پتا نہیں اب میں مضبوط ہو گئی یا کمزور
اب میرے اندر ابال اٹھتے ہیں۔۔۔میں باتوں کو پی جاتی ہوں
مجھے اب کوی حال۔پوچھے تو ہنس کر کہتی ہوں ٹھیک ہوں
اب مجھ سے کوئی کتنے پیار سے بھی پوچھے اداس ہو میں مسکرا دیتی ہوں__نہیں تو!
اب میں اپنے پاس بیٹھے انسان کو بھی پتہ نہیں چلنے دیتی میرے اندر کیا چل رہا ہے
اب میرے لیے باتیں بے معنی ہو گئی ہیں__کسی کیلۓ اب میری نظر ہی کافی ہے
مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مویز میں دیکھتے ہیں نا ایک انسان کو بہت زیادہ مظبوط بنانے کیلئے کتنی تکلیف دینی پڑتی ہے پھر وہ ہمیشہ کیلئے مظبوط ہو جاتا ہے۔۔۔ہر ڈر کے
آگے__ہر ہار کے__آگےشاید میں بھی اس مقام پر پہنچ جاؤں
بولے تو کندن ...
ReplyDeleteویسے لفظ " مضبوط" ہے مظبوط نہیں.