ہمارا دن
مہینہ ، دو مہینے
سال یا پھر عمر کب درکار ہے مجھ کو
فقط اک دن !
تمھارے ساتھ کا اک دن
طلوعِ فجر کی خوشبو سے لے کر عصر کے سورج کی نرمی تک
مکمل ایک دن
بس ایک دن مل جائے جو مجھ کو
تو میں اس دن کو اپنی زندگی کا آخری دن مان کر ایسے گزاروں گا
کہ تم کو یاد رہ جائے کوئی جیون میں آیا تھا
تمھیں عورت سبھی مانیں گے
دیوی کون مانے گا
تمھیں معلوم ہے میں چائے کو انکار کرنا جرم کہتا ہوں
تمھیں معلوم ہے کافی مجھے اچھی نہیں لگتی
میں اُس دن چائے کو انکار کر دوں گا
تمھارے سامنے رکھی ہوئی کافی پیوں گا
تم کو دیکھوں گا
کہ تم کو دیکھنا، بینائی کی نا خواندگی کو ختم کرتا ہے
میں اُس دن جان کر تم کو چڑاوں گا
کہ تم غصے سے بولو، بولتی جاو
اور اُس دن چائے کا بل بھی تمھی دو گی
کہ اُس دن تم نہیں ! مہمان میں ہوں گا
مجھے معلوم ہے
وہ دن کبھی ملنا نہیں مجھ کو
مجھے معلوم ہے
یہ تین سو پینسٹھ دنوں کا دائرہ پورا نہیں ہونا
مِرے ہر سال مٰیں اک دن ہمیشہ کم رہے گا
تین سو چونسٹھ دنوں کے سال والا آدمی نظمیں کہے گا
کون جانے گا !
کہ یہ نظمیں تو اس غائب شدہ دن میں کہیں لکھی گئی ہیں
جو کسی تقویم کے اندر نہیں لکھا
وہی اک دن
تمھارے ساتھ کا اک دن
No comments:
Post a Comment