پر ذات باری کا لطف و کرم ہوتا ہے۔ خدا کلیات سے بھی واقف ہے اور جزئیات سے بھی، اگر وہ ایک انسان ﷺ کو وقت کے پنجے سے نکال کر اپنے پاس بلا سکتا ہے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور ہر جگہ موجود بھی ہوسکتا ہے۔ خدا کی صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے ہر چیز کا علم ہو، اور وہ ہر چیز پر قادر ہو، اس بات پر بھی کہ وہ کائنات کو پیدا اور فنا کرسکے۔ ورنہ اس کے خدا ہونے کے مقام میں شک ہے۔ چناچہ میرا یقین یہ ہے کہ خدا اس کائنات سے پہلے بھی تھا، اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ اگر کبھی یہ کائنات فنا کردی گئی تو۔



')