Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Saturday, June 17, 2006

یونہی گزری تو سوچا۔۔



ایک دن لائبریری جارہی تھا راستے میں آمنے سامنے دو قبرستان آتے ہیں۔ میں‌قریب سے گزری تو ایک جنازہ آرہا تھا۔ گنتی کے 8 یا 10 بندے تھے اس کے ساتھ۔ میرے دل میں بے اختیار ہُوک سی اٹھی کون بدنصیب ہے جس کے جنازے کو کندھا دینے والے بھی اتنے کم ہیں۔دل بہت اداس ہوا۔ ابھی یہ اداسی قائم تھی کہ اندر سے آواز آئی نادان اپنی فکر کر۔ تجھے معلوم ہے کہ اتنے سوار بھی نصیب ہوجائیں گے؟؟


اور میں‌کانپ کررہ گیی ۔ پتا نہیں میرا نصیب اتنے سوار بھی ہیں یا نہیں، کفن بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اپنے وطن کی مٹی میں مل سکوں گی یا نہیں۔


ان سارے خدشوں نے کوڑیالے سانپوں کی طرح پھن اٹھا لیے۔ اور پھر ایک اور سانپ اٹھا ان سب سے بڑا۔ بولا جو جہاں بھی جائے گا آئے گا تو اسی کے پاس نا۔ وہ جس کی رحمت اور کرم کے تو گن گاتی ہے جبار و قہار بھی ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا۔ جب تیرے پاس کچھ زاد راہ نہیں ہوگا۔


پہلے میں صرف کانپا تھی اب مجھے جاڑے کے بخار کی طرح پھریریاں آنے لگیں۔ میں‌ نے بے اختیار اس کے لیے دعائے مغفرت کی جو خوش نصیب تھا اسے سوار تو نصیب ہوئے تھے، اسے کچھ لوگ تو نصیب ہوئے تھے جو اس کے لیے ہاتھ اٹھانے والے تھے۔ اور میں؟؟ میرے سامنے اپنے اعمال تھے اور بےیقینی تھی کہ کوئی میرے لیے بھی ہاتھ اٹھائے گا یا نہیں۔


پھر دل نے صلاح دی۔ تو اگردوسروں کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو کوئی تیرے لیے بھی ہاتھ اٹھانے والا ضرور ہوگا۔ اس دن سے میرا معمول ہے جب بھی کسی قبرستان کے قریب سے گزروں ان کے لیے دل ہی دل میں‌ دعائے مغفرت کی ایک عرضی اوپر روانہ کردیا کرتی ہوں۔ کہ شاید اس طرح میری بخشش کا کوئی وسیلہ بن جائے۔ اتنے ساری سیاہ اعمالیوں میں کوئی کمی پیدا ہوجائے۔


یہ قبرستان ہمارا مقدر ہیں، ایسا مقدر جس سے ہم ساری عمر دور بھاگتے ہیں لیکن اصل میں ہمارا رخ انھی کی طرف ہوتا ہے بالآخر کسی قبر میں بڑے آرام سے جاکر لیٹ‌ جاتےہیں۔ صاحبو یہ سب لکھنے سے مراد یہ نہیں‌کہ میں‌جوگی ہوگیا ہوں، نہ میری فٹ بھر کی داڑھی نکل آئی ہے۔ بس ایک احساس پیدا ہوا تو یہ سب لکھ ڈالا۔ اس جذبے کے تحت کے آپ بھی جب ان قبرستانوں کے قریب سے گزریں تو دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ ضرور اٹھا دیا کریں، چاہے دل میں ہی گزرتے گزرے دعا کردیا کریں۔ شاید یہ عمل ہی ہماری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔


آئیے ایک بارسب مسلمین کے لیے دعائے مغفرت کرلیں۔


یا اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ جتنے بھی مسلمان مرد و عورت وفات پاچکے ہیں ان کی مغفرت فرما آمین۔





What is a LOTTA


پاک بلاگرز آرایس ایس جمع کار ویب سائٹ‌ہے۔ ساجد اقبال کے بلاگ سے اس کی سن گن ملی تو میں بھی اس پر اندراج کے لیے چل پڑا۔ اندراج تو کروا لیا ہے میں 


نے لیکن مجھے بہت ہنسی آئی۔ کیوں آئی۔ آپ بھی دیکھ لیں۔




کیسی رہی۔


:lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol:



میں


میرا میں سے تعارف سب سے پہلے ممتاز مفتی نے کروایا۔ ممتاز مفتی سرعام خود کو کوستا ہے،، اپنی میں والی عادت کو برا بھلا کہتا ہے اور ساتھ ساتھ میں میں بھی کرتا جاتا ہے۔ میں یہ ہوں میں وہ ہوں۔ اسی کو پڑھ کر مجھے میں کو دیکھنے کا شعور اٹھا۔ پھر ایسے ہی آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے میرے ریسیور نے میں کے سگنل وصول کرنے شروع کردیے۔


صاحبو یہ میرے انٹینا کی خرابی کہہ لیں یا میرے نفس کی آوارگی۔ ایک دن یونہی اذان کے وقت بیٹھے بیٹھے مجھے “میں“ کے سگنل وصول ہونے لگے۔


سب سے پہلے ایک مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور میرے کانوں میں آوازیں گونجنے لگیں“حضرات یہ فلاں فلاں مسجد اہلحدیث ہے۔ ہم سڑے ہوئے نظریات اور نام نہاد فقہ کو نہیں مانتے۔ ہم قرآن و حدیث سے براہ راست استدلال کرتے ہیں۔ ہماری مسجد کو پہنچاننا ہو تو یہ دیکھ لیں کہ سب سے پہلی اذان کہاں سے ہورہی ہے۔ اور اب آئیں ہم نماز پڑھ لیں۔“


ایک اور مسجد سے صلوۃ سلام کے بعد اذان کی آواز بلند ہوئی“ حضرات ہم آپ سے فلاں فلاں مسجد اہلسنت ولجماعت حنفی بریلوی سے مخاطب ہیں۔ ہمارے آقا و مولٰی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان سے سب سے زیادہ محبت ہم ہی کرتے ہیں جس کا ثبوت ہر اذان کے ساتھ صلوۃ سلام کا ورد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنے والوں کو ہم دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ہماری مسجد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اذان اور ہر اعلان کے ساتھ ہم صلوۃ سلام کا ورد ضرور کرتے ہیں آئیے اب ہم نماز بھی پڑھ لیں۔“


پھر ایک اور مسجد سے صدائے حق بلند ہوئی“ دیکھیں جناب یہ مسجد فلاں فلاں اہلسنت حنفی دیوبندی ہے۔ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول کریم کے بعد سب سے اونچا مقام دیتے ہیں۔ ہم پیر پرستی اور قبر پرستی سے بیزار ہیں اور ہاں ہماری مسجد کی پہچان یہ ہے کہ ہماری اذان سب سے مختصر ہوتی ہے۔ ہم کسی اور کلمے کا اضافہ نہیں‌کرتے ۔ آئیں اب نماز پڑھ لی جائے۔“


سب سے آخر میں ایک طرف سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے“ جناب ہم اہل تشیع ہیں۔ ہم اہل بیت کے سب سے بڑے محب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کا عاشق ہم سے زیادہ کون ہوگا۔ ہماری مسجد کی نشانی یہ ہے کہ ہم صرف تین بار اذان دیتے ہیں اور ہماری اذان میں کچھ مزید کلمات کا اضافہ بھی ہوتا ہے جس سے آپ باآسانی ہمیں پہچان سکتے ہیں۔ تو آئیے ہم بھی نماز پڑھتے ہیں۔“


مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ اذانیں نیہں بلکہ نفس بول رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو میں دیوبندی ہوں، ارے ادھر کدھر ادھر دیکھ میں ہوں شیعہ ہوں ہم سے بہتر کون مسلمان ہے۔ اوئے ادھر کیا دیکھتا ہے ادھر دیکھ یہ تو کافر ہیں ان کے عقائد ہی ہم سے نہیں ملتے ہم بڑے مسلمان ہیں ہمارا فرقہ بہترین ہے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ مخلوق خدا کو اللہ کی طرف نہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں۔


آؤ ہماری طرف آؤ اہلحدیث ہوجاؤ اسی میں فلاح ہے۔


آؤ بریلویت کی طرف یہی کامیابی کی راہ ہے۔


آؤ ادھر آؤ ادھر آؤ ہم سب سے بڑے ہیں۔


آؤ ہم ہی جنتی ہیں۔


ادھر آجاؤ۔


اور پھر ایسا ہوا کہ میرے اردگرد کھڑی مسجدیں غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ بڑے بڑے گلیور نمودار ہوگئے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑے، اپنے فرقے کی کتابیں اٹھائے، سر پر ٹوپیاں لیے لمبی لمبی ڈاڑھیاں رکھے اور عمامے باندھے، شلواریں ٹخنوں سے اونچی کیے، آپس میں لڑتے نہیں اسے ہماری طرف آنے دو نہیں میری طرف، نہیں میری طرف، اور میں ایک بونا، جو ان کے پیروں کے نیچے آنے سے بچ رہا ہوں کبھی ادھر ہوتا ہوں کبھی ادھر ہوتا ہوں اور آخر ایک طرف بھاگ نکلتا ہوں۔


میری طرف۔۔۔ نہیں ۔۔۔میری طرف۔۔۔ نہیں۔۔ میری طرف۔۔۔۔۔۔۔ یہ ساری آوازیں معدوم ہوتی جارہی ہیں اور پھر سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے میں نہیں رہتا، کوئی بھی نہیں رہتا اور میرے سامنے میرا رب ہے۔ میں دھیرے سے اپنے رب سائیں سے پوچھتا ہوں۔


“سائیں یہ سب لوگ اتنا لڑ کیوں رہے ہیں۔ آپ کے نام پر ہی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ایسا کیوں ہے سائیں۔ آپ تو سراپا محبت ہونا۔ آپ تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہو۔ سائیں تو پھر یہ لوگ کیوں لڑتے ہیں آپ کے نام پر ہی۔ انھیں تو مل جل کر محبت سے رہنا چاہیے۔“


اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے اللہ سائیں مسکرا دیے ہیں جیسے کہہ رہے ہیں یہ سب تو پاگل ہیں، نادان ہیں۔ میری کتاب کو اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان کی عقلیں محدود ہیں۔ اپنی محدود عقلوں سے جو اندازے لگا لیتے ہیں ان پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتے ہیں ان کا خیال ہے سب کچھ انھیں کو عطاء ہوگیا ہے باقی سب جاہل مطلق ہیں‌اور ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ان کی میں انھیں جینے نہیں دیتی۔ اس لیے کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔


Sunday, January 22, 2006

گزارش


میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔


ایک سوختہ انسانوں کی ہے۔ نیچے کچھ لکھا ہے۔


کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔


اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔


اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔


اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔


اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔


میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔


میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ 


بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔


لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔ 


اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔


اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔


انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔


مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔


مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔


مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔


مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔


مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے


مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔


مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔


مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔


مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے


مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے


مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔


مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔


مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے


مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں


مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں


مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد 


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد




کہانیاں


میز نیازی کہتا ہے 


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، ہر کام کرنے میں


کچھ ایسا ہی شاید ازل سے میرے ساتھ ہے۔ ہر کام میں دیر ہو جاتی ہے۔ جب سوچنے سمجھنے کی توفیق ہوتی ہے تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ جب کام کرنے کا خیال آتا ہے تو وقت باقی نہیں رہا ہوتا۔ جب کسی رستے پر چلنے کی سمجھ آتی ہے تو اُس پر پہرے لگ چُکے ہوتے ہیں۔ اور لکھنا۔۔۔ لکھنا بھی تب سرزد ہوتا ہے جب احساسات وقت کی دھول میں اٹ کر دھول ہو جاتے ہیں، جیسے بارش کے بعد کچی مٹی پر بنے نقش و نگار یا موج گزرنے کے بعد ساحل پر بنے ریت کے گھروندے مِٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ لکھنے میں ہوتا ہے، اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ پیچھے تاثرات کی بجائے ان کے بھُوت باقی رہ جاتے ہیں جنہیں لفظوں کا جا مہ پہنانے پر آسیب زدہ جملے وجود میں آتے ہیں اور ان آسیب زدہ جملوں کے مجموعے پچھلے دس برسوں میں جا بجا اس بلاگ کی زینت بن چکے ہیں۔


ایک عرصے سے ارادہ کر رہا ہوں کہ لکھنا ہے، کچھ ہڈ بیتی اور کچھ جگ بیتی پر، خود پر گُزرے سانحات پر، ان لمحات پر لکھنا ہے جب زندگی اتنی اجنبی ہو گئی تھی کہ خوف آتا تھا، اور اس سے بھی پہلے کی کچھ کہانیوں پر کچھ لکھنا ہے۔ کہانیاں جن کے ساتھ تب سے واسطہ ہے کہ اب یادوں کے بھُوت بھی وقت کے اندھیرے میں گُم ہو چکے ہیں۔ پرائمری میں ایک دوست اپنے جیب خرچ میں سے پچاس پچاس پیسے کی عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں لے کر دیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ ننھی ننھی کہانیاں درجنوں میں جمع ہو گئی تھیں، لیکن پھر کہاں گئیں؟ اور وہ کہانیاں جو میں چوری کے پیسوں سے خرید کر پڑھا کرتا تھا اور پھر پکڑے جانے کے ڈر سے پھاڑ کر پھینک دیا کرتا تھا۔ اور پھر وہ کہانیاں جو نانا نانی کے ہاں جانے پر ماموں کی بیٹھک سے برآمد ہوتی تھیں نسیم حجازی، عمران سیریز، انسپکٹر جمشید اور حکایت ڈائجسٹ کی شکار کی کہانیاں، جرم و سزا کی کہانیاں، ایمان فروشوں کی کہانیاں۔ اور پھر وہ کہانیاں جب ایک لائبریری سے دوست نے کرائے پر عمران سیریز لینا شروع کی جو ہم اکٹھے پڑھتے تھے، اور پھر جب میں نے خود سے یہ کام شروع کر دیا ، ستر اسی کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں دیوتا، مجاہد، اِنکا۔۔۔ ہر مہینے درجن بھر زنانہ اور غیر زنانہ ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں، قدرت اللہ شہاب ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کی چوکڑی، یوسفی، پطرس، اور اس عہد کے دیگر مزاح نگار، قمر اجنالوی کے تاریخی ناول اور ایم اے راحت کے سلسلے، علیم الحق حقی کے عشق اور اس کی پیروی میں لکھے گئے درجنوں ناول، اور تارڑ کے سفرنامے۔ اور پھر انگریزی سیکھتے ہوئے ایپِک فینٹیسی کی صنف سے تعلق رکھنے والی کہانیاں ہیری پوٹر، وہیل آف ٹائم، کوڈیکس الیرا۔۔۔اور پھر انگریزی فلمیں جن کی تعداد ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ہو گی محبت کی کہانیاں، ایڈونچر، ایکشن، سائنس فکشن اور فینٹیسی کی کہانیاں۔۔۔ اتنی کہانیاں ۔۔۔ہر کہانی کی اپنی ایک الگ دنیا، ہر کہانی میں اپنی اپنی زندگی جیتے کردار اور ہر کہانی کو پڑھتے ہوئے، سُنتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ جیتا اور مرتا ہوا میں۔ یوں لگتا ہے جیسے تیس برس نہیں تیس صدیاں گزر گئی ہیں، جیسے بار بار مر کر جیا ہوں اور جی جی کر مرا ہوں، ہر کہانی کے اتنے دُکھ ہیں کہ اصل زندگی کے دُکھ بھی کسی کہانی کا حصہ لگتے ہیں۔


اتنی کہانیاں پڑھیں، اور جب خود کوئی کہانی لکھنی چاہی تو قلم نے یا تو چلنے سے انکار کر دیا یا چلتے چلتے جواب دے گیا۔ رب نے کہانیاں لکھنے والوں کو پتہ نہیں کیا خاص دے رکھا ہوتا ہے جو میرے جیسے معذوروں کے پاس نہیں ہوتا۔ کیسے ایسا سوچ لیتے ہیں، کیسے ایسا لکھ لیتے ہیں کہ ان کے کرداروں کے ساتھ قاری بھی جیتا اور مرتا ہے۔ ایک عرصے تک یہ زُعم رہا کہ شاید کہانیاں پڑھ پڑھ کر اور دیکھ دیکھ کر میری بھی ایسی تربیت ہو جائے، جیسی آ ج کل مشینی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) کے میدان میں گوگل، ایمازون اور اس جیسی کئی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ جیسے میں ڈیپ لرننگ کا ایک الگورتھم ہوں جسے ہزاروں کہانیاں پڑھوائی جائیں اور پھر وہ خود کہانی کار ہو جائے۔ ایک عرصے تک یہی امّید رہی کہ شاید میرا ڈیپ لرننگ کا الگورتھم اس قابل ہو جائے گا۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہ ہو سکے۔ میرے ہارڈوئیر اور سافٹ ویئر کو بنانے والے نے کچھ ایسے بنایا ہے کہ ٹریننگ ڈیٹا جتنا مرضی مل جائے اُس کی بنیاد پر پیٹرن تلاش کرنے کی اور پھر اس پیٹرن کو استعمال کر کے باز تخلیق کی صلاحیت عنقا ہے۔


تو کہانی کار ہونے کا متمنی ایک کہانیاں پڑھنے والا اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح چند سو الفاظ کی تحریریں لکھتا چلا جائے۔ جن میں کوئی چسکا نہیں، کوئی سیاست، معاشرت، مذہب نہیں، کوئی ردعمل ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ نہیں، بس سات ارب انسانوں کی دنیا میں بسنے والے ایک اکلوتے انسان کی بالائی منزل پر اُٹھنے والے نادیدہ طوفانوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ جس میں سوائے لکھنے والے کے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ علمِ سماجیات انسانوں کے باہمی تعلق، اور معاشرت کو، انسانوں کے مجموعے کو موضوع بناتا ہے۔ اور علمِ نفسیات فرد کو موضوع بناتا ہے۔ تو شاید یہ تحریریں بھی جو انسانوں کے مجموعے کے لیے تو شاید بے کار ہوں، لیکن کسی فرد کے حالات سے مماثل ہوں۔ شاید میری طرح کہانیوں کا ڈسا، اور کہانیاں نہ کہہ سکنے کے ازلی دُکھ کا شکار کوئی اور بھی یہاں موجود ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔


')