Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
Tuesday, November 27, 2012
Monday, September 24, 2012
مجھے ایک خدا چاہئے
مجھے ایک خدا چاہئے
" میں پھولوں کے انبار کو پسند نہیں کرتا۔۔ گلدستوں میں پتیوں کے مڑ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔۔ میں ستاروں کے جمگھمٹ کو پسند نہیں کرتا،، اس طرح نگاہیں بھٹک جاتی ہیں۔۔۔ میں انسانوں کے ہجوم کو پسند نہیں کرتا،، کیونکہ ہجوم کا تصور صرف قیامت سے متعلق ہے۔۔۔
مجھے ایک پھول،، ایک ستارہ،، ایک انسان چاہئے۔۔۔۔ اور اس وحدت کو صرف افسانہ ہی سہارا دے سکتا ہے ۔۔۔ میں ایک پھول کی پنکھڑیوں کا ذکر کروں گا،، تو سب پھولوں کی نمائندگی ہوجائے گی ۔۔۔۔ میں ایک ستارے کی پرواز کا حال بتاؤں گا تو سارے نظام شمسی کی سیمابی سرشت کا احساس مکمل ہوجائے گا۔۔
میں ایک انسان کو اپنے فن کا مرکز بناؤں گا تو ہبوطِ آدم سے لے کر موجودہ دور تک کا انسانی سفرنامہ سامنے آجائے گا۔۔۔ مجھے وحدت سے محبت ہے،، نقادوں کی زمانی اور مکانی وحدتیں میرے نزدیک محض اضافی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ مجھے ایک خدا چاہئے اور ایک کائنات اور ایک انسان ۔۔۔ متفق اور مجتمع !"
Saturday, August 25, 2012
Ocean tower
پر Ocean tower میں
کھڑی تھی .... کر ا چی کی رونقیں نظرآرہی تھیں
پورا شہر میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہا تھا۔
چیونٹیوں کی مانند رینگتی گاڑیاں۔ اور اُن میں بیٹھے آنکھوں کی پہنچ میں نہ آنے والے انسان۔
میں یہ سوچ رہی تھی کہ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔
چیونٹی جیسی ،بلکہ اس سے بھی کم۔
،جو لوگ اس وقت کر ا چی کی سڑکوں پر ہونگے
اُن میں کوئی بہت بڑا بزنس مین ہوگا تو کوئی بہت بڑا ٹھیکیدار۔
کوئی بہت بڑے پاب کی اولاد ہوگا جس کے پاس بہت بڑی سی گاڑی ہوگی
تو کوئی موروثی سیاستدان۔
لیکن اس وقت ان تمام انسانوں کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے؟
صرف ایک چیونٹی کی مانند
بلکہ اس سے بھی کم رینگتا ہوا کوئی کیڑا۔
میں ذرا سی بلندی پر کیا آگئ، سب انسانوں کی حیثیت میرے سامنے ہیچ ہوگئی۔
تو وہ رب۔
جس پر بلندیوں کی انتہا ہی ختم ہے۔
جو سب سے بلند و بالا ہے۔
اس کے سامنے انسان کی کیا حیثیت ہے؟
کچھ بھی نہیں۔
لیکن پھر بھی انسان اکڑتا ہے۔
شرک کرتا ہے۔
رب کو جھٹلاتا ہے۔
اس کو آنکھیں دکھاتا ہے۔
خدائی اور نبوت کو دعوے کرتا ہے۔
انسان کس چیز پر اکڑتا ہے؟
اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟؟
: اس دن مجھے قرآن کی اس آیۃ کی اصل تشریح معلوم ہوئی
"اور زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو، )کیونکہ( نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ )بدن کو تان کر( پہاڑوں کی لمبائی تک پہنچ سکتے ہو۔"
سورہ بنی اسرائیل آیۃ 37
Tuesday, June 26, 2012
سوالات
کہانیاں پڑھنے کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب پچاس پیسے میں الاسد پبلی کیشنز کی ننھی کہانیاں بازار سے مل جایا کرتی تھیں۔ فکشن ہمیشہ سے پسندیدہ ادبی صنف رہی ہے۔ اور جب سائنس فکشن ہوجائے تو پھر سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔ آج کل سٹار ٹریک نیکسٹ جنریشن سلسلے کی ٹی وی سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یار لوگوں نے چھوڑی ہے اور بہت دور کی چھوڑی ہے۔
محمدعلی مکی کی یہ پوسٹ دیکھی تو دل کیا میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ تاثرات کیا سوالات ہیں جو یہ سیریز دیکھنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے دس گنا زیادہ پر بھی سفر کرکے اپنی کہکشاں کا بیس فیصد بھی کور نہیں کرسکتا تو کائنات کے بارے میں کیسے جان سکے گا۔ اس سیریز میں خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرکے نئے نئے سیاروں پر جاتے ہیں، لیکن اس بات کا اظہار بھی موجود ہے کہ اب بھی انسان فاصلوں کا قیدی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہزاروں میل بہت زیادہ ہوتے تھے، ہزاروں نوری سال بہت زیادہ ہیں۔
میرے ذہن میں وہ وقت آجاتا ہے جب انسان خلاء کا کچھ حصہ ہی سہی مسخر کرلے گا۔ پھر مذہب اور خدا کی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا کسی اور سیارے پر جاکر اسلام پر عمل کیا جاسکے گا؟ جیسا آج زمین پر ہم کرسکتے ہیں۔ اجتہاد کا آپشن بالکل موجود ہے، لیکن میرے ذہن سے یہ سوال نہیں جاتا کہ اگر اللہ سائیں پوری کائنات کے لیے ایک ہے تو نبی مکرم ﷺ بھی ایک ہی ہیں؟ اور کیا یہ زمین کو ہی اعزاز بخشا گیا ہے کہ آخری نبی مبعوث ہو؟ کتنے گنجلک سوال ہیں کہ جن پر غور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ اہل تصوف و فلسفہ ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا ان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہی ناقص ہے۔
رہی بات ابن رُشد کے فلسفے کی تو اس وقت کے محدود علم کے مطابق اس نے اپنے خیالات کو قرآن سے مطابقت پذیر کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلا اعتراض یہ ہے کہ قرآن سائنس کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ قرآن کے بہت سے بیانات ایسے ہیں کہ انھیں زمین کی تخلیق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور کائنات کی تخلیق پر بھی۔ تخت پانی پر تھا، آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی صرف دھواں تھا۔ یہ تو سیارہ زمین کی حالت بھی ہوسکتی ہے جو شروع میں پگھلی ہوئی چٹانوں کا آمیزہ تھی، اور جس کا کرہ ہوائی تھا ہی نہیں۔ کائنات جتنی وسیع و عریض ہے، اس کو چلانے کے لیے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو اس کی حدود سے ماوراء ہو۔ جس پر وقت اور خلا کا اثر نہ ہو۔ اور وہ ہر جگہ موجود ہستی رب کریم کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ جو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی رہے گی۔ شاید ہم جسے قیامت کہتے ہیں وہ ہر کائنات میں ہر لمحہ برپا ہوتی رہتی ہے، کسی نہ کسی زمین پر، شاید۔ ہمارا علم کائنات کے بارے میں بہت محدود ہے۔ چہ جائیکہ ہم خدا کی حیثیت کا تعین کریں۔ ہمیں تو یہ نہیں پتا کہ جہاں یہ کائنات ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد کیا ہے؟ کیا لامتناہی خلاء ہے یا کسی کمرے کی دیواروں کی طرح سرحدیں ہیں۔ کہ جہاں وقت اور خلا کا تصور ہی مٹ جاتا ہے۔
کائنات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔ زمان و مکان کی جن جہتوں سے ہم واقف ہیں ان کے علاوہ بھی جہتیں موجود ہیں۔ اگر محمد الرسول اللہ ﷺ لمحوں میں عرش بریں کا سفر کرکے واپس آسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی بہت سی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں، اور زمان و مکان کے فاصلے ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے جن پر ذات باری کا لطف و کرم ہوتا ہے۔ خدا کلیات سے بھی واقف ہے اور جزئیات سے بھی، اگر وہ ایک انسان ﷺ کو وقت کے پنجے سے نکال کر اپنے پاس بلا سکتا ہے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور ہر جگہ موجود بھی ہوسکتا ہے۔ خدا کی صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے ہر چیز کا علم ہو، اور وہ ہر چیز پر قادر ہو، اس بات پر بھی کہ وہ کائنات کو پیدا اور فنا کرسکے۔ ورنہ اس کے خدا ہونے کے مقام میں شک ہے۔ چناچہ میرا یقین یہ ہے کہ خدا اس کائنات سے پہلے بھی تھا، اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ اگر کبھی یہ کائنات فنا کردی گئی تو۔