میں کبھی اس کے رازوں میں شریک نہیں ہو سکا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے اس کے پاس کوئی راز ہی نہیں ھے۔
میرے خیال میں لڑکیوں کے پاس بہت سے راز ہوتے ۔
لڑکیاں مجھے عمر عیار کی زنبیل کی طرح لگتی تھیں جن میں عجیب وغریب کرشماتی چیزیں ہوتی ہیں۔
میں نے اکثر لڑکیوں کو دوسری لڑکیوں کے کان میں کچھ کہتے دیکھ کر پھر مسکراتے دیکھا تھا۔
کچھ لڑکیاں تو جیسے خود اپنے ہی کان میں کچھ کہہ کر مسکراتی تھیں
پر وہ۔۔تو اپنے راز خود سے بھی نہیں کہتی تھی ۔
بچپن میں اس کے پاس جو گڑیا تھی۔
ابھی تک میں اس کے پاس دیکھتا تھا۔
بلکہ وہ تو ابھی تک سب سے چھپ کر چمچ میں کھانا ڈال کر گڑیا کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتی اور کبھی کبھی تو میں نے اسے گڑیا کو ڈانٹتے بھی دیکھا تھا
نہ اس نے ساری زندگی کوئی نئی گڑیا خریدی نہ ہی کبھی کوئی راز کی بات کی۔
اس کی جوانی بھی رازوں سے خالی تھی۔
یعنی ۔۔حد ہی تھی۔
کل کی بات ھے۔۔۔۔ہماری عمر کا ہندسہ ستر سے گزر چکا ھے
پارک میں بچوں کو کھیلتے ہوئے اس دیکھ کر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ خدا کی بندی اب تو کوئی راز کی بات بتا دو۔
اس کے جھریوں سے بھرے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری تھی ۔
پاس پڑے ہوئے بیگ میں وہ کچھ ٹٹول رہی رھی تھی اور میں یوں تجسس سے بھرا اسے دیکھ رہا جیسے بچپن میں دادی اپنی پوٹلی ٹٹولتیں اور میں پاس کھڑا اس میں کسی جن کے نکلنے کا انتظار کر رہا ہوتا۔
مجھے لگا جیسے اس بیگ میں اس کے گزرے ہوئے ستر سال ہیں۔۔اور ان گزروں سالوں کے کروڑوں راز۔۔۔۔جن میں ٹٹول کر وہ آج ایک سب سے بڑا راز مجھے بتائے گی۔
پر پوٹلی سے اس نے وہی گڑیا برامد کی ۔۔جو بچپن سے اس کے ساتھ تھی۔
میرے ہاتھ میں گڑیا تھما کر وہ کچھ دیر خاموش رہی۔۔۔۔پھر میری طرف جھکتے ہوئے آہستہ سے بولی۔
یہ گڑیا سانس لیتی ھے۔
No comments:
Post a Comment