وہ نظمیں جو تم نے میرے لیے لکھیں تھیں ، میں دیکھتی ہوں کہ اب وہ کئ محبت کرنے والوں کے نام ہوچکی ہیں ، میرے سامنے ہی جب وہ نظم کوئ کسی کے لیے پڑھتا ہے تو میرے چہرے پر وہی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے جب تم پڑھ رہے ہوتے تھے ، وقت کی رفتار سست ہوجاتی اور میری نظریں تمہارے ادا کیے حرف حرف کا تعاقب کرنے لگتیں ، تمہارا تخیل میری انگلی پکڑ کے کبھی برفیلے راستوں پہ چل رہا ہوتا تو کبھی کسی پھولوں کی دکان پر ناراض کھڑا ہوتا ، پھر میں ویسے ہی لوٹ آتی ہوں وہاں سے جیسے کوئ تکلیف دہ خواب دیکھ کر نیند سے جاگتا ہے ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں نا جن کیلیے نظمیں تو لکھی جاتی ہیں پر وہ امر نہیں ہوتے ۔
No comments:
Post a Comment