Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Tuesday, March 31, 2015

ﺳْﻨﻮ ﺍﮮ ﻣﺤﺮﻡِ ﮨﺴﺘﯽ !



ﺳْﻨﻮ ﺍﮮ ﺯﯾﺴﺖ کے ﺣﺎﺻﻞ 
!۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ 
ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ 
ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﮔﻢ ﮐﺮﻭﮞ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﮯ 
ﺳﺐ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳﻮﭺ ﺳﮯ 
!!ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔۔۔


Monday, March 30, 2015

چلا گیا ہے


چلا گیا ہے
تصور کی سرحدوں سے پرے
وہ اک شخص
جو اکثر رہا ہے آنکھوں میں


وہ جن کے قہقوں سے لرزتی تهی زندگی


وہ جن کے قہقوں سے لرزتی تهی زندگی
کہتے ہیں ان کی آنکھ بڑی سوگوار تهی


ﮐﭽﻠﮯ ﮬﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﻠﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ


ﮐﭽﻠﮯ ﮬﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﻠﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ

ﮬﻢ ﻟﻮﮒ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮱ


میں نے کہا تھا نا ٰ خوشبو میں مت بدل


میں نے کہا تھا نا ٰ خوشبو میں مت بدل
اب دیکھ تیرا وجود میری حسرتوں میں ہے۔ ۔ ۔



ان کہے سوالوں کا


ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹیس 
کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے
آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط ٹوڑ آئی ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آئی ہوں


Wednesday, March 25, 2015

مالک اور بندہ



بندے اور مالک کا تعلق بڑا عجیب سا ہے۔۔ ۔مالک بے غرض ہے۔ بندہ خود غرض ہے ۔بندہ مانگتا بھی ہے تو اپنی غرض سے مانگتا ہے۔ مالک دیتا ہے تو بے غرض دیتا ہے، بے حساب دیتا ہے ، خوشی دیتا ہے، رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے۔ بندہ حساب رکھتا ہے، ابھی اتنا غم ملا تھا، ابھی اتنا رزق ملا تھا ، ابھی اتنا دے دیا تھا ۔ مالک شہنشاہ ہے، بندہ گدا ہے۔ مالک سخی ہے ، بندہ منگتا ہے۔ مالک کہتا ہے مانگ، کیا مانگتا ہے۔ میں دیتا ہوں۔ بندہ جب جان پر پڑے تبھی مانگنے کی جانب آتا ہے ۔ مالک تو اتنا سخی ہے کہ آدابِ بندگی بھی سکھاتا ہے۔ بندہ خود غرض ہے، اپنی غرض کے لیے بھی آدابِ بندگی نہیں سیکھتا۔ اس لیے جب دربار ِ خداوندی میں جاتا ہے تو اسے ٹھیک طرح سے مانگنا بھی نہیں آتا۔ غرض پڑے، سر پر مصیبت آن پڑے تو رب کے حضور حاضری ہوتی ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں اور اگر اُس کی توفیق ہو جائے تو دو آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ بندہ رب کو بھی ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔


تُو سخی مولا۔


تیرا نبی ﷺ سخی مولا 


تیرے نبی ﷺ کا گھرانہ سخی مولا


سخیوں کا واسطہ سخیا، میری جھولی بھر دے


تُو تو مالک ہے مولا


تو شہنشاہ


میں تیرے در کا گدا


تُو اپنے نبی ﷺ پیروں کی خاک کا صدقہ ۔میری جھولی بھر دے


تُو تو بادشاہ ہے مولا


تیرے خزانوں میں بھلا کیا کمی آ جائے گی


تو یہ مُجھے دے دے۔ باقیوں کو اس سے بہتر دے دیجیو


تُو تو آل اِن آل ہے مالک۔ تُجھے کسی نے بھلا کیا پُوچھنا۔ 


یہ فیور کر دے نا مالک۔ تُو تو۔۔۔۔۔۔


بندہ گناہگار ہے۔ سیاہ کار ہے۔ جب ہاتھ اُٹھا کر مانگتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اُس کے پلے تو کچھ نہیں ہے۔ ایک ایک گناہ یاد آتا ہے ۔ ہر گناہ جو چھڈ یار خیر اے کہہ کر کیا ہوتا ہے، تو سر ندامت سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جائے۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ نیچے زمین پر ٹک جاتے ہیں۔ سرِ ندامت جھُکتے جھُکتے وہاں جا لگتا ہے جہاں اس کا اصل مقام ہے۔ بندہ سجدے میں روتا ہے۔ زار زار روتا ہے۔ اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ اور پھر اپنی خواہشات پر اور زیادہ روتا ہے ۔رب کو اس کی ستاری کا واسطہ دیتا ہے۔ غفاری کا واسطہ دیتا ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ اور ساتھ مان بھرے انداز میں مانگتا بھی ہے۔ پتہ ہے کہ دینا تو اُس نے ہی ہے۔ رب تو مالک ہے۔ بندہ اس کے در کاسگ۔ سگ بھی ایک وفادار جانور ہے اپنے مالک کا بُوہا نہیں چھوڑتا۔ بندہ تو بندہ ہو کر بھی سگ سے نہیں سیکھتا۔ سارا پِنڈ پھرتا ہے۔ لُور لُور پھرتا ہے۔ پھر جب بھوک لگتی ہے تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے کہ اب روٹی ملے گی۔ یہیں سے ملے گی۔ بندہ ایسا سگ ہے جو خواہش پوری کروانی ہو تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے۔ پتہ ہے کہ عطاء تو یہیں سے ہونی ہے۔ اگر یہاں سے فائل پر سائن ہو گئے تو پھر ڈر کاہے کا۔ یہی تو بڑا دفتر ہے۔ یہیں کیس داخل ہے۔ یہیں سے منظوری ہو گی۔ بندہ مانگتا ہے، بے قرار ہو کر مانگتا ہے، تڑپتا ہے اور پھر شرمندہ بھی ہوتا ہے کہ کیا مانگ رہا ہے۔ بجائے کہ رب سے رب کو ہی مانگ لے۔ بندہ ایسا سگِ دنیا ہے کہ دنیا کو مانگتا ہے، دنیا والے مانگتا ہے، دنیاوی فائدے مانگتا ہے۔ بندہ رذیل ہے، کمینہ ہے۔ کمینے کو جس دن دیہاڑی مل جائے اُس دن وہ خود کوچوہدری سمجھتا ہے۔ جب تک جیب گرم رہے وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتا۔ جب جیب خالی ہو جائے تو اپنی اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندہ بھی جب تک رب سے کوئی غرض نہ ہو خود کو چوہدری سمجھتا ہے۔ جب رب سے غرض آ پڑتی ہے تو اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندے کی بِلٹ ان رذالت اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ پر بندہ تو بندہ ہے جی۔ وہ رب کے پاس نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا؟ رب ہی تو ہے سب کچھ۔ اُسی کے در سے سب مِلا ہے اور سب ملے گا۔ اُسی سے تو سب کو ملتا ہے۔ تو بندہ بھی اُسی سے مانگتا ہے۔ اپنی سیہ کاریوں، رذالتوں اور گناہوں کے باوجود بندہ اُسی سے مانگتا ہے۔ بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مانگ تو سکتا ہے نا۔ اور مالک سے مانگتا ہے۔ مانگتا چلا جاتا ہے۔ اب مالک کی مرضی ہے۔ دے یا نہ دے۔ دھُتکار دے، یا روٹی ڈال دے۔ یہ تو مالک کی مرضی ہے نا۔ بندہ چاہے جتنا بھی ذلیل اور کمینہ ہو، بڑی اچھی طرح جانتا ہے کہ مالک سے ہی سب کچھ ملے گا۔ اس لیے بندہ اس کے در پر بیٹھا رہتا ہے، جھڑکی بھی ملے تو ذرا پرے ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ نگاہیں بُوہے سے ہی چپکی رہتی ہیں۔ ندامت بھری نگاہیں، جھُکی جھُکی نگاہیں، شرمندہ اور پُر ندامت نگاہیں۔ ساتھ اگر آنسوؤں کا نذرانہ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ امید بھری نگاہیں رب کے در پر لگائے رکھتا ہے۔ کرم کا منتظر رہتا ہے، رحمت کا منتظر رہتا ہے، عطاء کا متلاشی رہتا ہے۔ بھلا یہ کم رحمت ہے کہ رب مانگنے کی توفیق ہی دے دے۔ ورنہ بندے کی کیا اوقات اگر اسے توفیق ہی نہ ملی تو؟


بہت پیاری دعا





،یا الله جو تو نے عطاء کیا
،اور جو تو نے عطاء نہیں کیا 
،اور جو تو نے دے کر لے لیا 
!!_____ان سب پر تیرا شکر 
،کیونکہ جو تو نے عطاء کیا وہ تیری نعمت
،جو تو نے عطاء نہیں کیا اس میں تیری حکمت 
،اور جو تو نے دے کر لے لیا وہ ہمارا امتحان
!_____یا الله ہمیں ہر حال میں اپنا شکر ادا کرنے والا بنا دے 


Saturday, March 21, 2015

کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا


کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا

یا پھر پہلی بار وہ دل کھول کر روئی تھی





Ay Wada Framosh Teri Khair Ho Lekin


اے وعدہ فراموش تیری خیر ھو لیکن
اک بات میری مان، تو وعدہ نہ کیا کر


Ay Wada Framosh Teri Khair Ho Lekin
Ek Baat Meri Maan, Tu Wada Na Kiya Ker





Yeh Ajab Logon Ki Basti Hai K Jinhen



یہ عجب لوگوں کی بستی ھے کہ جنہیں
فقط اس لئے جینا ھے کہ مر جانا ھے


Yeh Ajab Logon Ki Basti Hai K Jinhen
Faqt Is Liye Jeena Hai K Maar Jana Hai





گیا رقِیب کے گھر بارہا شبِ وعدہ


گیا رقِیب کے گھر بارہا شبِ وعدہ
بہت ذلیل مجھے تیری جستجو نے کیا


Gaya Raqeeb K Gher Bar-ha Shab-e-Wada
Boht Zalel Muje Teri Justajo Ne Kiya






Aaj Se Maine Bhi Tore Sab Rishte


Aaj Se Maine Bhi Tore Sab Rishte
Aaj Se Maine Bhi Deewar Pa Mari Diniya



Friday, March 20, 2015

کیا تم بھی درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے


کیا تم بھی
درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے
اکثر تھک سے جاتے ہو
اور بلاوجہ مسکراتے ہو ؟


Thursday, March 19, 2015

ابھی ڈاک آی


ابھی ڈاک ای  ہے 
 بہت سے خطوں میں 
تمہارا خط بھی شامل ہے 
پڑھنے سے ذرا پہلے 
میں سوچ رہا ہوں کہ تونے مجبوریوں 
!_کہ علاوہ اور کیا لکھا ہوگا 


Wednesday, March 18, 2015

تب سے خالی ہاتھ ہوں میں،


,تب سے خالی ہاتھ ہوں میں

..جب سے عشق نے تھاما تھا ہاتھ میرا




Thursday, March 12, 2015

!خاموش عورت







جب ایکـــ لڑکی تُم سے بحث کرتی ہـے۔۔۔۔ 


چلاتی ہے، ناراض ہوتی ہـے۔۔۔۔ 


تمہاری وجہ سے روتی ہـے۔۔۔۔ 


بولتی، بولتی اور بولتی جاتی ہـے۔۔۔۔ 


اور اُس کی آنکھوں سـے آنسو ٹپکنـے لگتـے ہیں۔۔۔۔ 


اور جب تمہیں مجبور کر دیتی ہـے کہ اُس کی بات سُنو۔۔۔۔ 


!تم خوش ہو جایا کرو 


تم اُس کـے لیـے کُچھ ہو تو ایسا کرتی ہے۔۔۔۔ 


گر تمہیں ہر وقت بلاتی ہے تو اگر اُس سـے پیار کرتـے ہو۔۔۔۔ 


بـےقرار ہو جاؤ کیوں کہ وہ تم سـے بُہت پیار کرتی ہـے۔۔۔۔ 


ایکـــ عورت کی خاموشی بہت بامعنی ہوتی ہـے۔۔۔۔ 


یعنی تھکـــ گئی ہـے۔۔۔۔ 


یعنی اب اُس میں لڑنـے کا حوصلہ نہیں۔۔۔۔ 


یعنی ختم ہو چکی ہـے، یعنی نا اُمیدی۔۔۔۔ 


اگر مرد ہو۔۔۔ اگر عاشق ہو۔۔۔ تو اُس کی مُحبّت کی قدر کرو۔۔۔۔ 


اُسـے اظہارِ مُحبّت سـے قوت حاصل کرنـے دو۔۔۔۔ 


اسـے اپنـے اوپر ہنسنـے دو۔۔۔۔ 


اور اُسے احساس دلاؤ کہ اُس کا ہنسنا کتنا پیارا ہـے۔۔۔۔ 


اُسـے بتاؤ کہ اُس سـے کتنا پیار کرتـے ہو۔۔۔۔ 


عورت کو بس اتنی سی بات سـے سُکون آجاتا ہـے۔ 





Tuesday, March 10, 2015

کُچھ محبتیں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں







کُچھ محبتیں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں، خاموش خاموش لیکن اِن کی مہک اِن کے ہونے کی پہچان ہوتی ہے۔ 

کچھ محبتیں لپکتے شعلوں کی طرح ہوتی ہیں کہ اِن میں جلنے والے خود بھی جلتے ہیں اور اِن کے قریب رہنے والے بھی یہ تپش محسوس کرتے ہیں تو اِظہار کی ضرورت بھی کہاں رہتی ہے۔ 


کچھ محبتوں میں ندی سی روانی ہوتی ہے اور کچھ میں میدانی دریاؤں سی طغیانی، کچھ ٹوٹنے والے تاروں کی طرح ہوتی ہیں آناً فاناً چمک کر فنا ہو جانے والی محبتں 

کچھ محبتیں قطبی سِتاروں کی طرح پائیدار اور مستقل راہ دِکھانے والی ہوتی ہیں، 

کچھ اندھیروں میں روشنی بن کر جگمگانے والی محبتیں، 

کچھ آبشاروں کی طرح ہوتی ہیں کہ جب نِچھاور ہوتی ہیں تو شور مچاتی اور دندناتی ہیں۔۔۔ 

اور 

کچھ دُور پربتوں کے دامن سے پھوٹنے والے جھرنون کی طرح ٹھنڈی میٹھی، دھیمی دھیمی شفاف محبتیں جو جینے کا عزم عطا کرتی ہیں 


ﻭﻩ ﻟﻔﻆ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺍ


ﻭﻩ ﻟﻔﻆ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺍ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﮑﮭﻮﮞ




Monday, March 9, 2015

خواہشیں بهی تو تتلیاں ہوتی ہیں


خواہشیں بهی تو تتلیاں
ہوتی ہیں
کوئی کہاں تک انہیں 
قسمت کے 
کهردرے لمس سے 
بچائے



ﮐﭽﮫ ﻧﺎ ﮐﭽﮫ " ﺷﻮﺭ " ﻣﭽﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺿﺮﻭﺭ!


ﮐﭽﮫ ﻧﺎ ﮐﭽﮫ
" ﺷﻮﺭ "
ﻣﭽﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺿﺮﻭﺭ!
" ﺩﺭﺩ "
ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﮯ
ﺳﮯ ﺭﮬﮯ



Saturday, March 7, 2015

بڑا فریضہ تھا تبلیغ عشق میرے لیے



بڑا فریضہ تھا تبلیغ  عشق میرے لیے 

!__میں منکروں کی زمین پر آذان دے آیا



ﺳﻨﺎ ﮬﮯ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﮯ



ﺳﻨﺎ ﮬﮯ

ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺁﺟﮑﻞ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ؟
ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺑﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺣﻖ ﺩﻭ
ﭘﻮﭼﮫ ﻟﻮﮞ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯿﺴﯽ ؟
ﺟﮩﺎ ﮞ ﺗﮏ ﯾﺎﺩ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮑﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﺷﺎﺋﺪ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ
ﺭﺳﻢ ﺍﻟﻔﺖ ﭘﺮ
ﯾﺎ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻘﺪﺱ ﭘﺮ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺤﺚ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﻨﺎﻧﮯ ﺭﻭﭨﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ ﻟﻮ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﮬﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﯿﮟ ,.
ﺍﮎ ﺍﯾﺴﮯ
ﭼﻮﮌﮮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ
ﮐﮧ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﻭﺍﮞ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﮬﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﻭﺭﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﭘﮭﺮ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ


Friday, March 6, 2015

اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل


اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تُو بھی


 —



مجھ میں بڑا ضبط بڑا حوصلہ سہی


مجھ میں بڑا ضبط

بڑا حوصلہ سہی
!!!.....پر سنو 
جب تمہاری یادوں 
!__سے
لڑتے لڑتے تھک جاتی ہوں
میں
!!!___رو پڑتی ہوں



Main Kehti Thi Chalo Katib Se Keh k Mang Loon


میں کہتی تھی چلو کاتب سے کہہ کہ مانگ لوں تمکو

وہ میری بات پہ  چونکا مگر کچھ نہ 
بولا 



Thursday, March 5, 2015

مرے منتظر


مرے منتظر
مجھے ہے خبر
تُو ہے مظرب
تُو ہے مضمحل
نہ ہو بدگماں نہ خیال کر
سبھی وسوسوں کو نکال کر
تُو یقین کر مری ذات کا
تُو یقین کر مری بات کا
مرے معتبر
مرے محترم
میں جدا نہیں میں ہُوں تجھ میں ضم
ذرا مسکرا نہ کر آنکھ نم
میں گماں نہیں میں یقین ہُوں
تری دھڑکنوں کی مکین ہُوں
تری راحتوں کی امین ہُوں
مرے ہمنفس
مرے چارہ گر
نہ ہو مضطرب
نہ ہو مضمحل
تُو یقین رکھ
تُو یقین رکھ



ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ


ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ
ﺭﻭﺍﯾﺖ کے ﺍﺳﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺧﺎﻣﺸﯽ کے
ﺟﻮ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ
ﺟﻮ ﺩﻝ پہ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﺭﮨﺘﯽ ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺩﺭﺩ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ
ﺟﻮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺳﻤﺖ ﮨﻮﺗﺎ ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺫﯾﺖ
ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺭﮨﺘﯽ ہے
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﮑﺘﮯ
ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮔﻨﮭﮕﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ہیں
ﺭﻭﺍﯾﺖ کے ﺍﺳﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ 



Wednesday, March 4, 2015

ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ


ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺟﻨﮕﻞ 
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮨﻮﮔﺎ 






Tuesday, March 3, 2015

جو منہ کو آ رہی تھی اب لپٹی ہے پاؤں سے






جو منہ کو آ رہی تھی اب لپٹی ہے پاؤں سے 
بارش کے بعد خاک کی فطرت ہی بدل گئی 












اپنی خاموشیوں میں پنہاں تھے


اپنی خاموشیوں میں پنہاں تھے

لوگ باتوں کے درمیاں کھلے






Monday, March 2, 2015

ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ





ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺏ ﻧﮧ
ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ
ﮐﮧ ﻟﻄﻒ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ، ﺳﺘﻢ
ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ..



ﺗُﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺭﮐﮫ ﻟﮯ


ﺗُﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺭﮐﮫ ﻟﮯ
ﻣُﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﻧﮩﯿـﮟ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺗﺎ 

کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض کوئی . . ؟


کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض کوئی . . ؟
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کر لوں .



')