میں جو قدم اٹھاتی ہوں
تو درد کی لہر اٹھتی ہے رگ رگ میں
پاوں چھلنی ہیں،اور روح بھی ہے زخمی
مگر اے محبوب حقیقی
تجھ سے ملن کی طلب ہر درد پہ حاوی ہے
اعمال خستہ ہے ،دامن چاک ہے
حوصلے بھی ٹوٹے ہیں اور
جسم بھی آگے برھنے سے عاری ہے
مگر محبوب تیرے دیداد کی طلب ہر بات پہ حاوی ہے
لوگ روکتے ہیں مجھے کہ
مجھ جیسی نجانے کتنی اس رستے کی خاک ہوئی
آنے والے بھی تباہ ہوں گے
اور پچھلہ قافلہ بھی موت کا شکار ہوا
نصیب پہ بھی سیاہیاں چھائی ہیں
اور روحیں آسیب زدہ ہیں
رستے کی درنگی ایسی ہے کہ چہرے پہ
نقش تک نہیں چھوڑتی ۔
مگر میرے دل میں جو محبوب بسا ہے
،وہ ہر صدائیں بلند رکھے ہوئے ہیں ۔۔
رستوں لاکھ تاریک سہی
مگر محبوب تیری کن کی سدا ہر خوف پہ حاوی ہے۔
No comments:
Post a Comment