Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Wednesday, May 25, 2016

مجھے علم ہے ھم دونوں ایک نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔


مجھے علم ہے ھم دونوں ایک نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔
مجھے اندازہ ہے آپ اور میں ایک آسمان پر نہیں ہیں 
مجھے اس بات کا پتہ ہے آپ کی اور میری زمین بھی ایک نہیں ہے 
میں اچھے سے واقف ہوں کہ ہماری سمتیں الگ الگ دیشاؤں کی طرف نکلتی ہیں 
لیکن میں اک پل کے لیے آپ کو اپنے آسمان پہ لانا چاہتی ہوں 
ایک لمحہ کو آپ کے ساتھ اپنی زمین پہ چلنا چاہتی ہوں 
پھر چاہے وہ کوئی خواب و خیال ہو یا پھر حقیقت سے مروی کوئی الگ جہاں ۔۔۔
آپ اسے کچھ بھی سمجھیں دل لگی ،کھیل یا پھر کچھ اور ۔۔۔۔لیکن میں ایک پل کے لیے ایسا ممکن کرنا چاہتی ہوں 
فرض کریں اگر ایسا ممکن ہو جائے میرے لیے تو ۔۔۔میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ۔۔۔۔
کیا آپ ایک لمحہ بھر کو سب کچھ بھول کر میرے آسماں پہ آ سکیں گے ؟؟؟
کیا ایک پل کے لیے میری زمیں پہ قدم رکھ کر اسے معتبر بنا سکیں گے ؟؟
صرف اک پل کے لیے 
اک لمحے کے لیے میں قسمت سے کچھ چرا لینا چاہتی ہوں 
میں آپ کو ایک پل کے لیے اپنی دنیا کا حصہ دیکھنا چاہتی ہوں 
میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ آسمان چاند اور تاروں سے بھرا کیسا لگتا ہے 
میں دیکھنا چاہتی ہوں مکمل ہونے کا احساس کیسا لگتا ہے 
میں اس بات کو محسوس کرنے کا تجربہ کرنا چاہتی ہوں کہ چیزیں مکمل ہو کے کیسی دکھتی ہیں 
ہواؤں میں خوشبوؤں کو محسوس کرنا چاہتی ہوں 
فضاؤں میں روشنیاں کیسے بکھرتی ہیں میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں 
روشنی دیکھے ہوئے بھی عرصہ ہو گیا ہے اور اب تو تاریکی سے بھی دل کی نہیں بنتی ۔۔کیا آپ میری دنیا کی تاریکی کو چند لمحوں کے لیے سمیٹ سکتے ہیں ؟
کیا آپ کچھ پلوں کے لیے میرا ہاتھ پکڑ کر مکمل ہونے کا احساس دلا سکتے ہیں 
کیا کچھ گھڑیاں آپ مجھے ان خوشبوؤں کی مہک سے روشناس کروا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟



ﻭﮦ ﺑﮯ ﺣﺴﯽ ﮨﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺷﮑﺴﺖِ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻨﯿﺮ


ﻭﮦ ﺑﮯ ﺣﺴﯽ ﮨﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺷﮑﺴﺖِ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻨﯿﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﮭﮍ ﮐﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ، ﻏﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ







ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﭘﻠﭩﻮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺻﺪﺍ ﺩﮮ ﮔﺎ،


ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﭘﻠﭩﻮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺻﺪﺍ ﺩﮮ ﮔﺎ،
ﭘﮩﻠﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ



ﮐِﺴﯽ ﮐﮯ ﺑِﻦ، ﮐِﺴﯽ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺑِﻦ


ﮐِﺴﯽ ﮐﮯ ﺑِﻦ، ﮐِﺴﯽ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺑِﻦ،
ﺟِﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ؟ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ !







ﺗﻢ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﺧﻮ ﮔﺮ، ﮨﻢ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺷﯿﺪﺍﺋﯽ


ﺗﻢ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﺧﻮ ﮔﺮ، ﮨﻢ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺷﯿﺪﺍﺋﯽ
ﺑﺴﺘﯿﺎﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ







ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺩﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺯﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ


ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺩﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺯﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ



Tuesday, May 24, 2016

میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چن رہا ہوں ابھی


میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چن رہا ہوں ابھی
طلوعِ صبح کے لمحے ذرا ٹھہر جائیں



عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے


عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے
وقت کہتے ہیں کسی کے لئے رکتا تو نہیں







اب جو آیا تو منہ توڑ دوں گی


اب جو آیا تو منہ توڑ دوں گی
عشق واقف ہے میرے غصے سے




شکست و ریخت کا اول سے ہے عمل جاری


شکست و ریخت کا اول سے ہے عمل جاری
نہ جانے کیا مری تعمیر میں خرابی ہے






مدتوں بعد ملا تھا وہ


مدتوں بعد ملا تھا وہ

اس سے کترا کے گزر کیوں آئے






یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں


یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں ، رتجگا بھی گیا







میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی


میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی

مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!






آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی


آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے ، اُتر جائے گا







میرے آنسو میرے اندر گرتے ہیں


میرے آنسو میرے اندر گرتے ہیں
جیسے دریا بیچ سمندر گرتے ہیں


تیری یادیں وہ طوفان اٹھاتی ہیں
اک اک کر کے سارے منظر گرتے ہیں


کتنی لہریں شعروں میں ڈھل جاتی ہیں
سوچ کے پانی میں جب پتھر گرتے ہیں


ہم نے ٹھوکر کھا کر چلنا سیکھا ہے
اور ہیں وہ جو ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں


رونے والے! یہ تجھ کو معلوم نہیں
تیرے آنسو میرے دل پر گرتے ہیں


تم بس اس کا روگ لگا کر بیٹھے ہو
سپنوں کے یہ گھر تو اکثر گرتے ہیں


کات رہا ہے عاطف کوئی آنکھوں میں
تکیے پر یہ خواب جو اکثر گرتے ہیں

دیر کتنی لگتی ہے؟


دیر کتنی لگتی ہے؟
دل کسی کا 
جوڑنے میں
رشتہ کسی سے 
جوڑنے میں
کتنے دن اور
کتنی راتیں
کرنی پڑتی 
ہیں ملاقاتیں
کتنے ماہ اور
کتنے سال
رکھنا پڑتا ہے 
اس کا خیال
شاید
عرصے لگ جاتے ہیں
لمحے گزر جاتے ہیں
لفظ بُننے پڑتے ہیں
یقین دلانا پڑتا ہے
اعتبار بنانا پڑتا ہے
لیکن
دیر پھر کتنی لگتی ہے؟
کسی کا دل توڑنے میں
رشتہ کسی سے توڑنے میں
اک ہی لمحے میں
لفظ چند ہی
بولنے سے
شک ذرا سا
کرنے سے
دل ٹوٹ جاتا ہے
برسوں پرنا رشتہ
ایک پل میں 
ٹوٹ جاتا ہے
پھر دل جوڑنے میں
رشتہ پھر بنانے میں
یقیں پھر دلانے میں
دیر کتنی لگتی ہے؟
شاید
زندگی ختم ہو جاتی ہے
دیر اتنی لگتی ہے


Tuesday, May 17, 2016

!نہیں نہیں



!نہیں نہیں
میں اکیلا تو دل گرفتہ نہ تھا 

!شجر بھی بیٹھا تھا مجھ سے کمر لگاۓ ہوئے 



Monday, May 16, 2016

ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﺎ


۔۔۔ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﺎ؟ ﭼﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﺎ ﮐﺮﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔۔

 ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ؟
ﺟﻨﮑﻮ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑُﻨﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ۔۔۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ؟


ﺍﺗﻨﮯ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ


ﺍﺗﻨﮯ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ
ﺍﺗﻨﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮫ ﮐﮧ ﺑﮭﺮ ﺍٓﺋﯽ ﮨﮯ





ﺭﻭﺯ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻻﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺳﮩﺎﻧﺎ ﺳﺎ


ﺭﻭﺯ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻻﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺳﮩﺎﻧﺎ ﺳﺎ
ﺭﻭﺯ ﺷﺎﻡ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ






ﻣﺤﺴﻦ ﯾﮧ ﺭﻧﮓ ﻭ ﺭﻭﭖ ﯾﮧ ﺭﻭﻧﻖ ﺑﺠﺎ ﻣﮕﺮ


ﻣﺤﺴﻦ ﯾﮧ ﺭﻧﮓ ﻭ ﺭﻭﭖ ﯾﮧ ﺭﻭﻧﻖ ﺑﺠﺎ ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺭﮨﻮﮞ۰۰ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯽ ﺗﻮ ﺑﮭﺮ ﮔﯿﺎ






ﺍﯾﮏ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﯼ ﺗﻮ ﺗﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ


ﺍﯾﮏ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﯼ ﺗﻮ ﺗﮭﯽ ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺗﺮﮮ ﺍﺛﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎ




ﻭﮦ ﻧﺎﻡ ﭘﮍﮪ ﮐﮯ ﻣﺮﺍ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ


ﻭﮦ ﻧﺎﻡ ﭘﮍﮪ ﮐﮯ ﻣﺮﺍ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ

ﯾﮧ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﮐﯽ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ




Friday, May 13, 2016

کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو


کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں، شام ہوئی جاتی ہے



وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے ہم اُس کی نذر ہو گئے جو واقعہ ہوا نہیں


وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے

ہم اُس کی نذر ہو گئے جو واقعہ ہوا نہیں



مجھے سمجھاؤ کہ


مجھے سمجھاؤ کہ
وہ مجھے کیسے بھول گیا۔۔؟






تُم وہ کردار بنے ہو کہ جسے دیکھتے ہی


تُم وہ کردار بنے ہو کہ جسے دیکھتے ہی

لوگ سمجھیں گے کہانی میں بُرا کُچھ بھی نہیں





مجھے وقت گزارنے کیلئے مت چاہا کر


مجھے وقت گزارنے کیلئے مت چاہا کر
میں بھی انسان ہوں مجھے بھی بکھرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔



مارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھوُ لینا


مارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھوُ لینا



اس لڑکی سے بس اب اتنا رشتہ ہے


اس لڑکی سے بس اب اتنا رشتہ ہے
مل جائے تو بات وغیرہ کرتی ہے
سوچ رہا ہوں عشق دوبارہ کر لوں میں
ویسے بھی تو ساری دنیا کرتی ہے




اب تلک میں نے بہت عشق کیے ہیں


اب تلک میں نے بہت عشق کیے ہیں 
میرا سوواں، میرا دسواں، میرا پہلا توُ تھا




اے میرے احساس کے رگ رگ میں اترنے والے


اے میرے احساس کے رگ رگ میں اترنے والے 
تم سے کہنا ہے کہ 
تم سے ؟
!مگر رہنے دو



راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں


راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو

وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں



Tuesday, May 10, 2016

آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں


آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا


آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے


آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے
عشق بیماری کا غلبہ ہے کہ افسانے کا نام




شکستِ آرزو سے ڈر گیا ہوں


شکستِ آرزو سے ڈر گیا ہوں
وگرنہ کیا نہ تھا جو کر گیا ہوں
تقاضے زیست کے پورے کئے ہیں
مگر یوں کرتے کرتے مر گیا ہوں



تمام وقت ٹہلتے ہوئے گزرتا ہے


تمام وقت ٹہلتے ہوئے گزرتا ہے
قفس میں بھی مرا شوق ِ سفر نہیں جاتا


مہلت





زندگی مہلت نہیں دیتی۔ ہے نا؟

ہر کسی کو بس روز و شب گزارنے اور کام کاج نپٹانے کا لالچ ہوتا ہے۔ اسی لالچ میں 24 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اگلے 24 گھنٹوں کے ساتھ اگلا لالچ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ منحوس چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ سیانوں نے سچ کہا ہے۔ جب احباب ساتھ ہوں تو وہی زندگی ہوتے ہیں۔ جب ساتھ نہ رہے تو ایک اور طرح کی زندگی وجود میں آ جاتی ہے۔ دوستوں کے حلقے ٹوٹتے بنتے یونہی زندگی گزرتی جاتی ہے۔ اور ایک دن ایک اکیلا جیسے آیا تھا ویسے ہی مٹی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اور یہی زندگی ہے۔

ان دوستوں کے نام جو کبھی میری زندگی کا حصہ تھے۔ لیکن زمان و مکان کی 
گردشوں نے ہمیں اتنا دور کر دیا کہ شاید ہی کبھی ملاقات ہو سکے۔




Monday, May 9, 2016

نہیں امید کے ہم آج کی سحر دیکھیں


نہیں امید کے ہم آج کی سحر دیکھیں

یہ رات ہم پہ کڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ






آ گیا ہے وہی میرا ناخدا بن کر


آ گیا ہے وہی میرا ناخدا بن کر

کیے ہیں جس نے سفینے تباہ سب میرے


چُرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے


چُرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا



محبت، اے محبت! ایک جذبے کی مسافت ہے



محبت، اے محبت! ایک جذبے کی مسافت ہے

مِرے آوارہ سجدے سے تِری چوکھٹ کے پتھر تک




قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا


قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہروٹھہرو! کہ ہم رہ گئے ہیں






Sunday, May 8, 2016

مجھے آتے دیکھا جونہی دور سے



مجھے آتے دیکھا جونہی دور سے
قدم اور جلدی اُٹھانے لگے




غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا


غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا



ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے


ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمھی ہو، میں کیا کہوں گا تمھیں



میں دوش کسی اور کو دیتا نہیں



میں دوش کسی اور کو دیتا نہیں
آیا مری تقدیر کا لکھا مرے آگے





میرا شہر اور موسم بہار





آج کا سورج اپنی آخری سانسوں پر آ کر آسمان کو سرخ کیے ہوئے ہے۔ لمحہ بہ
لمحہ ماند پڑتی روشنی منظر کو دھیرے دھیرے رنگین سے بلیک اینڈ وائٹ میں منتقل کرتی جاتی ہے۔ ابھی مغرب کو عازمِ سفر ایک طیارہ سورج کی روشنی میں کسی غیر ارضی جسم کی طرح نظر آ رہا تھا، اور ابھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ پتوں سے بوجھل درخت ہوا سے ایسے لہلہاتے ہیں جیسے فقیر کو توقع سے بڑھ کر خیرات مل جائے تو وہ جھوم اُٹھتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اس تاریک پڑتے منظر میں نہ ہو تو دنیا گونگی ہو جائے۔

یہ منظر میری حسِ بصارت اور حسِ سماعت سے ٹکرا کر اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ میں کامن روم کی بالکنی میں جا کھڑی ہوتی ہوں۔ اور تب مجھ پر اس منظر کی ایک اور جہت کھُلتی ہے، سوندھی سوندھی سی خوشبو۔ میرے آبائی علاقے میں جب رُکھوں (رُکھ= درخت، شجر) پر بہار اترتی ہے تو بُور (ننھے پھول) کھِلتا ہے۔ ٹاہلی کے پھول، نیم کے پھول اور دھریک کے پھول۔ ان پھولوں کی مہک بھی ایسی ہی جاں فزا ہوتی ہے، سوندھی سوندھی، ہلکی ہلکی اور مسلسل۔ اس ہی علاقےکی اجنبی فضاؤں میں گھُلی یہ مہک جب میری سانسوں سے ہم آغوش ہوتی ہے تو میں بے خود ہو کر اپنے آبائی علاقے ، دور اپنے پیارے سے آبائی علاقے اُڑ جانے کے لیے مچل اُٹھتی ہوں۔ لیکن میں ایک پر کٹا پرندہ صرف پھڑپھڑا کر رہ جاتی ہوں۔


لیکن میری سوچ کی اُڑان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ مہک، یہ بو باس مجھے ان گلی کُوچوں میں، کھیت کھلیانوں میں لے جاتی ہے، اس وقت میں لے جاتی ہے جب میرے شہر میں بہار اترتی تھی۔ اور دھریک پر ننھے ننھے پھول کھلا کرتے تھے۔ اور ان کی مست کر دینے والی خوشبو گرد و نواح کو مہکا دیتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مہک اور بو باس کے ساتھ بھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ خوشی اور غم کے احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں کہوں تو مالیکیول جب ایک خاص تناسُب سے نتھنوں سے ٹکراتے ہیں تو خاص قسم کے برقی سگنل پیدا کرتے ہیں۔ جو دماغ میں عصبی خُلیوں کو متحرک کر دیتے ہیں۔ مہک محسوس کرواتے ہیں۔ اور اس سے وابستہ یادوں کو بیدار کر دیتے ہیں۔ آج ، اس وقت، یہ دھیرے دھیرے اترتی شام، گزرے برسوں کی بہاروں کی ان ہزاروں شاموں میں سے ایک شام بن کر مجھ پر اترتی ہے۔ اور میں اس خوشبو کو سانسوں میں بسا کر، پہلی تاریخوں کے ہلال 
کو دیکھ کر، اپنے رب سے اُس کی رحمت کی طلبگار ہوتی ہوں۔




Wednesday, May 4, 2016

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto Biography
Former Prime Minister of Pakistan


Benazir Bhutto Date of birth: June 21, 1953
Date of death: December 27, 2007



Benazir Bhutto was born in Karachi, Pakistan to a prominent political family. At age 16 she left her homeland to study at Harvard's Radcliffe College. After completing her undergraduate degree at Radcliffe she studied at England's Oxford University, where she was awarded a second degree in 1977.
Later that year she returned to Pakistan where her father, Zulfikar Ali Bhutto, had been elected prime minister, but days after her arrival, the military seized power and her father was imprisoned. In 1979 he was hanged by the military government of General Zia Ul Haq.
Bhutto herself was also arrested many times over the following years, and was detained for three years before being permitted to leave the country in 1984. She settled in London, but along with her two brothers, she founded an underground organization to resist the military dictatorship. When her brother died in 1985, she traveled to Pakistan for his burial, and was again arrested for participating in anti-government rallies.
She flew to London after her release, and martial law was lifted in Pakistan at the end of the year. Anti-Zia demonstrations resumed and Benazir Bhutto returned to Pakistan in April 1986. The public response to her return was tumultuous, and she publicly called for the resignation of Zia Ul Haq, whose government had executed her father.
She was elected co-chairwoman of the Pakistan People's Party (PPP) along with her mother, and when free elections were finally held in 1988, she herself became Prime Minister. At 35, she was one of the youngest chief executives in the world, and the first woman to serve as prime minister in an Islamic country.

Only two years into her first term, President Ghulam Ishaq Khan dismissed Bhutto from office. She initiated an anti-corruption campaign, and in 1993 was re-elected as Prime Minister. While in office, she brought electricity to the countryside and built schools all over the country. She made hunger, housing and health care her top priorities, and looked forward to continuing to modernize Pakistan.
At the same time, Bhutto faced constant opposition from the Islamic fundamentalist movement. Her brother Mir Murtaza, who had been estranged from Benazir since their father's death, returned from abroad and leveled charges of corruption at Benazir's husband, Asif Ali Zardari. Mir Murtaza died when his bodyguard became involved in a gunfight with police in Karachi. The Pakistani public was shocked by this turn of events and PPP supporters were divided over the charges against Zardari.
In 1996 President Leghari of Pakistan dismissed Benazir Bhutto from office, alleging mismanagement, and dissolved the National Assembly. A Bhutto re-election bid failed in 1997, and the next elected government, headed by the more conservative Nawaz Sharif, was overthrown by the military. Bhutto's husband was imprisoned, and once again, she was forced to leave her homeland. For nine years, she and her children lived in exile in London, where she continued to advocate the restoration of democracy in Pakistan. Asif Ali Zardari was rleased from prison in 2004 and rejoined his family in London In the autumn of 2007, in the face of death threats from radical Islamists, and the hostility of the government, Benazir Bhutto and her husband returned to their native country.



Although she was greeted by enthusiastic crowds, within hours of her arrival, her motorcade was attacked by a suicide bomber. She survived this first assassination attempt, although more than 100 bystanders died in the attack. With national elections scheduled for January 2008, her Pakistan People's Party was poised for a victory that would make Bhutto prime minister once again. Only a few weeks before the election, the extremists struck again. After a campaign rally in Rawalpindi, a gunman fired at her car before detonating a bomb, killing himself and more than 20 bystanders. Bhutto was rushed to the hospital, but soon succumbed to injuries suffered in the attack. In the wake of her death, rioting erupted throughout the country. The loss of the country's most popular democratic leader plunged Pakistan into turmoil, intensifying the dangerous instability of a nuclear-armed nation in a highly volatile region.
In her political testament, Benazir Bhutto identified her son, Bilawal Bhutto Zardari, as her choice to succeed her as Chairman of the PPP. At the time of her death, Bialawal was only 19, still an undergraduate at Oxford. The party leadership agreed that his father, Asif Ali Zardari, would serve as acting chairman of the party until Bilawal completes his studies in England. Meanwhile, the PPP entered into a broad coalition, including the party of Bhutto's former rival Nawaz Al-Sharif, and scored an overhelming victory in the 2008 election. A member of the PPP, Yousaf Raza Gillani, was chosen to serve as Prime Minister. Later that year, President Musharraf resigned, and Asif Ali Zardari was elected President of Pakistan. Although Benazir Bhutto did not live to see these developments, the party she led and the causes she championed still play a major role in the political life of contemporary Pakistan.


')