وہ نظم جو تمھارے وجود سے جڑی
تکمیل کے مراحل میں تھی
اب کے لگتا ہے کہ ادھوری ہی رہ جاۓ گی
کہ اسکو میرا بخت لے ڈوبا
وہ بھی وقت کے پنوں میں کسی کباڑ خانے
کے کسی سیلن زدہ حصے میں دھری
اپنی آخری سانسیں بھرتی کتابوں کے ملبے میں
بے سدھ پڑی ملے گی
دیکھو نا اب کے تمھاری خواہش بھی ادھوری رہ گٸ کہ میری لکھی نظمیں کسی کتب خانے میں شیشے کے اس پار خوبصورتی سے
سجاٸ کتابوں کے بیچ شان سے دھری ہوٸی ملیں
اور جب کبھی تمھارا گزر ہو ، گلاس ونڈو کے اس پار تمھاری غیرارادی نظر پڑتے ہی
میرے نام کے وہ مختصر حروف تھمارے لبوں
پر انمول سی مسکان کو بکھیر چھوڑیں
مگر کیا کی جۓ
کچھ چیزیں نامکمل ہی بھلی لگتی ہیں
اور ان میں سرِفہرست میری تمھارے لیے لکھی گٸیں وہ چند " نظمیں " ہیں
No comments:
Post a Comment