!سنا ہے
وفا دیمک بن کر
جنہیں چاٹ جاتی ہے
وہ وفاؤں کے پیکر کچھ ایسے بکھرتے ہیں
کہ کرچیوں میں بھی پھر ان کا پتہ نہیں ملتا
!سنا ہے
کبھی یہ رت ایسے بھی بدلتی ہے
کہ سارے مہرباں لفظ یکدم کہیں کھو جاتے ہیں
!سنا ہے
جب وجود ریزہ ریزہ ہوتا ہے
تو ٹوٹ پھوٹ بہت بے آواز ہوتی ہے
فقط اک خاموش سا موسم
اک سنسان سا رستہ
اک ویران سی ساعت
اور اک گمنام سا لمحہ
یوں ہمسفر ہوتے ہیں، گویا صدیوں کی رفاقت ہو
!سنا ہے
آندھیوں کی زد میں آ کر
پھول جو بکھر جائيں
وہ پھر سمٹا نہیں کرتے
کسی پر رنج سی ساعت کا جو نشانہ بن کے کھو جائيں
وہ پھر پلٹا نہیں کرتے
No comments:
Post a Comment