وہ دیکھو
زرد شاخوں پر دوبارہ پھول مہکے ہیں
ہوایئں لڑکھڑائی ہیں
قدم موسم کے بہکے ہیں...
زمیں نے سبز چادر اوڑھ کر
خود کو سنوارا ہے
کئے ہیں زیبِ تن شاخوں نے زیور
سرخ پھولوں کے
پرندے پھر سے چہکے ہیں
بھلا ہر اک نظارہ ہے...
..
کوئی بھولا ہوا
بھٹکا ہوا پچھلی بہاروں کا
پلٹ آئے تو یہ سمجھے
کہ سب ویسے ہی منظر ہیں
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا...
..
مگر اس کم فہم ناداں مسافر کو
بھلا یہ کون سمجھائے
بھلا یہ کون بتلائے
کہ
میں نے اور زمیں نے کس طرح پت جھڑ گزاری ہے
کہ
میں نے اور زمیں نے کس طرح یہ ہجر کاٹا ہے...
No comments:
Post a Comment