Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Monday, November 30, 2015

The history of Pakistan

The history of Pakistan encompasses the history of the region constituting modern Pakistan. Prior to independence in 1947, the territory of modern Pakistan was a part of the British Indian Empire. Prior to that it was ruled in different periods by local kings and numerous imperial powers. The ancient history of the region comprising present-day Pakistan also includes some of the oldest of the names of empires of South Asia[1] and some of its major civilizations.[2][3][4][5] By the 18th century the land was incorporated into British India. Pakistan's political history began with the birth of the All India Muslim League in 1906 to protect "Muslim interests, amid neglect and under-representation" and to oppose Congress and growing Hindu nationalism in return the British Raj would decide to grant local self-rule. On 29 December 1930, philosopher Sir Muhammad Iqbal called for an autonomous new state in "northwestern India for Indian Muslims".[6] The League rose to popularity in the late 1930s. Muhammad Ali Jinnah espoused the Two Nation Theory and led the League to adopt the Lahore Resolution[7] of 1940, demanding the formation of independent states in the East and the West of British India. Eventually, a successful movement led by Jinnah resulted in the partition of India and independence from Britain, on 14 August 1947.




On 12 March 1949, the second constituent assembly of Pakistan passed the Objectives Resolution which was proposed by the first Prime Minister Liaquat Ali Khan, proclaimed that the future constitution of Pakistan would not be modeled entirely on a European pattern, but on the ideology and democratic faith of Islam. The legislative elections in 1954 saw the Awami League coming to power and its leader Huseyn Suhrawardy becoming country's first Bengali Prime minister. Promulgation of Constitution in 1956 lead to Pakistan declaring itself Islamic republic (official name) with the adoption of parliamentary democratic system of government. The constitution transformed the Governor-General of Pakistan into President of Pakistan (as head of state). Subsequently, Iskander Mirza became the first president as well as first Bengali in 1956, but the democratic system was stalled after President Mirza imposed the military coup d'état and appointed Ayub Khan as an enforcer of martial law. Two weeks later, President Mirza was ousted by Ayub Khan; his presidency saw an era of internal instability and a second war with India in 1965. Economic grievances and political disenfranchisement in East Pakistan led to violent political tensions and armed repression, escalating into guerrilla war[8] followed by the third war with India. Pakistan's defeat in the war ultimately led to the secession of East Pakistan and the birth of Bangladesh.[9]






Democracy again returned which was resumed from 1972 to 1977 under leftist PPP led by Zulfikar Ali Bhutto, until he was vanquished by General Zia-ul-Haq, who became the country's third military president. Pakistan's banished-secular policies were replaced by the new Islamic Shariah legal code, which increased religious influences on the civil service and the military. With the death of President Zia-ul-Haq in 1988, the new general elections announced the victory of PPP led by Benazir Bhutto who was elevated as the country's first female Prime Minister of Pakistan. Over the next decade, she alternated power with conservative Pakistan Muslim League-N (PML(N)) led by Nawaz Sharif, as the country's political and economic situation deteriorated. Military tensions in the Kargil conflict[10] with India were followed by a 1999 coup d'état in which General Pervez Musharraf assumed executive powers.





Self-appointing himself as President after the resignation of President Rafiq Tarar, Musharraf held nationwide general elections in 2002 to transfer the executive powers to newly elected Prime Minister Zafarullah Khan Jamali, who was succeeded in the 2004 by Shaukat Aziz. During the election campaign in 2007 following the parliament completing its term on 15 November 2007, Benazir Bhutto was assassinated which resulted in a series of important political developments when left-wing alliance led by PPP. The historic general elections held in 2013 marked the return of PML(N) coming to national prominence with Prime Minister Nawaz Sharif assuming the leadership of the country for the third time in its history.







یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن


یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا


Koi Chup Chap Duniya K Mazalim


ﮐﻮﺋﯽ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻈﺎﻟﻢ
ﺗﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ___ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ

koi chup chap duniya k muzalim
teri khatir gawwara kar gaya hai

Saturday, November 28, 2015

نومبر کا مہینہ تھا


نومبر کا مہینہ تھا
کہ جب میں نے جیے تھے
زندگی کے خوبصورت پل
یہی دن تھے
کہ جب میں نے ملائم نرم ہر احساس کو
لفظوں میں ڈھالا تھا
انہی ایام کی
لمبی, جواں راتوں میں ہی بنیاد رکھی تھی
کئی رنگین خوابوں کی
یہی آغاز سرما کی حسیں راتیں
کہ جب تھا چاند بھی آدھا
نہ میں سوتا , نہ تم سوتی
کسے پرواہ تھی نیندوں کی
اس اک رشتے کی بنیادوں میں کتنے رتجگے ڈالے
وہ سب لمحے
کہ جب اک دوسرے کے ساتھ
کتنے پل گزرتے تھے
کبھی باتیں محبت کی
کبھی اقرار کے قصے
کبھی عہد وفا کرنا
کبھی خود پر بہت ہنسنا
کسی انجام سے انجان سے ہو کر
ہم آگے بڑھتے جاتے تھے
ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں, اپنا تعلق
گرم جوشی سے پھلا پھولا
وہ روز و شب
ہمارے ربط کی معراج تھے شاید
مگر دیکھو
گزرتے وقت کو, موسم کو کوئی روک کب پایا
طلمساتی وہ پل سارے
پگھلتی برف کی گرمی نہ سہہ پاۓ
اتر آئی عجب اک سرد مہری درمیاں اپنے
وہی رشتہ جو آتی سردی میں معراج تک پہنچا
وہ جاتی سردیوں کا ڈر نہ سہہ پایا
تھپیڑے دھوپ کے
گرمی , تمازت وہ نہ سہہ پایا
یوں وہ انجام کو پہنچا
وہ ساری بسری یادیں
بھولی باتیں ساتھ میں لےکر
دسمبر پھر چلا آیا


وہ معصوم پھول کہ





آج صُبح جب امّی کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھیں، تو بے دھیانی میں پانی سے بھرا ہوا کُولر سٹینڈ سے گِرا اور سارا پانی بہہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اُس کے تھوڑی ہی دیر بعد مجھ سے چائے کا کپ گِرا اور چائے بھی بہہ گئی۔ امیّ نے کہا کہ یہ آج ہو کیا رہا ہے؟ صُبح صُبح ہر چیز بہہ رہی ہے۔۔۔۔ اب سارا دن یہی نہ ہوتا رہے۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دُور بیٹھا ناشتہ کرتے ہوئے جب میں نے امّی کے یہ الفاظ سُنے تو پتا نہیں کیوں لاشعوری طور پہ میں نے دِل ہی دِل میں کہا کہ خون بھی تو بہتا ہے۔۔۔۔۔۔ آنسو بھی تو بہتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ لیکن اُسی وقت ان الفاظ کو میں نے منہ سے باہر نکلنے سے روک لیا کیوںکہ امّی پہلے ہی غصّے میں تھیں، اور مجھے ایسی بات کرنے پہ ڈانٹ پڑنی تھی، اس لیئے میں نے چُپ میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔۔

دوپہر کو چلتے ہوئے کسی کو کہتے سُنا کہ پیشاور میں بچوں کے سکول پہ فائرنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خبر دیکھنے کے لیئے جب میں نے نیوز چینل لگایا تو پتا چلا کہ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دھماکہ بھی ہوا ہے، اور شہید بچوں کی تعداد 100 سے بھی تجاوز کر چُکی ہے۔ وہ مناظر اور آہیں اعصاب پہ طاری سی ہوگئیں۔۔۔۔۔

پھر کافی دیر بیٹھی سوچتی رہی کہ شاید امّی نے صُبح ٹھیک ہی کہا تھا کہ صُبح صُبح پانی بہہ گیا۔۔۔۔۔۔ چائے بہہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سارا دن اللہ نہ کرے یہی ہوتا رہے۔۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے آج سارا دِن یہی ہوا۔ ننّھے فرشتوں کا خون اس قوم اور ملک کی خاطر زکوٰۃ کی صورت میں بہہ گیا۔۔۔۔ مستقبل قریب میں جنھوں نے اس پاک سر زمین کا معمار بننا تھا، وہ روشن مستقبل بھی ریلے کی صورت بہہ گیا۔۔۔۔۔۔ وہ جگر گوشے جو کہ اپنے ماں،باپ کی اُمیدوں کا محوّر تھے۔ جنھوں نے علم کے چراغ جلا کر اپنی اور اپنوں کی زندگیوں میں ضیاء بانٹنا تھا۔۔۔۔۔۔۔امیدوں کا وہ محوّر بھی ڈھلتے سورج کی مانند بہہ گیا۔۔۔۔۔۔ اور اُن والدین کے ساتھ ساتھ آج ہر احساس سے لبریز دِل گرفتہ ہوا، ہر آنکھ اشکبار تھی۔۔۔۔۔۔ اور آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! آخر یہ دِن بھی آج بہت کچھ بہا کر خود بھی وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ گیا۔۔۔۔ 

وہ معصوم پھول کہ جنھوں نے ہماری خاطر قربانی دی۔۔۔۔۔۔ اللہ سائیں کے پاس بلند درجات پہ فائض ہونگے۔ ہم اُن کے لیئے صرف دُعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے قاتلوں کو کیفرِکردار تک پہنچائے۔۔۔۔۔اور ان بچوں کے اہل و عیال سمیت ہر احساس سے لبریز دِل کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔۔۔۔۔ اور بدامنی، دہشت گردی، لسانیت اور فرقہ واریت جیسی لعنتوں سے ہمارے مُلک و قوم کو محفوط فرمائے۔۔۔۔ آمین ثُمہ آمین 



کہ محبت کسی کو دیکھنے سے ہوتی ہے یا بن دیکھے



کسی احباب کا سوال تھا کہ محبت کسی کو دیکھنے سے ہوتی ہے یا بن دیکھے؟
تو ۔۔۔۔۔۔۔ محبت تو احساسات و جزبات سے لبریز ایک جزبے کا نام ہے، جو غیر مرئی ہو کر بھی محبت کرنے والوں کی آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے۔۔۔۔ ان کے ادب میں پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ محبوب کو لے کر اس کی فکر سے چھلکتی ہے۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ کسی کو دیکھ کر محبت ہوتی ہے یا پھر بن دیکھے ہی ہو جاتی ہے؟ تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ محبت ہوتی کس سے ہے؟ محبت اسی سے ہوتی ہے نا جس سے تعلق ہو، اب تعلق کسی قسم کا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ سوچ کا تعلق، کام کا تعلق، گفتگو کا تعلق، کسی رشتے کا تعلق، یا پھر صرف دیدار کا ہی تعلق لے لیجیئے۔۔۔۔۔۔ جس سے کوئی تعلق ہو، اور اس تعلق کو نبھاتے ہوئے اسی تعلق میں رُونما ہونے والی نئی تبدیلی کا نام محبت یا پھر نفرت ہوتا ہے۔  آج تک کسی سے آپ نے یہ سُنا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اسے کسی شخص سے بنا کسی تعلق سے محبت یا پھر نفرت ہے؟ نہیں ناں؟؟؟ تو بس محبت بھی یہی ہے۔۔۔
علمِ شہریت میں انسان کو سماجی جانور کہا گیا ہے کہ وہ اکیلا، تنِ تنہا نہیں رہ سکتا، قدرت نے میل ملاپ، دوسروں سے تعلق استوار رکھنا، اور اپنی ضرورتوں کی خاطر دوسروں پہ انحصار کرنا اس کی سرشت کا حصہ بنایا ہے۔ اب اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک انسان کا دوسرے انسان سے قدرتی لحاظ سے انسانیت کا ایک رشتہ قائم ہے۔ اپنی سرشت ہی کی پیروی کرتے ہوئے ایک انسان دوسرے کسی اجنبی انسان سے ملتا ہے، اس کے ساتھ کام کرتا ہے، اس سے گفتگو ہوتی ہے، دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر وہ اگر یہ دعویٰ کر دیں کہ انھیں ایک دوسرے سے محبت ہے تو کیا وہ واقعی محبت ہے؟ کہ کسی انسان کو پہلے دیکھو کہ وہ واقعی خوبرو اور خوش شکل ہے؟ اس میں کیا نقائص ہیں؟ کیا کیا اچھائیاں ہیں؟ تو معزرت کے ساتھ یہ دیکھنے، جانچنے والا روّیہ سبزی ترکاری، یا اشیاء خوردونوش کے ساتھ کیا جاتا ہے، یا پھر ماں باپ جب اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ طے کرنے لگتے ہیں تب وہ دیکھتے پرکھتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ محبت نہیں بلکہ خود پسندی ہے کہ کسی انسان کا انتخاب کیا جائے کہ آیا وہ شخص میرے معیار پہ پوا اترتا ہے یا نہیں؟ یہ محبت نہیں ہوگی بلکہ اپنے انتخاب سے محبت کی جائے گی۔۔۔۔ گویا کہ اپنے آپ سے ہی محبت کی جائیگی۔۔۔۔۔ محبت ہونا اور بات ہے، اور محبت کرنا اور۔۔۔۔۔۔۔
اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ محبت اس سے ہوتی ہے جس سے کوئی تعلق ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دو متضاد جنس کے حامل فریقین میں معاشرتی، اخلاقی اور شرعی لحاظ سے تعلق قائم کرنے کو نکاح یا شادی کہتے ہیں، اب اس تعلق کے بعد جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو دیکھیں گے، پرکھیں گے، اور اچھائی و برائی کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد جو ہوگی وہی حقیقت میں محبت ہوگی۔۔۔۔ اور جو اس تعلق سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھیں گے، پسند کریں گے، اور پھر اسے محبت کا نام دیں گے تو یہ محبت نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ اپنی پسند سے، اپنے انتخاب سے محبت کی جائیگی۔۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ محبت کسی کو دیکھنے سے ہوتی ہے یا بن دیکھے؟ تو اس کا جواب میری ناقص سوچ و سمجھ کے مطابق یہی ہے کہ کسی انسان کو دیکھ کر ہونے والی محبت صرف نکاح کی صورت میں ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں نیّت کا کوئی فطور کارفرما نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ دونوں ہی اخلاص سے ایک بندھن کو لے کر چلتے ہیں اور وہی بندھن محبت بھرا بندھن بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
جبکہ نکاح یا شادی کے تعلق کے بغیر ہونے والی محبت بن دیکھے ہی ہوتی ہے۔ کسی کو دیکھے بنا، اس کے بارے میں دوسروں کے منہ سے تعریفی کلمات سن کر، اس کی اچھائیوں کے چرچے سن کر، وہی انسان سوچوں کا مرکز و محور بن جاتا ہے، اس سے سوچ کا تعلق جڑ جاتا ہے۔ پھر اس انسان کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اس کی خوبیوں کی صورت میں ہر وقت اس کا دیدار کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور پھر اسے بن دیکھے ہی اس کی محبت پہ ایمان بالغیب کی طرح ایمان لایا جاتا ہے۔ جس میں محبوب کو دیکھا نہیں ہوتا، لیکن دیکھنے کی چاہت ضرور ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اور ایسی محبت حاصل و حصول ، شکوہ و شکایت ، اچھائی و برائی سے مبّرا ہو کر نبھائی جاتی ہے۔۔۔۔ ایسی محبت خوبصورتی سے نہیں۔ بلکہ جس سے محبت ہو وہی خوبصورت و یکتا و بے مثل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ 
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ محبت وجود سے وجود کا تعلق نہیں، بلکہ روح سے روح کے ربط کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو دن رات دیکھتے ہوئے، ایک چھت تلے رہتے ہوئے، اور اس کی خوبیوں سے واقفیت رکھتے ہوئے بھی اس سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ اور کسی کو دیکھے بغیر، بنا تعلق کے، کوسوں میلوں دُور ہونے کے باوجود بھی صرف اس کا ذکر سن کر، اس کی خوبیاں جان کر اس سے محبت ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ ایک بے لوث جزبہ ہے، جو کہ صرف خاص روح کو کسی خاص روح کے لیئے عنایت کیا جاتا ہے۔ اور وہ روح اس روح کو خود ہی ڈھونڈھ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔


محبت کیسا جزبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔






مجھے نہیں معلوم کہ یہ محبت کیسا جزبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ یا ہوتا ہوگا؟

اس کا احساس یا اس کی علامات کیا ہیں میں نہیں جانتا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ جو سمجھ بوجھ اور عقل میں آنے سے بالاتر ہو وہ محبت ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اس جزبے کو محسوس کرنے کے لیئے ہمیشہ ہی طویل سوچوں کا سہارا لیا ہے۔ اور انہی سوچوں نے وہ دریچے کھولے جن سے میں نے جھانک کر محبت کا مشاہدہ کیا۔۔۔۔

میرے اندر ہمیشہ ہلچل رہتی ہے، ویسی ہی کیفیت جیسے کسی کا کچھ قیمتی سامان کھو گیا ہو اور وہ شخص اپنے کھوئے ہوئے سامان کا متلاشی بنا ڈگر نگر بھٹک رہا ہو نیند میں بھی بے خوابی سی کیفیت، بظاہر سویا ہوا لیکن بیدار۔۔۔۔۔۔۔ اس حالت سے بیزار ہوا تو اس کی وجہ اپنے تئیں جاننے کی کوشش کی۔۔۔ آخر یہ بےسکونی کیوں ہے؟ میں اپنے اردگرد لوگوں کا بغور مشاہدہ کرنے لگا، تجسّس بھری نظروں سے ان کے چہروں کو گھور گھور کر دیکھتا کہ آیا ان کے اندر بھی میری مانند افرا تفری ہے یا نہیں؟ تو دیکھتا ہوں کہ ہر انسان کو جلدی ہے، چہروں پر سے ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں، اور یہ کہتے اِدھر اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں میرا یہ کام نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا، مجھے بہت دیر ہو رہی ہے، مجھے یہ چاہیئے، وہ چاہیئے۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر لگا جیسے ہم انسان نہیں مشینیں ہوں، زندگی میں زرا بھی ٹھہراؤ نہیں، اگر کسی لمحے رکے تو جیسے ہار جائیں گے اور بہت پیچھے رہ جائیں گے۔۔۔۔


یہ صورتِ حال دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ آخر وہ کیا شے ہے جس نے ہم انسانوں کے اندر کھلبلی مچا رکھی ہے۔ تو ناقص عقل کو یہی سمجھ آئی کہ فطری چیزیں ہمیشہ اپنی فطرت پہ قائم رہتی ہیں، وہ کسی طور بدلتی نہیں اور نہ بدلی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔ اور انسان کے جسم میں مقید روح فطرت پہ قائم ہے۔ روح کی فطرت محبت ہے۔۔۔۔ بلکہ روح بذاتِ خود سراپاء محبت ہے۔۔۔ یہی روح ہی تو محبت کا وہ مظہر ہے جو کہ حق کے انوار و تجلیات سے مشرف ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی محبت پہ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ "سچائی کے بےشمار راستے ہیں، اور جو راستہ میں نے چُنا وہ محبت ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ حق تک پہنچنے کا راستہ محبت ہے۔۔۔ اب کسی بھی منزل تک وہی پہنچ سکتا ہے نا کہ جسے راستہ معلوم ہو، تو محبت ہی روح کی رہبر ہے۔۔۔۔۔

اور روح کی تخلیق میں بنیادی طور پہ آزاد ی کا عنصر ہے۔۔۔۔۔۔ بعد میں وہ جسم میں مقیّد ہوئی۔ تو اپنی فطرت کے پیشِ نظر روح جسم کی قید سے آزادی چاہتی ہے۔ چونکہ محبت ہی روح کی رہبر ہے۔۔۔۔ مگر ہم انسانوں کے اندر تو محبت کی بجائے حسد اور نفرتیں پنپتی رہتی ہیں۔۔۔ اس لیئے روح کو کوئی راستہ نہیں ملتا۔۔۔۔ وہ بند پنجرے میں قید پرندے کی مانند پھڑپھڑاتی رہتی ہے۔۔ اسی وجہ سے ہم لوگوں میں افراتفری کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔۔۔ وجود کو ہر سکھ مہیا کرنے کے بعد بھی تشفی اور سکون حاصل نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ " محبت وجود سے وجود کا نہیں، روح سے روح کے ربط کا نام ہے"۔ روح سے روح کا ربط آخر تب ہو نا جب کہ روح آزاد ہو؟ تو جو لوگ اخلاقیات، حُسنِ سلوک اور اپنا تن،من، دھن سب خوشی خوشی نچھاور کردینے کا ظرف اور بنا کسی توقعات کے ایثار جیسے اعلیٰ اسلوب رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں محبت پنپتی ہے۔۔۔۔۔۔ ان کی روحیں ان کے اجسام سے آزاد ہو جاتی ہیں۔۔ وہ ہمہ وقت جسم میں بھی موجود رہتی ہیں اور وصلِ محبوب سے بھی لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ایسے لوگ نفسِ مطمعنہ کے حامل ہوتے ہیں۔۔۔ اور انہی کی روحوں کو محبت کا سرور نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 




محبت




کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ محبت کی موجودگی و غیر موجودگی کو جانچنے کا کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے؟ اگر ایسا کوئی آلہ ہے تو اب بھی کچھ لوگ کیوں محبت کے نام پہ دھوکا کھا رہے ہیں؟

اور اگر ایسا کوئی آلہ موجود نہیں تو پھر لوگوں کو کیسے علم ہو جاتا ہے کہ کسی کو واقعی اُن سے محبت ہے؟

میں نے آج تک کسی کو محبت کا دعوٰی کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں مگر اپنی محبت کا اظہار کرتے بہت سوں کو دیکھا ہے۔ اور اگر کوئی محبت کا دعویدار ہے تو میرے سامنے آئے اور اپنے دعوے کو درست ثابت کرے۔ اتنا آسان نہیں ہے کہ جس چیز کا دعوٰی کیا جائے تو پھر اُس پہ پورا اترا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اور اب چونکہ انسانی خواہش کا تقاضہ ہے کہ اُسے کوئی بھی اچھا لگ سکتا ہے تو وہ اُس سے اپنی محبت یا پسندیدگی کا اظہار کردیتا ہے۔ مگر محبت کا دعوٰی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ کیونکہ محبت کا دعوٰی کرنا یعنی کہ اپنے تمام اختیارات اپنے محبوب کے سپرد کرکے سبکدوش ہو جانا۔۔۔۔۔۔ محبوب اگر کہے کہ اندھے کنویں میں چھلانگ لگاؤ تو بنا سوالیہ نظروں کہ اُس اندھے کنویں میں کُود جانا۔۔۔۔۔ اسی لیئے تو محبت کے دعویدار کم اور اظہار والے زیادہ ہیں۔۔۔۔۔۔ 

اب میرے اوپر پوچھے گئے دونوں سوال اُن لوگوں سے ہیں جو کہ اپنی تو محبت کا دعوٰی کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوسروں کی محبت کو طعنہ دیتے ہیں کہ یہ محبت نہیں ہے۔ اچھا! اگر یہ واقعی محبت نہیں ہے تو وہ آلہ لا دیں (جس میں انھوں نے اپنی محبت کو جانچا تھا اور انھیں یقین ہو گیا تھا کہ اُن کی محبت واقعی محبت ہے) تاکہ باقی بھی اپنی محبت اس آلے سے جانچ سکیں۔۔۔۔۔۔ 

اور یہ جو میرے جیسے عام اور کمزور لوگ ہوتے ہیں نا ان کی محبت صرف اظہار و اقرار تک ہی محدود ہوتی ہے۔ دعوٰی اس لیئے نہیں کر پاتے کیونکہ وہ شاید اس لائق ہی نہیں ہوتے کہ اپنے دعوے پہ پورا اتر سکیں۔ اور ان کے بارے میں یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو محبت نہیں ہے۔ ارے بھئی! محبت کوئی سند تھوڑی نا آکر کسی کو دیتی ہے کہ لو بھئی میں تُم کو ہو گئی ہوں اور تُم اِس امتحان میں پاس ہو گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 

محبت کو جانچنے کا نہ کوئی آلہ ہے اور نہ ناپ طول کا کوئی پیمانہ۔ یہ تو ایک غیر مرئی احساس سے مزّین ایک جزبہ ہے جو کہ فکر اور ذکر میں جھلکتا ہے۔ محسوس کیا اور کرایا جاسکتا ہے۔ اب اگر کسی کو یہ نظر نہ آئے اور وہ محسوس نہ کر سکے تو پھر اِس میں کسی کی محبت کا کیا دوش؟ کیونکر کسی کی محبت کو نہ ہونے کا طعنہ دینا؟ اگر ہم اپنی محبت کے دعویدار ہیں تو کم از کم دوسروں کی محبت کا بھی بھرم رکھیں۔ محبت ہونے نہ ہونے یا محبوب کی سند کی محتاج نہیں ہوتی۔ جس طرح ہر انسان کی شخصی اور ذاتی عزت ہوتی ہے۔ اسی طرح اُس کی محبت کا معاملہ بھی اُس کا اپنا ذاتی ہے۔ اُسے محبت ہے یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساری حقیقت صحیح وقت پر آشکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اصلیت تادیر چھُپ نہیں سکتی۔۔۔۔۔ 

اور پتا ہے! سب سے زیادہ تکلیف بلکہ اذیت تب ہوتی جب کسی کی محبت کی موجودگی کا انحراف کیا جائے۔ اس کے نہ ہونے کا طعنہ دیا جائے۔ اس طعنے کی تکلیف اتنی ہے کہ دعا ہے یہ طعنہ ان کو کوئی نہ دے جو دوسروں کو دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ 

دعا ہے کہ اللہ جی اِن دنیاوی محبتوں سے دِل پاک کردے جس میں ہونے کے باوجود بھی نہ ہونے کے طعنے ملتے ہیں۔ اور اللہ جی اپنی محبت عطا فرما۔ کیونکہ اے اللہ تو کسی کو طعنہ بھی نہیں دیتا چاہے محبت میں خلوص ہو یا دکھاوا ہو۔تو محبت نبھاتا ہے، محبت کا بھرم رکھتا ہے۔ ہم نحیف اور کمزور تیری محبت کے دعویدار تو نہیں مگر ٹوٹی پھوٹی عیب دار، دنیا داروں کی ٹھکرائی ہوئی محبت لے کر تجھ سے التجا کرتے ہیں مالک ہماری ساری کی ساری محبتوں کا رُخ اپنی طرف موڑ لے۔ آمین ثمہ آمین 




اِختیار اور مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔




اِختیار اور مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کب سے سوچ رہا تھا کہ اِن دو الفاظ کا آپس میں کتنا گہرہ تعلق ہے ناں؟ دِن رات کی مانند جو ہمیشہ ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔ ہم اگر زندگی کے کسی بھی مقام کا مشاہدہ کرلیں جہاں ہم نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہو۔۔۔۔۔ وہاں اُس مقام پہ ہمارا اختیار مجبوری میں بدل دیا گیا۔ ہمارے اختیار کے استعمال میں کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آ گئی۔۔۔۔
ہماری زندگی ایک بہتی ندّی کی مانند ہے، جس کے بہاؤ کے ساتھ ہم بہتے جا رہے ہیں۔ اور زندگی میں اِختیارات کا استعمال یوں ہے جیسے ندّی کے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں تیراکی کرتے ہوئے کنارے پہ پہنچنے کی کوشش کرنا۔ بہاؤ سے مزاحمت کرتے کرتے مجبوریوں کی موجیں ہماری سانسیں اُکھاڑنے لگتی ہیں، ہمارے حوصلے پست کر دیتی ہیں اور پھر غوطے دے دے کر جان لے لیتی ہیں۔
اِسی طرح ایک سائل اُسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جس دَر پہ وہ دستِ سوال دراز کر رہا ہے آیا کہ وہاں سے اُس کی اُمید بر آئے گی؟ پھر بھی اُسے ایک اُمید ہوتی ہے، اُسے مان ہوتا ہے۔ کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا۔ اور اِسی مان کے ساتھ سائل اپنا اِختیار استعمال کرتے ہوئے سوال کرتا ہے۔ اور وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سامنے والا دینے پہ مختار ہے اور وہ اپنا اختیار استعمال کرکے میری طلب پوری کر دے گا۔ مگر سائل کو یہ نہیں معلوم کہ بسا اوقات مختار بھی مجبور ہوتا ہے، اُس کی مراد پوری نہیں کر پاتا اور سائل مجبور ہوکر واپس چلا جاتا ہے۔ سائل کا اپنا اختیار تھا اور مختار کا اپنا۔ مگر دونوں کے اختیارات کو مجبوری نگل گئی۔ ایک مانگنے کے باوجود خالی ہاتھ لوٹنے پہ مجبور ہوا، تو دوسرا دینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خالی ہاتھ لٹانے پہ مجبور ہوا۔
انسان نہ مکمل طور پہ مختار ہے اور نہ ہی مجبور۔۔۔۔۔ بس ان دنوں کے درمیان لٹکتا رہتا ہے۔ انسان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے اختیارات اُس ذات کو سونپ دے جو کہ مجبور نہیں اور نہ اُس کی کوئی مجبوری ہے۔ جو کہ مختارِ کُل ہے۔ وہی سب کی مجبوریاں دُور کرنے پہ قدرت رکھتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دے، اور دینے والے کی مجبوریاں بھی ختم کردے۔ ایک یہی صورت ہے جو انسان کو مختار بناتی اور مجبور بھی نہیں ہونے دیتی۔


یرے نفس نے مجھے نصیحت کی





میرے نفس نے مجھے نصیحت کی اور بتایا کہ میں اس سے
محبت کروں، جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور اس سے خلوص برتوں، جس سے لوگ بغض و کینہ رکھتے ہیں۔ اس نے مجھ پر واضح کیا کہ محبت چاہنے والے کا نہیں، چاہے جانے والے کا امتیاز ہے۔
اور اپنے نفس کے نصیحت کرنے سے پہلے محبت میرے لیئے ایک باریک دھاگا تھی، جو پاس پاس گڑھی ہوئی دو میخوں کے درمیان کسا ہوا تھا۔ لیکن اب اس نے ایک ہالے کی صورت اختیار کرلی ہے، جس کا اول، آخر ہے اور آخر اول۔ جو ہر موجود کو محیط ہے، اور آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے تاکہ آیندہ جو بھی عرصئہ وجود پر قدم رکھنے والا ہو، اسے اپنی 
آغوش میں سمیٹ لے۔ 



اب خواب نہ دیکھو



اب خواب نہ دیکھو 
نیندوں میں خلل آتا ہے۔۔۔۔۔۔



کیا میں پاگل ہوں؟






پہلی بار یہ سوال اُس نے اپنے آپ سے کیا تھا۔ اور پھر ایک گہری سانس لے کر

خاموش ہو گیا۔ لحظہ بھر کے توقف کے بعد لمحہ بہ لمحہ یہی سوال دہراتا جا رہا تھا کہ "کیا میں پاگل ہوں؟ کیا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی پاگل ہوں؟" جب سماعتوں سے خلافِ معمول کوئی بات یا کوئی لفظ ٹکرائے تو پھر وہ سوال بن جاتا ہے۔ یہ جو دُنیا جس میں ہم رہتے ہیں،حقیقت و سرابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کانٹوں و گلابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظاروں و حجابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہوں و ثوابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سوالوں و جوابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں اِس دُنیا میں کسی کا جواب کسی کے لیئے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ اور کسی کے سوال میں جواب موجود ہوتا ہے۔ بسا اوقات آدمی کے چاروں اطراف جواب موجود ہوتے ہیں جو اُسے اپنے آپ سے سوال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا عجیب بات ہے ناں؟ اپنے اردگرد جواب موجود ہوتے ہوئے بھی بندہ خود سے سوال کرے۔ اور کبھی اندر سے اُبھرنے والے سوال کا باہر کسی کے پاس بھی کوئی جواب موجود نہ ہو۔ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم خود سے سوال کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ہمیں پہلے ہی اس کا جواب، اطراف کے لوگوں سے مل چُکا ہوتا ہے۔ شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ ہماری حقیقت ہمارے اندر پوشیدہ ہوتی ہے۔ اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اندر جیسے کوئی رہبر بیٹھا ہو، جو ہمیں صحیح راستہ دکھاتا ہو۔ جو ہمیں ہم سے زیادہ اور بہتر جانتا ہو۔ صحیح و غلط کی پہچان کرواتا ہو۔ ہمارا آئینہ ہو جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں دیکھ کر ہم خود کو سنوارتے ہوں۔ اِسی لیئے جب تک ہمارے اندر سے فیصلہ نہیں آجاتا، تب تک باہر کے جوابوں سے ہماری پوری طرح تشفی نہیں ہو پاتی۔

"وہ" بھی بیٹھا اسی لیئے اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا میں پاگل ہوں؟ کیا میں کسی کے لیئے ایذا یا تکلیف کا باعث بنا ہوں؟ میں نے کسی کا حق مارا ہے، یا پھر کسی کو دھوکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مگر اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ پتا ! جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "انسان کے ذہن میں کئی سوالات ایک ساتھ شور مچا رہے ہوں، اور دِل کے پاس کوئی جواب نہ ہو اور اُس نے چُپ سادھ رکھی ہو۔ تو ایسے میں انسان کی حالت سمندر جیسی ہو جاتی ہے۔ باہر ساحل پہ لہروں کا شور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اندر خاموشی ہی خاموشی، گہرا سناٹا ہو جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری زندگی یہی انسان کئی طرح کے سوالوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ان میں چند ایک یا پھر کئی نظر انداز بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ مگر جو سوال اُس کی ذات کے متعلق ہو۔ وہ اُسے چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر پاتا۔ بلکہ وہ سوال اُس کی زندگی کو ہی سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔ وہ تب تک سُکھ کا سانس نہیں لیتا جب تک کہ وہ اس سوال کا جواب نہ پالے۔ یہی سوال ہی تو ہے جو انسان کو جلوت سے خلوت میں اور کبھی خلوت سے جلوت میں پہچاتا ہے۔ یہ سوال ہی تو ہے جو انسان کو دشت میں مارا مارا پھراتا ہے، تو کبھی صحراؤں، بیابانوں کی خاک چھنواتا ہے۔ یہ سوال ہی تو ہے جو ہاتھوں میں کاسہ گدائی پکڑا کر بندوں کے حضور دستِ سوال دراز کرنے پہ مجبور کرتا ہے۔


اُسے بھی سوال ہی نے بے چین کر رکھا تھا۔ اچانک سے اُسے خیال آیا کہ کیوں نہ پاگل خانے جایا جائے، شاید وہاں سے کوئی جواب مل جائے کہ پاگل کیسے ہوتے ہیں؟َ کسی جاننے والے سے پاگل خانے کا پتہ معلوم کرکے وہ وہاں جا پہنچا۔ اندر داخل ہوتے وہ اپنے گردوپیش کا جائزہ لینے لگا۔ وہاں کا ماحول بھی اُسے باہر کی فضا سے مماثلت رکھتا محسوس ہوا۔ بالکل ویسی ہی ہلکی ہلکی دھوپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پہ بادلوں کو آگے کی جانب دھکیلتی ہوئی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پہ سایہ کرتے بادل قطار در قطار ہجرت کرتے جا رہے تھے۔ 


وہ آگے بڑھ کر باغیچے سے ہوتا ہوا جاکر اُس عمارت کے اندر داخل ہوا اور وہیں نزدیک پڑے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ جس مقصد سے وہ یہاں آیا تھا اُسی کو مدنظر رکھتے ہوئے وھاں موجود لوگوں کو دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ اسی ضمن میں اُس کی نگاہ ایک ڈیڑھ فرلانگ دور بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو اُسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ پہلے تو وہ اُسے اس طرح سے ہنستا دیکھ کر گھبرایا، مگر پھر اپنی ہمت بڑھاتے ہوئے اس شخص کی جانب دیکھ کر ہلکی سی مگر بناوٹی مسکراہٹ سے تبادلہ کرنے لگا۔ اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ آخر یہ شخص مجھ پہ کیوں ہنس رہا ہے؟َ شاید وہ مجھے پاگل سمجھ رہا ہو، جو ابھی ابھی کسی پاگل خانے سے فرار ہو کر یہاں آیا ہو۔ 

وہاں سے نظریں ہٹیں، تو قریب ہی ایک کمرے کی دیوار سے ملحقہ ایک کھڑکی کے نیچے زمین پہ بیٹھا ایک شخص نظر آیا، جو محو حیرت نظر آ رہا تھا۔ معلوم نہیں وہ کن خیالوں میں غرق تھا۔ شاید وہ بھی خود سے یہی سوال کر رہا ہو کہ کیا میں پاگل ہوں؟ وہ کافی دیر تک اسے ٹک ٹکی باندھے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اُس شخص میں سوائے پلکوں کی جنبش کے اور کوئی حرکت نظر نہ آئی۔ خدا جانے اس کے اندر کیا طلاطم برپا ہو گا جس نے اسے باہر سے ساکت کر چھوڑا تھا۔ اُسے دیکھ کر گھٹن سی محسوس ہونے لگی تو وہ باہر آکر باغیچے میں موجود ایک کیاری کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا۔ وہاں اُسے ٹہلتے ہوئے ایک شخص نظر آیا جو کہ تیزی اور پھرتی کے ساتھ گھاس پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ کبھی ٹہلتے ٹہلتے باغیچے کے اُس کونے تک پہنچ جاتا تو کبھی اس نکڑ پہ آجاتا۔ وہ چلتے چلتے مسلسل منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ جیسے وہ اپنے آپ سے ہی باتیں کیئے جا رہا تھا، کیئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک اُسے تکتا رہا۔ مگر اُس شخص کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ مسلسل بولتا چلا جا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان زندگی میں سب سے زیادہ باتیں اپنے آپ سے کرتا ہے۔ اندر ہی اندر وہ بولتا رہتا ہے۔ اور وہ شخص بھی تو یہی کر رہا تھا، مگر فرق صرف اتنا تھا کہ اُس کی اندر کی باتیں اب اُس کی زبان سے جاری ہونے لگی تھیں۔ اور شاید یہی وجہ بنی اُس کے پاگل خانے تک پہنچنے کی۔ 

وھاں اُس دن کا ایک طویل حصہ گزارنے کے بعد اُسے وھاں کوئی ایسا شخص نظر نہ آیا جسے دیکھ کر لگتا کہ اُس نے لوگوں کو ستایا ہوگا، ان کی دل آزاری یا انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہوگی۔ اس کے برعکس وہ یہاں یہ سوچ کر آیا تھا کہ لوگ آپس میں گتھم گتھا ہونگے، کوئی گالم گلوچ سے پیش آ رہا ہوگا تو کوئی چیزوں کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہوگا۔ کسی کے منہ سے حسد و جلن کے باعث جھاگ نکل رہی ہوگی۔ کہیں چوری، ڈکیتی، لُوٹ کھسوٹ تو کہیں کوئی قتل و غارت میں مصروف ہوگا۔ کہیں کوئی رہنما بن کر خوبصورت شیروانی پہنے اپنی عوام الناس کو چُونا لگا رہا ہوگا تو وہیں عوام الناس بھی ایک دوسرے کو اپنی مکاری و عیاری کے جوہر دکھانے میں مصروف ہونگے۔ جہاں بلی کو دودھ کی رکھوالی دی گئی ہو گی اور محافظوں سے لٹیروں کا کام لیا جاتا ہوگا۔ مگر وہاں اُسے ایسا کچھ دکھائی نہ دیا۔ کوئی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچ رہا تھا۔ سب اپنے آپ میں ہی مصروف تھے۔ بلکہ وھاں موجود ہر شخص کسی نہ کسی کا ستایا نظر آیا۔ یوں لگا جیسے دنیا والوں سے بھاگ کر انھوں نے یہاں آکر پناہ لی ہو۔ چونکہ یہ پاگل خانہ اس لیئے لوگوں کو یہاں رہنے والے ہر ایک کے ماتھے پہ لکھا نظر آتا ہے کہ وہ پاگل ہے۔ جیسے مسافر خانے اور مہمان خانے میں موجود لوگوں کو مسافر یا مہمان کہا جاتا ہے۔ مگر جیسے یہ ضروری نہیں کہ ہر مسافر خانے میں موجود لوگ مسافر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر مہمان خانے میں موجود لوگ مہمان ہی ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ پاگل خانے میں پاگل ہی بستے ہوں۔ 


ایک سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے پاگل ہونے کے پیچھے کیا وجہ یا کیا عوامل ہوتے ہیں جن کی بدولت کوئی پاگل ہو جاتا ہے۔ یا پھر پاگل کہلایا جانے لگتا ہے؟ یوں تو اِنسان کے پاگل ہونے کی بہت سے وجوہات ہیں۔ مگر اُن سب میں سرفہرست ایک وجہ اپنے خالص و قیمتی جزبات و احساسات کو غلط جگہ ضائع کرنے سے بھی انسان پاگل کہلایا جانے لگتا ہے۔ جب انسانی جزبات کی قدر نہیں ہوتی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ٹھکرائے جاتے ہیں تو بس وہی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ انسان جسمانی اذیت تو جیسے تیسے برداشت کرلیتا ہے، ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرکے زندگی گزار لیتا ہے مگر جب اس کے خالص جزبات کو جب ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ اس ذہنی اذیت کی تاب نہیں لا سکتا۔ اور لوگ اُسے پاگل، پاگل کہنے لگتے ہیں۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے آپ ہی سے سوال کرنے لگتا ہے کہ کیا میں پاگل ہوں؟ "اس لیئے بندہ بجائے اپنے قیمتی جزبات کو غلط جگہ ضائع کرنے کے، اپنے رب کو سونپ دے۔ بندہ چاہے رب سے جیسے اپنے جزبات کا اظہار کرے وہ بُرا بھی نہیں مانتا اور نہ ہی پاگل کہتا ہے۔ بلکہ جزبات کی قدر کرتا ہے۔ یا پھر اپنے جزبات اُن لوگوں پہ صرف کرنے چاہئیں جنھیں اُن کی قدر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کی زندگی میں وہ شخص خاص یا اولین اہمیت کا حامل ہے۔ 

سورج ڈوبنے والا تھا اور دن تقریباَ ڈھل چکا تھا۔ وہ وہاں سے باہر نکلا اور سڑک کے کنارے چلنے لگا۔ اسے یہاں آکر اُس کے سوال کا جواب مل چُکا تھا۔ اب کی بار جو اُس نے اپنے آپ سے وہی سوال کیا کہ "کیا میں پاگل ہوں؟" تو اندر سے کوئی چنگاڑھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ھاں تُو پاگل ہے۔ پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے تُو۔ اور اب واپس پاگل خانے کی طرف جا رہا ہے۔" یہ جواب سُن کر وہ قہقہ لگا کر ہنسنے 

لگا۔ 



Friday, November 27, 2015

Tumhai dua'on se Jo maine paa liyea.


Chorao Nazerien,
Churao Daman,
Badal K Rasta,
Barhao Uljhan.......
Tume Duaon Se
Phir B Meine
Jo Pa liya
To Kiya Kro Gay.......???



Maine seekhi hai mohanbat

Maine seekhi hai mohabbat
Un logon se Jo apne thy
Woh log Jo apnayat ka ehsaas dilate thy
Woh sab jhoot tha
Fateb tha
Dhoka tha
Woh mohanbat nahin thi
Zaroorat thi.

Wednesday, November 25, 2015

ﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﭘﺘﻬﺮ ﻣﺠﻬﮯ ﺍﮌاﺗﺎ ﮨﮯ


ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﭘﺘﻬﺮ ﻣﺠﻬﮯ ﺍﮌاﺗﺎ ﮨﮯ 
ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺗﺎ ﮨﮯ



اک دعا گو نے رفاقت کی تسلی دے کر



اک دعا گو نے رفاقت کی تسلی دے کر
عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں


Saturday, November 21, 2015

کون ہے وہ ،، جس نے یہ حال کیا ہے میرا


کون ہے وہ ،، جس نے یہ حال کیا ہے میرا 
کس کو اتنی آسانی سے ،،، حاصل تھا میں ؟؟


Friday, November 20, 2015

محبّت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی


محبّت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی 
شروع حق سے ہوئی اور شک پہ ختم ہوئی


Wednesday, November 18, 2015

تمہیں خبر ہے




تمہیں خبر ہے
کہ تم وہ دعا ہو
وہ دعا ... جسے مانگ کر 
یہ بھی مانگا جاتا ہے 
کہ یہ میرے حق میں قبول ہو کر 
کسی اور کے حق میں قبول نہ ہو ۔۔۔۔ 


نام لیتی ہے ہر گھڑی میرا



نام لیتی ہے ہر گھڑی میرا

ایک لڑکی پہ میرا سایہ ہے


Friday, November 13, 2015

کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا


کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا 
مری زمیں پہ ہوا کا ______ دباؤ ایسا تھا


Sunday, November 8, 2015

پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں


پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے _______ ہوۓ تھک جاتا ہوں


جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی


جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی
خُدا معلوُم اُس کے دِل میں کیا ہے


کہتے ہیں نقشِ پا


کہتے ہیں نقشِ پا 
کہ رکا تھا وہ دیر تک


فریب دیتی ہوئی مہربانیوں سے مجهے


فریب دیتی ہوئی مہربانیوں سے مجهے
کسی نے کهینچ لیا خوش گمانیوں سے مجهے

Saturday, November 7, 2015

ﮨﻢ ﺍﻧﺎ ﺯﺍﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﮯ !!


ﮨﻢ ﺍﻧﺎ ﺯﺍﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﮯ 
ﮨﻢ ﺟﮭُﮑﺎﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﯿﮟ !! ﻣﻌﺬﺭﺕ۔


سبب خاموشیوں کا ۔۔۔۔ میں نہیں تھا


سبب خاموشیوں کا ۔۔۔۔ میں نہیں تھا
مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے


چاہتا تھا بہت سی باتوں کو


چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں


Tuesday, November 3, 2015

')