میں نے اس سے محبت کی اور بے حد کی مگر نا جانے کیوں میری اتنی محبت بھی اس کا دل نہ پھیر سکی رابطے بڑھتے گئے اور ساتھ ساتھ اس کی بیزاریت بھی کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ کاش میں مکافات عمل لکھ سکوں اسے اپنے سامنے کھڑا کر کے ہر گزرتے وقت کی گواہی دوں بتاوں کہ ضروری نہیں جسے تم چھوڑ جاو وہ بھی تمہیں چھوڑ پائے اپنی سب تکلیفیں بے چینیاں اور اذیتیں اسے بتاوں جنہیں میں نے اکیلے سہا اور جب اس کی آنکھوں میں میری شدتوں کا یقین امنڈنے لگے تو اس پل میری آنکھیں ہمیشہ کے لیئے بند ہو جائیں پھر وہ اس اذیت کو اسی طرح سہے جیسے میں نے سہا تنہا اور دم سادے سے بھی تو علم ہو نا کہ تکلیفیں کیسے جیتے جی مارتی ہیں
No comments:
Post a Comment