Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
Tuesday, March 31, 2015
Monday, March 30, 2015
ان کہے سوالوں کا
ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی
ٹیس
کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب
سرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے
آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط ٹوڑ آئی ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آئی ہوں
Wednesday, March 25, 2015
مالک اور بندہ
بندے اور مالک کا تعلق بڑا عجیب سا ہے۔۔ ۔مالک بے غرض ہے۔ بندہ خود غرض ہے ۔بندہ مانگتا بھی ہے تو اپنی غرض سے مانگتا ہے۔ مالک دیتا ہے تو بے غرض دیتا ہے، بے حساب دیتا ہے ، خوشی دیتا ہے، رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے۔ بندہ حساب رکھتا ہے، ابھی اتنا غم ملا تھا، ابھی اتنا رزق ملا تھا ، ابھی اتنا دے دیا تھا ۔ مالک شہنشاہ ہے، بندہ گدا ہے۔ مالک سخی ہے ، بندہ منگتا ہے۔ مالک کہتا ہے مانگ، کیا مانگتا ہے۔ میں دیتا ہوں۔ بندہ جب جان پر پڑے تبھی مانگنے کی جانب آتا ہے ۔ مالک تو اتنا سخی ہے کہ آدابِ بندگی بھی سکھاتا ہے۔ بندہ خود غرض ہے، اپنی غرض کے لیے بھی آدابِ بندگی نہیں سیکھتا۔ اس لیے جب دربار ِ خداوندی میں جاتا ہے تو اسے ٹھیک طرح سے مانگنا بھی نہیں آتا۔ غرض پڑے، سر پر مصیبت آن پڑے تو رب کے حضور حاضری ہوتی ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں اور اگر اُس کی توفیق ہو جائے تو دو آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ بندہ رب کو بھی ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تُو سخی مولا۔
تیرا نبی ﷺ سخی مولا
تیرے نبی ﷺ کا گھرانہ سخی مولا
سخیوں کا واسطہ سخیا، میری جھولی بھر دے
تُو تو مالک ہے مولا
تو شہنشاہ
میں تیرے در کا گدا
تُو اپنے نبی ﷺ پیروں کی خاک کا صدقہ ۔میری جھولی بھر دے
تُو تو بادشاہ ہے مولا
تیرے خزانوں میں بھلا کیا کمی آ جائے گی
تو یہ مُجھے دے دے۔ باقیوں کو اس سے بہتر دے دیجیو
تُو تو آل اِن آل ہے مالک۔ تُجھے کسی نے بھلا کیا پُوچھنا۔
یہ فیور کر دے نا مالک۔ تُو تو۔۔۔۔۔۔
بندہ گناہگار ہے۔ سیاہ کار ہے۔ جب ہاتھ اُٹھا کر مانگتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اُس کے پلے تو کچھ نہیں ہے۔ ایک ایک گناہ یاد آتا ہے ۔ ہر گناہ جو چھڈ یار خیر اے کہہ کر کیا ہوتا ہے، تو سر ندامت سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جائے۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ نیچے زمین پر ٹک جاتے ہیں۔ سرِ ندامت جھُکتے جھُکتے وہاں جا لگتا ہے جہاں اس کا اصل مقام ہے۔ بندہ سجدے میں روتا ہے۔ زار زار روتا ہے۔ اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ اور پھر اپنی خواہشات پر اور زیادہ روتا ہے ۔رب کو اس کی ستاری کا واسطہ دیتا ہے۔ غفاری کا واسطہ دیتا ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ اور ساتھ مان بھرے انداز میں مانگتا بھی ہے۔ پتہ ہے کہ دینا تو اُس نے ہی ہے۔ رب تو مالک ہے۔ بندہ اس کے در کاسگ۔ سگ بھی ایک وفادار جانور ہے اپنے مالک کا بُوہا نہیں چھوڑتا۔ بندہ تو بندہ ہو کر بھی سگ سے نہیں سیکھتا۔ سارا پِنڈ پھرتا ہے۔ لُور لُور پھرتا ہے۔ پھر جب بھوک لگتی ہے تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے کہ اب روٹی ملے گی۔ یہیں سے ملے گی۔ بندہ ایسا سگ ہے جو خواہش پوری کروانی ہو تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے۔ پتہ ہے کہ عطاء تو یہیں سے ہونی ہے۔ اگر یہاں سے فائل پر سائن ہو گئے تو پھر ڈر کاہے کا۔ یہی تو بڑا دفتر ہے۔ یہیں کیس داخل ہے۔ یہیں سے منظوری ہو گی۔ بندہ مانگتا ہے، بے قرار ہو کر مانگتا ہے، تڑپتا ہے اور پھر شرمندہ بھی ہوتا ہے کہ کیا مانگ رہا ہے۔ بجائے کہ رب سے رب کو ہی مانگ لے۔ بندہ ایسا سگِ دنیا ہے کہ دنیا کو مانگتا ہے، دنیا والے مانگتا ہے، دنیاوی فائدے مانگتا ہے۔ بندہ رذیل ہے، کمینہ ہے۔ کمینے کو جس دن دیہاڑی مل جائے اُس دن وہ خود کوچوہدری سمجھتا ہے۔ جب تک جیب گرم رہے وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتا۔ جب جیب خالی ہو جائے تو اپنی اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندہ بھی جب تک رب سے کوئی غرض نہ ہو خود کو چوہدری سمجھتا ہے۔ جب رب سے غرض آ پڑتی ہے تو اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندے کی بِلٹ ان رذالت اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ پر بندہ تو بندہ ہے جی۔ وہ رب کے پاس نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا؟ رب ہی تو ہے سب کچھ۔ اُسی کے در سے سب مِلا ہے اور سب ملے گا۔ اُسی سے تو سب کو ملتا ہے۔ تو بندہ بھی اُسی سے مانگتا ہے۔ اپنی سیہ کاریوں، رذالتوں اور گناہوں کے باوجود بندہ اُسی سے مانگتا ہے۔ بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مانگ تو سکتا ہے نا۔ اور مالک سے مانگتا ہے۔ مانگتا چلا جاتا ہے۔ اب مالک کی مرضی ہے۔ دے یا نہ دے۔ دھُتکار دے، یا روٹی ڈال دے۔ یہ تو مالک کی مرضی ہے نا۔ بندہ چاہے جتنا بھی ذلیل اور کمینہ ہو، بڑی اچھی طرح جانتا ہے کہ مالک سے ہی سب کچھ ملے گا۔ اس لیے بندہ اس کے در پر بیٹھا رہتا ہے، جھڑکی بھی ملے تو ذرا پرے ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ نگاہیں بُوہے سے ہی چپکی رہتی ہیں۔ ندامت بھری نگاہیں، جھُکی جھُکی نگاہیں، شرمندہ اور پُر ندامت نگاہیں۔ ساتھ اگر آنسوؤں کا نذرانہ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ امید بھری نگاہیں رب کے در پر لگائے رکھتا ہے۔ کرم کا منتظر رہتا ہے، رحمت کا منتظر رہتا ہے، عطاء کا متلاشی رہتا ہے۔ بھلا یہ کم رحمت ہے کہ رب مانگنے کی توفیق ہی دے دے۔ ورنہ بندے کی کیا اوقات اگر اسے توفیق ہی نہ ملی تو؟
Saturday, March 21, 2015
Friday, March 20, 2015
Thursday, March 19, 2015
Wednesday, March 18, 2015
Thursday, March 12, 2015
!خاموش عورت
جب ایکـــ لڑکی تُم سے بحث کرتی ہـے۔۔۔۔
چلاتی ہے، ناراض ہوتی ہـے۔۔۔۔
تمہاری وجہ سے روتی ہـے۔۔۔۔
بولتی، بولتی اور بولتی جاتی ہـے۔۔۔۔
اور اُس کی آنکھوں سـے آنسو ٹپکنـے لگتـے ہیں۔۔۔۔
اور جب تمہیں مجبور کر دیتی ہـے کہ اُس کی بات سُنو۔۔۔۔
!تم خوش ہو جایا کرو
تم اُس کـے لیـے کُچھ ہو تو ایسا کرتی ہے۔۔۔۔
گر تمہیں ہر وقت بلاتی ہے تو اگر اُس سـے پیار کرتـے ہو۔۔۔۔
بـےقرار ہو جاؤ کیوں کہ وہ تم سـے بُہت پیار کرتی ہـے۔۔۔۔
ایکـــ عورت کی خاموشی بہت بامعنی ہوتی ہـے۔۔۔۔
یعنی تھکـــ گئی ہـے۔۔۔۔
یعنی اب اُس میں لڑنـے کا حوصلہ نہیں۔۔۔۔
یعنی ختم ہو چکی ہـے، یعنی نا اُمیدی۔۔۔۔
اگر مرد ہو۔۔۔ اگر عاشق ہو۔۔۔ تو اُس کی مُحبّت کی قدر کرو۔۔۔۔
اُسـے اظہارِ مُحبّت سـے قوت حاصل کرنـے دو۔۔۔۔
اسـے اپنـے اوپر ہنسنـے دو۔۔۔۔
اور اُسے احساس دلاؤ کہ اُس کا ہنسنا کتنا پیارا ہـے۔۔۔۔
اُسـے بتاؤ کہ اُس سـے کتنا پیار کرتـے ہو۔۔۔۔
عورت کو بس اتنی سی بات سـے سُکون آجاتا ہـے۔
Tuesday, March 10, 2015
کُچھ محبتیں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں
کُچھ محبتیں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں، خاموش خاموش لیکن اِن کی مہک اِن کے ہونے کی پہچان ہوتی ہے۔
کچھ محبتیں لپکتے شعلوں کی طرح ہوتی ہیں کہ اِن میں جلنے والے خود بھی جلتے ہیں اور اِن کے قریب رہنے والے بھی یہ تپش محسوس کرتے ہیں تو اِظہار کی ضرورت بھی کہاں رہتی ہے۔
کچھ محبتوں میں ندی سی روانی ہوتی ہے اور کچھ میں میدانی دریاؤں سی طغیانی، کچھ ٹوٹنے والے تاروں کی طرح ہوتی ہیں آناً فاناً چمک کر فنا ہو جانے والی محبتں
کچھ محبتیں قطبی سِتاروں کی طرح پائیدار اور مستقل راہ دِکھانے والی ہوتی ہیں،
کچھ اندھیروں میں روشنی بن کر جگمگانے والی محبتیں،
کچھ آبشاروں کی طرح ہوتی ہیں کہ جب نِچھاور ہوتی ہیں تو شور مچاتی اور دندناتی ہیں۔۔۔
اور
کچھ دُور پربتوں کے دامن سے پھوٹنے والے جھرنون کی طرح ٹھنڈی میٹھی، دھیمی دھیمی شفاف محبتیں جو جینے کا عزم عطا کرتی ہیں
Monday, March 9, 2015
Saturday, March 7, 2015
ﺳﻨﺎ ﮬﮯ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﮯ
ﺳﻨﺎ ﮬﮯ
ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺁﺟﮑﻞ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ؟
ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺑﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺣﻖ ﺩﻭ
ﭘﻮﭼﮫ ﻟﻮﮞ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯿﺴﯽ ؟
ﺟﮩﺎ
ﮞ ﺗﮏ ﯾﺎﺩ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮑﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﺷﺎﺋﺪ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ
ﺭﺳﻢ ﺍﻟﻔﺖ ﭘﺮ
ﯾﺎ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻘﺪﺱ ﭘﺮ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺤﺚ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﻨﺎﻧﮯ ﺭﻭﭨﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ ﻟﻮ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﮬﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﯿﮟ ,.
ﺍﮎ ﺍﯾﺴﮯ
ﭼﻮﮌﮮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ
ﮐﮧ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﻭﺍﮞ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﮬﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﻭﺭﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﭘﮭﺮ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ
Friday, March 6, 2015
Thursday, March 5, 2015
مرے منتظر
مرے منتظر
مجھے ہے خبر
تُو ہے مظرب
تُو ہے مضمحل
نہ ہو بدگماں نہ خیال کر
سبھی وسوسوں کو نکال کر
تُو یقین کر مری ذات کا
تُو یقین کر مری بات کا
مرے معتبر
مرے محترم
میں جدا نہیں میں ہُوں تجھ میں ضم
ذرا مسکرا نہ کر آنکھ نم
میں گماں نہیں میں یقین ہُوں
تری دھڑکنوں کی مکین ہُوں
تری راحتوں کی امین ہُوں
مرے ہمنفس
مرے چارہ گر
نہ ہو مضطرب
نہ ہو مضمحل
تُو یقین رکھ
تُو یقین رکھ
ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ
ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ
ﺭﻭﺍﯾﺖ کے ﺍﺳﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺧﺎﻣﺸﯽ کے
ﺟﻮ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ
ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﯾﮏ
ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ
ﺟﻮ ﺩﻝ پہ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﺭﮨﺘﯽ ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺩﺭﺩ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ
ﺟﻮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺳﻤﺖ ﮨﻮﺗﺎ ہے
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺫﯾﺖ
ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺭﮨﺘﯽ ہے
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﮑﺘﮯ
ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮔﻨﮭﮕﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ہیں
ﺭﻭﺍﯾﺖ کے ﺍﺳﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﻣﺤﺒﺖ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ