Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
Wednesday, November 30, 2016
Sunday, November 27, 2016
Saturday, November 26, 2016
Waqt koi shaam nahin
وقت کوئی شام نہیں
جسے وحشت سے ڈھانپا جا سکے
نہ کوئی گیت، جس کی لے
ہمارے ہونٹوں کی گرفت میں ہو
یہ ایک لا متناہی لا تعلق ہے
وقت ٹھہرا رہتا ہے
ان زمینوں پر
جہاں سے نئے قافلے نکل پڑتے ہیں
وقت گزاری کے کٹھن سفر پر
گزشتہ بہت پیچھے رہ گیا
جہاں تک کوئی سڑک نہیں جاتی
گاڑی کی کھٹ کھٹ سے
شہر کی ویرانی کہاں کم ہوتی ہے
مقفل گھروں
اور قہوہ خانوں کی بھنبھناہٹ میں
ساری باتیں تو لوگ کرتے ہیں!
کتابوں کی جلدیں، کاغذوں کا شور
موبائل کے پیغامات
اور وقت گزر جاتا ہے
حالانکہ نہیں گزرتا
بچوں کو سیڑھیاں چڑھا چکنے کے بعد
دہلیز پر بیٹھ کر
کسی بے سمت افق کو گھورتے ہوئے؟
حساب کرتے ہوئے
ان خوابوں کا، جو دیکھے
Agar Hamare Dukhon Ka Ilaaj
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے
کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ
ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل
اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم بجھائے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی
کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے
پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو:
ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں
قبروں سے بھی زیادہ
Mere Pas Raaton Ki Tareeqi Main
میرے پاس راتوں کی تاریکی میں
کھلنے والے پھول ہیں
اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی ہوئی روشنی ہے
اور بینائی
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے
اور یاد۔۔۔
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسماں کو اوڑھ کر چلتا
اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے ہیں
بادل برستے ہیں
مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا
اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آواز میں
بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس
بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر تیار کیا گیا ہے
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا سارا ملبہ ہے
اور ایک مستقل انتظار
اور آنسو
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے ہیں
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں
میں رد کیے جانے کی لذت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے
بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی
در گذر اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں
میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت اور تم پر اختیار کے سوا؟
JAne kin reh guzron se
جانے کن رہ گزاروں سے
دوڑے چلے آتے ہیں
لاشیں بھنبھوڑتے، بو سونگھتے
بیٹھ گئے ہیں لوگ
کہ بیٹھے ہوؤں کو کاٹتے نہیں!
ویرانی کے عقب میں
راستوں اور شاہراہوں کے کہرام
اور جلتی بجھتی روشنیوں کے تعاقب میں
پھٹے ہوئے حلق کے ساتھ
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہیں
دیوار پر
ٹانگ اٹھا چکنے کے بعد
معاف کیجئے گا
فتح علی خاں صاحب!
آپ کا الاپ، کانوں میں جم گیا ہے
مرکیاں ٹوٹتی ہیں
ہم رخصت ہو رہے ہیں
جینے کے جواز سے دست بردار
پٹاخوں سے پتلونیں بچاتے
پھدکتے پھرتے ہیں
ہماری قومی موسیقی
کافور کی مہک سے بھی خالی ہے
سڑاند ہے چہار جانب
اور بھونکنے کی آوازیں
بے سر، بے تال
جان کی امان پاؤں
تو سیدھا آپ ہی کی طرف آؤں گا
Bohat Dour Tak
بہت دور تک
یہ جو ویران سی رہ گزر ہے
جہاں دھول اڑتی ہے
صدیوں کی بے اعتنائی میں
کھوئے ہوئے
قافلوں کی صدائیں بھٹکتی ہوئی
پھر رہی ہیں، درختوں میں
آنسو میں
صحراؤں کی خامشی ہے
ادھڑتے ہوئے خواب ہیں
اور اڑتے ہوئے خشک پتے
کہیں ٹھوکریں ہیں
صدائیں ہیں
افسوں ہے سمتوں کا
حد نظر تک
یہ تاریک سا جو کرہ ہے
افق تا افق جو گھنیری ردا ہے
جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے
کہ ہم ڈوبتے ہیں
تو اس میں
تعلق ہی، وہ روشنی ہے
جو انساں کو جینے کا رستہ دکھاتی ہے
کندھوں پہ
ہاتھوں کا لمس گریزاں ہیں
ہونے کا مفہوم ہے غالباً
وگرنہ وہی رات ہے چار سو
جس میں ہم تم بھٹکتے ہیں
اور لڑکھڑاتے ہیں، گرتے ہیں
اور آسماں، ہاتھ اپنے بڑھا کر
کہیں ٹانک دیتا ہے ہم کو
کہیں پھر چمکتے، کہیں ٹوٹتے ہیں
Us k ghar main ya is k ghar main
اس گھر میں یا اس گھر میں
تو کہیں نہیں ہے
دروازے بجتے ہیں
خالی کمرے
تیری باتوں کی مہکار سے بھر جاتے ہیں
دیواروں میں
تیری سانسیں سوئی ہیں
میں جاگ رہا ہوں
کانوں میں
کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے
بھولے بسرے گیتوں کی
چاندنی رات میں کھلتے ہوئے
پھولوں کی دمک ہے، یہیں کہیں
تیرے خواب
مری بے سایہ زندگی پر
بادل کی صورت جھکے ہوئے ہیں
یاد کے دشت میں
آنکھیں کانٹے چنتی ہیں
میرے ہاتھ
ترے ہاتھوں کی ٹھنڈک میں
ڈوبے رہتے ہیں
آخر۔۔۔ تیری مٹی سے مل جانے تک
کتنے پل
کتنی صدیاں ہیں
اس سرحد سے
اس سرحد تک
کتنی مسافت اور پڑی ہے
ان رستوں میں
کتنی بارشیں برس گئی ہیں
آنکھیں مری
تیری راتوں کو ترس گئی ہیں
Aagey barhne wale
آگے بڑھنے والے
بدن کو کپڑوں پر اوڑھتے
اور چھریاں تیز کر کے نکلتے ہیں
بھیڑ کو چیر کر راستہ بناتے
ناخنوں سے نوچ لیتے ہیں
لباس اور عزتیں-
سرخ مرچوں سے ہر آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں
اور بڑھ جاتے ہیں
رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ
چیختے اور چپ کرا دیتے ہیں
سر عام رقص کرتے ہیں
اور گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں
لڑکے لڑ پڑتے
مرد، پتلونیں کس لیتے
اور بوڑھے، تمباکو میں
گڑ کی مقدار بڑھا دیتے ہیں
کوئی میز ان کے سامنے جما نہیں رہ سکتا
اور کوئی محفل
ان کا داخلہ روک نہیں سکتی
وہ ٹھوکر سے دروازہ کھولتے ہیں
اور ہر کرسی ان کے لیے خالی ہو جاتی ہے
ان کے دبدبے سے
دیواروں کے پلستر اکھڑ جاتا ہے
کاغذ، شور کرنا بھول جاتے ہیں
اور موسم، ارادہ تبدیل کر لیتے ہیں
آگے بڑھنے والوں سے پناہ مانگتے ہیں
ان کے ساتھ
ڈرتے ہیں
زمین پر جھک کر چلنے والے
بوجھل خاموشی سے انہیں دیکھتے
اور گزر جاتے ہیں
آگے بڑھنے والے نہیں جانتے
کہ آگے بڑھا جا ہی نہیں سکتا
پھر بھی وہ بڑھتے ہیں
پہنچ کر دم لیتے ہیں
بے حیائی کی شدت
آنکھوں میں
موتیا اترنے کی رفتار تیز کر دیتی ہے
ہر تنے کی چھال
بدن پر ان مٹ خراشیں چھوڑ جاتی ہے
پھٹکری اور ویزلین سے چکنایا ہوا ماس
ہڈیوں سے ہمیشہ جڑا نہیں رہ سکتا
ہر بدن اور ہر کرسی کی
ایک عمر ہوا کرتی ہے
اور پھر ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں
ایک دن
لپٹے ہوئے لباس میں
خلا کو گھورتے ہوئے
کسی نیم تاریک نشیب میں
پر کٹے پرندے کی طرح
مٹی پر لوٹتے ہوئے
آگے بڑھنے کی پیہم کوشش میں