بعض اوقات، خیالوں میں بھٹک جاتا ہوں
اتنا چلتا ہوں کہ بیٹھے ہوئے تھک جاتا ہوں
تین کونوں سے نکلتے ہیں گھٹن، خوف، سکوت
میں سرکتا ہوا چوتھے میں دبک جاتا ہوں
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحہ بھر کو
دل ٹھہر جاتا ہے، میں آپ دھڑک جاتا ہوں
بھاگتا ہوں کہ مساموں سے نکل جائے نمی
ورنہ کچھ روز میں آنکھوں سے چھلک جاتا ہوں
گھر سے میں کھینچ کے لاتا ہوں سڑک تک خود کو
پھر جدھر لے کے چلی جائے سڑک، جاتا ہوں
غم کی حدت نے پکائی ہے کچھ ایسے مری خاک
جب بھی دیوار سے ٹکراؤں، کھنک جاتا ہوں
کتنا آسان ہے تنہائی کو دہرا کرنا
صرف کمرے میں لگے آئینے تک جاتا ہوں
No comments:
Post a Comment