وہ ایک عام سا لڑکا تھا ۔ نہ خدو خال میں کوئی انوکھا پن تھا نہ باتوں میں۔ وہی لاابالی سا انداز جو ایک نوجوان کا خاصہ ہوتاہے۔ اپنی جوانی کا جوش بلکہ زعم دنیا جیسے کوئی حقیر ترین شے ہو۔ مگر دوسرے ہمجولیوں کی طرح ایک چیز کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا۔ وہ چیزتھی صنف مخالف۔
جب اپنے دوستوں کے منہ سے ان کے معاشقوں کی تفصیل سنتا۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش میں وہ کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر داستان سناتے جیسے راجہ اندر کے جانشین ہوں۔ اس کا دل یہ سن سن کر مچل اٹھتا۔
“آخر ایسا کیا ہے جو سب ایک ہی ڈگڈگی بجائے چلے جاتے ہیں ۔ لڑکی لڑکیاں لڑکی۔۔۔۔۔“
جب اس نے اپنی عمر سے ذرا بڑے اور بزعم خود پرانے پاپیوں سے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو پہلے تو وہ سب خوب ہنسے۔ پھر طنز سے ایک نے جواب دیا“نہ نہ یہ بچوں کے کرنے کا کام نہیں۔“ اسکے ساتھ ہی سب پھر قہقہے لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔
آخر عمر کچھ آگے بڑہی تو اسے آگاہی ہوئی یہ سب تو اس کی فطرت ہے۔ جیسے مقناطیس کے مخالف سرے کشش رکھتے ہیں ایسے ہی انسانوں میں بھی اپنی مخالف جنس کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ “اسی لیے یہ سب ہوتا ہے۔“ اس نے سوچا۔ پھر اس کے دل میں خواہش بیدار ہوئی کوئی ایسا ساتھ ہونا چاہیے جس کا اظہار وہ بھی اپنے دوستوں میں فخر سے کرسکے۔
مگر فطرتًا بزدل تھا۔ آسانی کا قائل۔ پکا پکایا کھانے کا عادی۔ چناچہ اس نے انٹرنیٹ سے یاری لگالی۔ اس وبا نے اسے صرف اتنا فائدہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک لڑکی آگئی۔ اب وہ بھی اپنی عمر اور اپنی عمر سے چھوٹوں میں یہ بات بڑی بے نیازی سے اپنی لمبی لمبی چیٹ کا تذکرہ کر جاتا۔ لڑکے اس کی طرف حیرت مسرت اور رشک سے دیکھتے تو جیسے نفس کے غبارے میں ہوا بھر جاتی اور وہ پھٹنے کے قریب ہوجاتا۔ شاید اس کی بنیادی خواہش یہ ہی تھی۔ کہ اپنے آُپ کو بھی نمایاں کیا جائے۔
“کیا بات کرتے ہو اس سے“ کسی نے ایک دن پوچھ ہی لیا تو اسی بے نیازی سے جواب دیا“بھائی دکھ سکھ کہہ لیتے ہیں کچھ وہ کچھ ہم ۔ دل کا غم ہلکا ہو جاتاہے۔“
وقت بھلا رکا ہے چناچہ وقت چلتا رہا۔اس کا تعلق دوستی سے محبت میں بدل گیا مگر وقت اس کو چلتے چلتے ایک داغ دے گیا۔ انٹرنیٹ پر بے وفائی عام سی بات تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چناچہ اب وہ اپنے تئیں مجنوں بن گیا۔ لیلی کے عشق میں پاگل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بکھرے بال،بے ترتیب ڈاڑہی اور لباس سے بے پرواہی۔
اسی دور میں شاید وہ ہمیشہ رہتا مگر ایک دن یوں ہی نہر کنارے بیٹھا جب بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا تو ایک اسی جیسا آدمی پاس آ کر بیٹھ گیا۔
بے ترتیب بال،چیتھڑوں میں ملبوس ناخن میل سے بھرے۔ “کیا ہے بے کیوں اتنا اداس ہے“ آنے والے کا لہجہ بھی اس کے لباس کی طرح تھا۔
“تمہیں کیا اپنا کام کرو جا کر“ وہ بے نیازی سے بولا اور اپنے پرانے شغل میں لگ گیا نہر کے پانی پر نظریں جما کر جیسے کچھ تلاشنے لگا۔
“سالے عاشق ہے۔ تبھی یہ حال کیا ہوا ہے“ اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔
“تمہیں کیسے پتا چل گیا یہ سب بابا“ اب کے اس کا لہجہ عجز سے بھرا ہواتھا۔
“ہاہاہاہاہا ساری ہوا نکل گئی بس اتنا ہی دم تھا“ بابا اب ہنسا تھا۔ “چل بتا دے سنادےجوتیرے ساتھ ہوا“
پھوڑے پر نشتر لگے اوراوہ بہے نہ۔ وہ تو جیسے بھرا بیٹھا تھا۔ سب سنا چکا تو بابا بولا“بے تو نے اس سے رشتہ داری کیوں نکالی تھی“
“بابا ایک دوست کی ضرورت تھی کسی غم خوار کی“
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا“ بابا یہ سن کر بے اختیارہنسنے لگا بے تحاشا جب ہنس ہنس کر تھک گیا تو بولا
“غم خوار کی ضرورت تھی۔ہاہاہاہا غم خوار ابے یوں کیوں نہیں کہتا کہ اندھا ہو گیا تھا۔“
اس کے بعد پھر وہ ہنسنے لگا تھا۔
“ابے اگر غم خوار کی ضرورت تھی تو جس نے پیدا کیا ہے کیا وہ مرگیا۔ اس کے کہتا وہ تیرا دکھ درد نہ سنتا۔ ہاہاہاہاہا پر تو نہیں مانے گا تیرے اندرتونفس نے ادھم مچایا ہوا تھانا تجھے غم خوار کی نہیں نمائش کی ضرورت تھی۔ ابے کبھی اس کی طرف بھی تو توجہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر دیکھ تیرے غم کیسے ہلکے کرتا ہے وہ۔ہاہاہاہاہاہا پاگل“
بابے پر پھر ہنسی کا دور پڑا تھا اور پھر وہ ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درخت گھاس اور آتی جاتی گاڑیاں لوگ سب قہقہے لگا رہے ہوں اور چیخ رہے ہوں پاگل پاگل پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔