Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Monday, February 2, 2015

زلزلے اللہ کا عذاب؟





ہر زلزلے کے بعد اس قوم میں جو بحث چھڑتی ہے اس کا عنوان یہ یا ملتا جلتا ہوتا ہے۔
زلزلے اللہ کا عذاب ہیں۔

"ہم گناہگار ہو چکے ہیں اور زلزلہ بطور وارننگ آیا ہے۔

"فلاں علاقے میں بہت گناہ ہو رہے تھے اس لیے زلزلہ آیا۔"

"کشمیر میں عصمت فروشی بہت زیادہ تھی اس لیے زلزلہ آیا۔"
وغیرہ وغیرہ۔

میرے جیسا نیم سمجھ والا بندہ اس معاملے میں کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اگر ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہے تو سمندروں میں جو زلزلے آتے ہیں وہ کس پر بطور عذاب آتے ہیں؟ اس تھیوری کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جاپانی دنیا کی سب سے زیادہ گناہگار قوم ہیں کہ زلزلے تو سب سے زیادہ وہیں آتے ہیں۔ اور باقی دنیا ان کی نسبت زیادہ نیک ہے اس لیے زلزلے یعنی اللہ کا عذاب ان پر کم آتا ہے۔

اس تھیوری کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے (جو کہ میرے خیال میں غیر شعوری ہے) کہ اس پر یقین رکھنے والے زلزلے سے بچنے کے اقدامات نہیں کرتے۔ چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں، اور عذاب اسی صورت میں ٹل سکتے ہیں جب اللہ کی فرمانبرداری کی جائے، یعنی زلزلہ نہ آنے کے لیے سچے پکے مسلمان بنا جائے۔ توبہ استغفار کی جائے، رحم کی بھیک مانگی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مزید یعنی زلزلے سے بچاؤ کے لیے کوئی آفات سے نمٹنے کا ادارہ، آفات سے نمٹنے کا منصوبہ نہ بنایا جائے، چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں اس لیے آپ، میں جو مرضی کر لیں اب پیدا کرنے والے کی پکڑ سے تو نہیں بچ سکتے نا۔ تو زلزلے تو آئیں گے، وگرنہ اپنے آپ کو درست کر لیں؛ یعنی سچے پکے مسلمان۔






مجھے اس تھیوری سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ماشاءاللہ بڑے نمازی، پرہیز گار اور خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان یہ سوچ رکھتے ہیں۔ میں بذاتِ خود ایمان کے آخری درجے پر کھڑے مسلمان کی حیثیت سے اللہ سے اس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔ اللہ کو اللہ کریم کہہ کر پکارتا ہوں، کہ عذاب والی بات سے مجھے ڈر لگتا ہے، اس کی پکڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رحمت، کرم، فضل اور عطاء کا طلبگار ہوتا ہوں۔

لیکن، اُلٹی کھوپڑی، پُٹھی سوچ، میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہیں۔ چونکہ میں زمین پر دیکھتا ہوں کہ زلزلے کئی ایسی جگہوں پر بھی آتے ہیں جہاں کوئی آبادی نہیں، تو میں انہیں عذاب نہیں سمجھ سکتا، چونکہ میں اللہ کو کریم، رحیم، رحمان کے روپ میں دیکھتا ہوں۔ اور وہ اپنی مخلوق پر (علاوہ انسان) زلزلے نہیں بھیجتا۔ اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیئے کہ انسانوں پر زلزلے پھر ہمیشہ عذاب ہوتے ہیں لیکن بے آباد جگہوں پر آنے والے زلزے عذاب نہیں ہوتے ہوں گے۔ یعنی جب بھی زلزلہ آبادی میں آیا اٹینشن ہو جاؤ تم خراب لوگ ہو اپنے آپ ٹھیک کر لو ورنہ پکڑ میں آ جاؤ گے۔


لیکن چونکہ میں ایک پُٹھی سوچ والا نچلے درجے کا مسلمان ہوں، میری نظر اللہ کی رحمت پر رہتی ہے اس لیے میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ ہاں بعض اوقات اللہ کا عذاب، اللہ کی وارننگ ہوتے ہوں گے۔ زلزلے پر میں بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن میں زلزلے کو ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں سمجھتا۔ میری اس سوچ کی تصدیق قرآنی آیات سے ہوتی ہے۔ یہاں لفظ "زلزلہ" والی چھ قرآنی آیات (ترجمہ عرفان القرآن) پیش کر رہا ہوں۔ مجھے لفظ زلزلہ کے لیے تلاش میں یہی آیات ملیں۔ ملاحظہ کریں:
7|78|سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
7|91|پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،

7|155|اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،
22|1|اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے،
29|37|تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا ڈالا پس انہیں (بھی) زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مُردہ) پڑے تھے،
79|6|(جب انہیں اس نظامِ کائنات کے درہم برہم کردینے کا حکم ہوگا تو) اس دن (کائنات کی) ہر متحرک چیز شدید حرکت میں آجائے گی، 79|7|پیچھے آنے والا ایک اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا

مذکورہ بالا آیات میں پہلے سورہ نمبر ہے پھر آیت نمبر، اور ترجمہ عرفان القرآن ہے۔ یہاں چار آیات میں زلزلہ بمعنی عذاب آیا ہے۔ ہر مرتبہ ایک نبی علیہ السلام صورتحال میں موجود تھے۔ عموماً متعلقہ قوم انتہا درجے کے کفر میں مبتلا تھی، انہیں پہلے وارننگ دی گئی اور پھر جب نبی مایوس ہو گئے تو زلزلے نے انہیں آ گھیرا۔ بقیہ دو آیات قیامت کے زلزلے سے متعلق ہیں۔

انہیں آیات کا اقتباس دے کر "زلزلے عذاب ہیں" کی دلیل دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اقتباسات سیاق و سباق سے ہٹ کر دئیے جاتے ہیں، اگر پورے سیاق و سباق کو مدِ نظر رکھا جائے تو انبیا کی نافرمان قوم کا سارا منظر نامہ بنتا ہے اور زلزلہ آخری حل کے طور پر بطور عذاب مسلط کیا جاتا ہے۔ اور یاد رہے ایسا صرف چار مرتبہ ہوا ہے۔ زلزلوں کی سالانہ فریکوئنسی (چند ہزار سال ارضیاتی پیمانے پر چند دن کے برابر ہیں، اس لیے آج اگر سالانہ ہزاروں زلزلے آتے ہیں تو دو تین ہزار سال قبل بھی یہی صورتحال ہونے کا اغلب امکان ہے۔) کو دیکھیں تو یہ بات محال لگتی ہے کہ ہر زلزلہ عذابِ الہی ہو۔ اگر ایسا تھا تو قرآن میں صرف چار واقعات ہی کیوں (میں آیات کی تعداد کے حوالے سے چار واقعات کہہ رہا ہوں لیکن تین آیات ایک جیسی اور ایک موسی علیہ اسلام والی مختلف ہے، اس طرح عذاب کے دو واقعات بنتے ہیں نہ کہ چار)، انسانی تاریخ تو کم از کم (بنی اسرائیل کے حوالے سے دیکھیں تو) کئی ہزار سال قبلِ مسیح تک جاتی ہے۔ تب سے نبی کریم ﷺ کے زمانے تک صرف چار زلزلے بطور عذاب؟ تو صاحب میری سوچ یہ ہے کہ زلزلے اللہ کا عذاب ہوتے ہیں، چونکہ قرآن کہتا ہے لیکن زلزلے ہمیشہ بطور عذاب نہیں آتے۔ یہ ایک ارضیاتی عمل ہے جو زمین جیسے سیاروں پر نارمل بات ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پیدا کرنے والا کبھی کبھی جھٹکا دینے کے لیے قدرتی مظاہر کو استعمال کرتا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے۔

اور اس سوچ کے لیے میں ہوا اور آندھی کی مثال دینا چاہوں گا۔ قرآن میں عذاب کی دوسری صورتیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ایک ہوا کے عذاب کی ہے۔ مثلاً آیت ملاحظہ ہو۔

46|24|پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے، (ایسا نہیں) وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (آرہا) ہے،

یہاں بادل اور آندھی جیسے قدرتی مظاہر کو وارننگ کے لیے استعمال کرنے کا ذکر ہے۔ بالکل جیسے زلزلے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ بادل رحمت لے کر آتے ہیں۔ مثلاً

15|22|اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہو،

تو عزیزانِ گرامی میرے خیال سے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالٰی کی ذات سے ہمیشہ عذاب کی امید رکھنے والے میری نظر میں رحمت سے ناامید لوگ ہیں۔ چونکہ میری نظر اُس کی پکڑ سے زیادہ رحمت پر ہے، اس لیے میں اس تھیوری سے انکار کرتا ہوں کہ ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ زلزلہ ایک نارمل ارضیاتی عمل ہے، جیسے بادل اور ہوا ہیں۔ لیکن جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کبھی ان ارضیاتی عوامل کو استعمال کر کے قوموں کو جھنجھوڑا بھی جاتا ہے اور ایسا عموماً بڑی سخت صورتحال میں ہوا، جب کسی قوم نے اپنے نبی کا مکمل انکار کر دیا، ان پر حجت تمام ہوگئی، ہدایت پہنچا دی گئی تو پھر بھی نہ ماننے والوں پر عذاب آ گیا چاہے وہ پتھر برسنے کی صورت میں ہو، ہوا یا بادل سے یا زلزلے کی صورت میں ہو۔

میرا نقطہ نظر کم علم کوتاہ نظر جاہل کی بڑ لگ سکتا ہے۔ لیکن جاہل ہوتے ہوئے بھی میں نظر اُس کی رحمت پر رکھنے کا عادی ہوں، پکڑ پر نہیں۔


مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مولا میں تیری عطاء کا امیدوار، میرا ہر بال، میرا ہر سانس، میرا ہونا ہی مجھ پر تیری رحمت ہے میرے مالک، مجھ پر اپنا فضل کر دے، کرم کر دے، عطاء کر دے، رحمت کر دے۔ میں دو کوڑی کا، میں گندی نالی کا کیڑا میرے مالک تیری رحمت بے پناہ، تیرا فضل بے پایاں، تیری عطاء بے شمار، تیرا کرم بے کنار، تو اپنے نبی ﷺ، تو اپنے سوہنے نبی ﷺ کا صدقہ مجھے پر اپنی رحمت رکھنا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔ 


No comments:

Post a Comment

')