وہاں بیٹھے ہوئے زندگی میں پہلی بار میں نے سوچا
کیا ضروری تھا کہ میں پاکستان فوج میں آتا --- اور اس قوم کے لیے ان پہاڑوں پر اپنے جسم کے حصوں کو باری باری خود سے جدا ہوتے دیکھتا --- جو یہ بھی نہیں جانتی کہ شہید یا غازی کا احترام کیا ہوتا ہے-
20 سال بعد جب میں بھی ایسے کسی سٹیج پر یہ بتانے جاؤں گا کہ میرے سینے پر ہاتھ کٹوا کر سجایا جانے والا یہ تمغہ میرے لیے کیا معنی رکھتا ہے- - - - - تو شاید میں بھی کریم بخش کی طرح بات کرتے ہوئے لڑکھڑاؤں گا --- اور شاید میرے انٹرویو کے بعد بھی حاضرین اگلے کسی مہمان کے بجائے کسی سنگر کو بلوانے کی فرمائش کریں گے تاکہ اس بوریت کا سدباب ہو سکے جو انہیں چند منٹوں کے درمیان ہوئی---
میں کیوں پاکستان کی ان نسلوں کے لیے اپنا حال قربان کروں جن کے لیے ہر چیز گانے سے شروع ہو کر ناچنے پر ختم ہو جاتی ہے--
جن کے لیے ہر اہم تہوار چھٹی کا ایک اور دن اور ایک اور میوزیکل ایوننگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا-
زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو بھلاتی نہیں ہیں مگر ان کے پاس ان قربانیوں کے لیے عزت نہیں ہوتی-
(ہلالِ جرات از عمیرہ احمد)
No comments:
Post a Comment