پر Ocean tower میں
کھڑی تھی .... کر ا چی کی رونقیں نظرآرہی تھیں
پورا شہر میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہا تھا۔
چیونٹیوں کی مانند رینگتی گاڑیاں۔ اور اُن میں بیٹھے آنکھوں کی پہنچ میں نہ آنے والے انسان۔
میں یہ سوچ رہی تھی کہ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے۔
چیونٹی جیسی ،بلکہ اس سے بھی کم۔
،جو لوگ اس وقت کر ا چی کی سڑکوں پر ہونگے
اُن میں کوئی بہت بڑا بزنس مین ہوگا تو کوئی بہت بڑا ٹھیکیدار۔
کوئی بہت بڑے پاب کی اولاد ہوگا جس کے پاس بہت بڑی سی گاڑی ہوگی
تو کوئی موروثی سیاستدان۔
لیکن اس وقت ان تمام انسانوں کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے؟
صرف ایک چیونٹی کی مانند
بلکہ اس سے بھی کم رینگتا ہوا کوئی کیڑا۔
میں ذرا سی بلندی پر کیا آگئ، سب انسانوں کی حیثیت میرے سامنے ہیچ ہوگئی۔
تو وہ رب۔
جس پر بلندیوں کی انتہا ہی ختم ہے۔
جو سب سے بلند و بالا ہے۔
اس کے سامنے انسان کی کیا حیثیت ہے؟
کچھ بھی نہیں۔
لیکن پھر بھی انسان اکڑتا ہے۔
شرک کرتا ہے۔
رب کو جھٹلاتا ہے۔
اس کو آنکھیں دکھاتا ہے۔
خدائی اور نبوت کو دعوے کرتا ہے۔
انسان کس چیز پر اکڑتا ہے؟
اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟؟
: اس دن مجھے قرآن کی اس آیۃ کی اصل تشریح معلوم ہوئی
"اور زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو، )کیونکہ( نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ )بدن کو تان کر( پہاڑوں کی لمبائی تک پہنچ سکتے ہو۔"
سورہ بنی اسرائیل آیۃ 37
No comments:
Post a Comment