Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
Monday, August 31, 2015
ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ "
ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ "
ﻣﯿﮟ ﺁﮌﮬﮯ ﺗِﺮﭼﮭﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﻮﭼﻮﮞ
.
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ _______ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﻨﺎﺳﺎ ﺳﯽ ﻏﺰﻝ ﺗﺮﺍﺷﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺁﮌﮬﮯ ﺗِﺮﭼﮭﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﻮﭼﻮﮞ
.
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ _______ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﻨﺎﺳﺎ ﺳﯽ ﻏﺰﻝ ﺗﺮﺍﺷﻮﮞ
ﮐﮧ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﻧﺘﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ _____ ،
ﮔﻨﻮﺍ ﺩﻭﮞ ﺍِﮎ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ
.
ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭘﮧ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﮨﮯ
.
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻧﺼﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﮧ ﮨﮯ _____ ،
.
ﻋﺬﺍﺏ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻃﻮﯾﻞ ﺗﺮ ﮨﮯ ﺳﻔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ؟؟
..................
ﻃﻠﺐ ﮐﻮ ﺍَﺟﺮ ﻧﮧ ﺩﻭﮞ ‘ ﻓﮑﺮِ ﺭﮨﮕﺬﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﮯ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍُﺑﮭﺮﺗﮯ ﮈﻭﺑﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﻟﻮﮞ ﺭﺷﺘﮧ
ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﮍﮪ ﮐﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁِ ﻭﻓﺎ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﻭﮞ ‘ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ‘ ﻣﺮﯼ ﻣﺘﺎﻉِ ﻓﺮﺍﻕ
ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍﺟﺎﮌ ﺷﺐ ﮐﯽ ﺧﻠﺶ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺑَﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﮮ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﮔﻨﻮﺍ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﻞ ﮐﻮ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ۔ ۔ ۔
ﮔﻨﻮﺍ ﺩﻭﮞ ﺍِﮎ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ
.
ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭘﮧ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﮨﮯ
.
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻧﺼﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﮧ ﮨﮯ _____ ،
.
ﻋﺬﺍﺏ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻃﻮﯾﻞ ﺗﺮ ﮨﮯ ﺳﻔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ؟؟
..................
ﻃﻠﺐ ﮐﻮ ﺍَﺟﺮ ﻧﮧ ﺩﻭﮞ ‘ ﻓﮑﺮِ ﺭﮨﮕﺬﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﮯ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍُﺑﮭﺮﺗﮯ ﮈﻭﺑﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﻟﻮﮞ ﺭﺷﺘﮧ
ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﮍﮪ ﮐﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁِ ﻭﻓﺎ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﻭﮞ ‘ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ‘ ﻣﺮﯼ ﻣﺘﺎﻉِ ﻓﺮﺍﻕ
ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﺍﺟﺎﮌ ﺷﺐ ﮐﯽ ﺧﻠﺶ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺑَﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
.
ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﮮ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﮔﻨﻮﺍ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﻞ ﮐﻮ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ۔ ۔ ۔
Friday, August 28, 2015
Wednesday, August 26, 2015
Tuesday, August 25, 2015
Saturday, August 22, 2015
پہلی نظر
پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔ پہلی
نظر کے بعد باقی رہ جانے والی تشنگی، پہلی ملاقات کے بعد بھی رہ جانے والے ان دیکھے فاصلے اور پہلے لمس میں چھپی اجنبیت صرف ایک مرتبہ کا احساس ہوتے ہیں۔ لیکن یہ احساس کبھی نہیں جاتا۔ پھر چاہے تشنگی مٹانے کو جام بھر بھر کر ملیں، فاصلے ایسے مٹیں کہ قربتوں کو رشک آنے لگے، اجنبیت ایسے دور ہو کہ جنم جنم کا ساتھ لگنے لگے، لیکن وہ پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔
میں جب کسی شہر سے، کسی شخص سے، یا کسی راستے سے پہلی بار ملتی ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بس کترا کر گُزر جاؤں۔ میرا انداز ایسا ہوتا ہے بس یہ وقت گزر جائے اور اللہ کرے دوبارہ ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔ اگر قسمت میں لکھا ہو اور ساتھ طویل ہو جائے تو پھر دھیرے دھیرے میں ان پر اور یہ مجھ پر کھُلتے ہیں۔
کسی شہر میں پہلی بار داخل ہوں تو میرا انداز بتیاں دیکھنے شہر آنے والے پینڈو جیسا ہوتا ہے۔ ہر اجنبی چیز، عمارت، نشانِ راہ کو ایسے دیکھتی ہوں جیسے ایسی کوئی چیز پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ ہر چیز کوری کنواری لگتی ہے۔ جیسے میرے ہی انتظار میں پڑی ہو کہ میں آؤں، اسے دیکھوں اور اس دیکھنے سے اُسے بھی اُس کے ہونے کا احساس دلاؤں۔ کسی شہر سے پہلی ملاقات میں موجود اجنبیت، سرد مہری، ہلکا سا کٹھور پن اور پردیسی ہونے کا احساس حواسوں پر بہت مختصر عرصے کے لیے وارد ہوتا ہے، لیکن یاداشت میں برسوں تروتازہ رہتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ بڑی طویل پیاس کے بعد ملنے والے ٹھنڈے پانی کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے گھونٹ کی اجنبیت اور ذائقہ بس ایک مِلی سیکنڈ کی گیم ہوتی ہے، لیکن وہ احساس یاد کی صورت میں ہمیشہ کے لیے دماغ میں کہیں محفوظ ہو جاتا ہے۔
مین سپرہائی وے سے
کراچی شہر میں میرا پہلا دن جب شروع ہوا تو دن ڈھل چکا تھا۔ اس لیے پہلا احساس اجنبی اور ملگجا سا ہے۔ اس کے بعد مسلسل بارش، نمی اور ہوا کی ٹھنڈک میرے اندرآج بھی کہیں بسی ہوئی ہے، اور آج اتنی بارشوں کے بعد بھی وہ پہلی بارش ان سب سے جدا ہے۔ ملازمت کے انٹرویو سے پہلے کا ایک انجانا سا خوف بھی اس پہلی ملاقات کا ایک اٹل حصہ ہے۔ پھر آفس کو جانے والا راستہ اوراس پرسفر کرتے ہوئے مسلسل لگنے والے جھٹکے، ہرجھٹکے میں موجود ایک تیکھا کٹھور پن آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ آج لگ بھگ چھہ برس بعد ان گڑھوں سے اتنی مانوسیت ہو چکی ہے کہ چلتے چلتے کتراکر گزر جاتی ہوں۔ ان کاشکار بھی بن جاؤں تو روٹین کی بات ہے۔ لیکن وہ پہلا سفر جو میں نے اس راستے پر کیا، سلور سرجیکل کمپلیکس اور اس کے اندر اور پھر انٹرویو کے بعد گیٹ تک پیدل مارچ، جولائی کی بے موسمی لگاتار برستی بارش میں چلتے چلتے اردگرد کے منظر کو جب میں نے پہلی بار اپنی یاداشت میں قید کیا، بارش کا پانی کس طرف جا رہا ہے، گرین بیلٹ کہاں ختم ہو رہی ہے، کہیں ایک برگد کا درخت ہے اورایک لان ہے جس میں گلاب اورموتیا کے پھول لگے ہوئے ہیں ،ایک گیٹ جس سے لوگ ہنستے اور قہقے لگاتے ہوئے باہر کی جانب جا رہے تھے نظر آ رہا تھا اور وہ سامنے ہاں وہی سامنے والا گیٹ ہے جہاں سے میں اندر داخل ہوئی تھی ۔ اوراس گیٹ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ، ان کی نیلی وردیاں اور ان سے دس فٹ کی دوری سے
. نظرآتا ہوا سگنل " Check Identity "
۔ اس پہلے دن کی ہر بات، ہر منظر جو بہت مختصر مدت کے لیے میرے اندر جی کر اب کسی حنوط شدہ ممی کی طرح ذہن کے کسی تہہ خانے میں محفوظ ہے، آج اتنی مانوسیت ہونے کے باوجود میں اس اجنبیت بھرے احساس کو بہت مِس کرتی ہوں۔
کراچی بہت بڑا سا شہر ہے۔ ان گزرے سالوں میں بہت حد تک اس شہر کا مزاج آشنا ہو چکی ہوں۔ راستوں کی اونچ نیچ میرے دماغی سکیما (schema) میں فِٹ ہو چکی ہے۔ اندرونِ شہر کی چھوٹی گلیاں، اور بڑی بڑی سڑکیں کھانا کھانے کے کافی سارے سپاٹ ، گاڑیوں کا شور ٹریفک سے بھرا یہ شہر کافی سارے بس ٹرمنل جہاں سے ہر ہفتے دو بار آنا جانا ہوتا ہے، اور آج پہلی بار لگ رہا ہے کہ اس روٹین کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ بہت جلد یہ روٹین بھی استعمال شدہ کپڑوں کی طرح کسی نچلے خانے میں رکھ دی جائے گی۔
میں لوگوں سے، شہروں سے اور راستوں سے اتنی جلدی بے تکلف نہیں ہوتی ۔ کوشش ہوتی ہے کہ ان سے بس کترا کر، دور دور رہ کر، بس کام کی بات کر کے چلئ جاؤں، دور ہو جاؤں۔ اجنبیت برقرار رہے، دوری قائم رہے، وہ جو عدم مانوسیت کی وجہ سے ایک سرد مہری ہوتی ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔ اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے، جیسے کسی جنگجو کو آہنی لباس کے پیچھے ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ میں کتراتی ہوں، بچتی ہوں، اس سب سے چونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر قربت بڑھی، اجنبیت کی خندق کو مانوسیت کی مٹی نے پاٹ دیا تو احساسات پیدا ہوں گے، سوچنے کے مواقع ملیں گے، اجنبی خوامخواہ اندر آن گھُسے گا۔ اور جب کوئی اندر فروکش ہو جائے تو اسے دیس نکالا دینا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ نکلنے پر آمادہ ہو بھی تو اس عمل میں ہونے والی تکلیف بہت شدید ہوتی ہے جسے برداشت کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔
اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتی ، چاہے لوگ ہوں، شہر ہوں یا راستے۔ مجھے پتا ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن میرے مقدر کا چکر مجھے کہیں اور لے جائے گا۔ یہ سب وہیں رہ جائیں گے، اپنی اپنی جگہ پر اور میں کہیں اور دربدر ہو جاؤں گی ، لیکن میرے سامان میں اضافہ ہو جائے گا۔ ایک خلاء جو کبھی پورا نہیں ہو گا۔ ایک سلو پوائزن جیسا میٹھا احساس، ایک کسک، ایک پھانس جو ہمیشہ کے لیے میرے دل میں چبھ جائے گی۔ میرے سامان میں ایک گٹھڑی ان یادوں کی شامل ہو جائے گی جو میں نے اس شخص، اس شہر اور اس راستے کی معیت میں گزارے۔ اور میرے وجود کا ایک ٹکڑا وہیں کہیں رہ جائے گا۔ میری روح کا ایک حصہ قیامت تک اس کے طواف کے لیے وقف ہو جائے گا۔ میں کچھ اور کم ہو جاؤں گی ، اور میری یادیں کچھ اور وزنی ہو جائیں گی۔ اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسی اندھی مسافتیں ہیں
یہ کیسی اندھی مسافتیں ہیں
نہ کوئی جادہ
نہ کوئی منزل
نہ رنج کوئی لا حاصلی کا
نہ میری آنکھوں میں خواب کوئی
نہ رتجگوں کا ملال کوئی
نہ دل میں کوئی الاؤ روشن
نہ آنسوؤں میں سوال کوئی
میں کیا بتاؤں،کہاں کھڑا ہوں؟
میں کیا بتاؤں
وہ کون تھا جو
اداس صبحیں،اداس شامیں
مرے مقدر میں کر گیا ہے
سراپا حیرت بنا گیا ہے
میں کیا بتاؤں وہ کوں تھا ؟
جو
نہ کوئی جادہ
نہ کوئی منزل
نہ رنج کوئی لا حاصلی کا
نہ میری آنکھوں میں خواب کوئی
نہ رتجگوں کا ملال کوئی
نہ دل میں کوئی الاؤ روشن
نہ آنسوؤں میں سوال کوئی
میں کیا بتاؤں،کہاں کھڑا ہوں؟
میں کیا بتاؤں
وہ کون تھا جو
اداس صبحیں،اداس شامیں
مرے مقدر میں کر گیا ہے
سراپا حیرت بنا گیا ہے
میں کیا بتاؤں وہ کوں تھا ؟
جو
Friday, August 21, 2015
اگرچہ میں سمجھتی تھی
اگرچہ میں سمجھتی تھی
کہ کوئی راستہ لوٹا نہیں کرتا
نہ دریا مڑ کے آتے ہیں
نہ شامیں واپسی کی سوچ پر ایمان رکھتی ہیں
اگرچہ میں سمجھتی ہوں
کہ لمحے تو فقط آگے ہی بڑھتے ہیں
مگر افسردگی کی اس پرانی رو سے لگتا ہے )
جو میرے دل پہ چھائی ہے(
محبت میں تو کچھ بھی طے نہیں ہوتا
محبت کب کسی بھی طے شدہ رستے پہ چلتی ہے
مری افسردگی چپکے سے میرے کان میں کہتی ہے
سوچتی کیا ہو
یہ دیکھو
یہ بھلا کیا ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو
نیند میں ڈوبے ہوئے
کہ کوئی راستہ لوٹا نہیں کرتا
نہ دریا مڑ کے آتے ہیں
نہ شامیں واپسی کی سوچ پر ایمان رکھتی ہیں
اگرچہ میں سمجھتی ہوں
کہ لمحے تو فقط آگے ہی بڑھتے ہیں
مگر افسردگی کی اس پرانی رو سے لگتا ہے )
جو میرے دل پہ چھائی ہے(
محبت میں تو کچھ بھی طے نہیں ہوتا
محبت کب کسی بھی طے شدہ رستے پہ چلتی ہے
مری افسردگی چپکے سے میرے کان میں کہتی ہے
سوچتی کیا ہو
یہ دیکھو
یہ بھلا کیا ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو
نیند میں ڈوبے ہوئے
غم کی ہوائیں لوٹ آئی ہیں
کہانی اوڑھ لی میں نے ۔
کہانی اوڑھ لی میں نے ۔
زمانہ چاہتا ہے ہر گھڑی بس نِت نئی باتیں
نئے دن اور نئی شامیں،
نئی صبحیں نئی راتیں
نئی قسمیں، نئے وعدے،
نئے رشتے، نئے ناتے
پُرانے جو بھی قصے تھے
وہ اب اس کو نہیں بھاتے
میں خود لفظوں کی مصرعوں کی
بہم تکرار سے جاناں
بہت اُکتا گئی تھی اب
تو میں نے یوں کیا،
لفظوں کو مصرعوں کو
لپیٹا سُرخ کاغذ میں
پھر ان کو من میں رقصاں آگ دکھلا دی
ہوا میں راکھ کے اُڑتے ہوئے
ذرّوں نے جب پوچھا
کرے گی کیا؟
سُنے گی کیا،
کہے گی کیا؟
تیرا دامن تو خالی ہے
کہا میں نے
مجھے اب کچھ نہیں کرنا
مجھے اب کچھ نہیں سُننا،
مجھے اب کچھ نہیں کہنا
کہانی اوڑھ لی میں نے
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﯾﮩﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﺟﯿﺴﮯ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﺑﺪﻥ ﺳﮯ ﮈﻭﺭ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ !
ﮔﺮﻓﺖِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﺍِﮎ ﺩﻡ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﮩﺮ ﺧﻮﺍﺑﯿﺪﮦ ﮔﻠﯿﻮﮞ
ﻧﯿﻢ ﺧﻮﺍﺑﯿﺪﮦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺁﺋﮯ ، ﺗﻮ ﺍِﮎ ﺑﺴﺘﯽ ﺍُﺟﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﻨﮧ ﻟَﺐ ﺑﮭﭩﮑﺘﮯ ﺑﮭﻮﻟﺘﮯ ﺑﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ
ﺳﺨﺖ ﺟﺎﮞ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﺑﮕﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﻣﯿﮟ
ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﺑﺎﺩﻝ ﻧُﭽﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﯾﮩﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﻏﺎﺭ ﮐﯽ ﺗﮩﮧ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ !!
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﯾﮩﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﻢ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻧﮧ ﺳﻨﺎّﭨﺎ
ﺑﭽﮭﮯ ﮔﺎ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺯﻟﻔﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺭﻭﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ
ﻧﮧ ﺷﮩﺮِ ﺩﻝ ﻓﮕﺎﺭﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺸﺮ ﺑﭙﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ !
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ !
ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺑﺎﻧﭩﺘﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ
ﺍﭘﻨﺎ ﺳِﻠﺴﻠﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﻣﮕﺮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺴﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﯾﮩﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﺟﯿﺴﮯ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﺑﺪﻥ ﺳﮯ ﮈﻭﺭ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ !
ﮔﺮﻓﺖِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﺍِﮎ ﺩﻡ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﮩﺮ ﺧﻮﺍﺑﯿﺪﮦ ﮔﻠﯿﻮﮞ
ﻧﯿﻢ ﺧﻮﺍﺑﯿﺪﮦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺁﺋﮯ ، ﺗﻮ ﺍِﮎ ﺑﺴﺘﯽ ﺍُﺟﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﻨﮧ ﻟَﺐ ﺑﮭﭩﮑﺘﮯ ﺑﮭﻮﻟﺘﮯ ﺑﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ
ﺳﺨﺖ ﺟﺎﮞ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﺑﮕﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﻣﯿﮟ
ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﺑﺎﺩﻝ ﻧُﭽﮍ ﺟﺎﺋﮯ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﯾﮩﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﻏﺎﺭ ﮐﯽ ﺗﮩﮧ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ !!
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﯾﮩﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﻟﺰﻟﮧ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﻢ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻧﮧ ﺳﻨﺎّﭨﺎ
ﺑﭽﮭﮯ ﮔﺎ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺯﻟﻔﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺭﻭﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ
ﻧﮧ ﺷﮩﺮِ ﺩﻝ ﻓﮕﺎﺭﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺸﺮ ﺑﭙﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ !
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ !
ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺑﺎﻧﭩﺘﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ
ﺍﭘﻨﺎ ﺳِﻠﺴﻠﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﻣﮕﺮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺴﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ !
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
Thursday, August 20, 2015
اُس نے خَط میں عِشق کا مَطلَب پُوچھ لِیا ہے
اُس نے خَط میں
عِشق کا مَطلَب پُوچھ لِیا ہے
میں نے لِکھا ہے!
جَب کَوئی چَہرہ دَھیان میں آ کَر
مَن آنگَن میں پُھول کِھلا دے
جَب کَوئی نام لَبُوں کَو چُھو کَر
دَھڑکنُوں کَو تَرتِیب بُھلا دے
جَب کَوئی جَذبہ کارِ جُنُوں سے
آتِش کَو گُلزار بنا دے
لَیکِن اِتنا دَھیان میں رَکھنا
کَوئی صِراطِ عِشق سے گُزرے
تَب کُھلتا ہے
عِشق سے پَہلے عشق کا مطلب
کب کھلتا یےـــ؟؟؟؟؟
عِشق کا مَطلَب پُوچھ لِیا ہے
میں نے لِکھا ہے!
جَب کَوئی چَہرہ دَھیان میں آ کَر
مَن آنگَن میں پُھول کِھلا دے
جَب کَوئی نام لَبُوں کَو چُھو کَر
دَھڑکنُوں کَو تَرتِیب بُھلا دے
جَب کَوئی جَذبہ کارِ جُنُوں سے
آتِش کَو گُلزار بنا دے
لَیکِن اِتنا دَھیان میں رَکھنا
کَوئی صِراطِ عِشق سے گُزرے
تَب کُھلتا ہے
عِشق سے پَہلے عشق کا مطلب
کب کھلتا یےـــ؟؟؟؟؟
بظاہر میں بہت خوش ہوں
بظاہر میں بہت خوش ہوں
ہر اک سے ہنس کے ملتا ہوں
بہت مصروف میری زندگی ہے
اور
لوگوں کی نظر میں ایک افسر ہوں
میں
عزت، مرتبے، شہرت میں بھی
طاقت میں بھی اکثر سے برتر ہوں
مگر
وہ چند لمحے جو
تمہاری قربتوں میں، چاہتوں کے سنگ گزرے ہیں
کبھی
یونہی
اچانک
اتفاقا"
یاد آجائیں
تو
آنکھوں کے کناروں پر نمی محسوس ہوتی ہے
'مجھے پھرزندگی میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے'
.
ہر اک سے ہنس کے ملتا ہوں
بہت مصروف میری زندگی ہے
اور
لوگوں کی نظر میں ایک افسر ہوں
میں
عزت، مرتبے، شہرت میں بھی
طاقت میں بھی اکثر سے برتر ہوں
مگر
وہ چند لمحے جو
تمہاری قربتوں میں، چاہتوں کے سنگ گزرے ہیں
کبھی
یونہی
اچانک
اتفاقا"
یاد آجائیں
تو
آنکھوں کے کناروں پر نمی محسوس ہوتی ہے
'مجھے پھرزندگی میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے'
.
Tuesday, August 18, 2015
ھم نے دیکھی ھے
ھم نے دیکھی ھے
اِن آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ھاتھ سے چُھو کے اِسے
رشتوں کا الزام نہ دو
اِن آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ھاتھ سے چُھو کے اِسے
رشتوں کا الزام نہ دو
صرف احساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
پیار کوئی بول نہیں
پیار آواز نہیں
ایک خاموشی ھے
سنتی ھے ، کہا کرتی ھے
پیار آواز نہیں
ایک خاموشی ھے
سنتی ھے ، کہا کرتی ھے
نہ یہ بُجھتی ھے نہ رُکتی
نہ ٹھہری ھے کہیں
نُور کی بُوند ھے
صدیوں سے بہا کرتی ھے.
نہ ٹھہری ھے کہیں
نُور کی بُوند ھے
صدیوں سے بہا کرتی ھے.
مُسکراھٹ سی کِھلی رھتی ھے
آنکھوں میں کہیں
اور پلکوں پہ اُجالے سے
جُھکے رھتے ھیں
آنکھوں میں کہیں
اور پلکوں پہ اُجالے سے
جُھکے رھتے ھیں
ھونٹ کچھ کہتے نہیں
کانپتے ھونٹوں پہ مگر
کتنے خاموش سے افسانے
رُکے رھتے ھیں
کانپتے ھونٹوں پہ مگر
کتنے خاموش سے افسانے
رُکے رھتے ھیں
صرف اَحساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
کراچی
کراچی پر کیا لکھوں۔ ایک عرصے سے بلاگنگ کی دنیا میں رہ کر، اور جب سے کراچی سے نعمان کے بعد بلاگرز اور تبصرہ نگاروں کی دوسری کھیپ لانچ ہوئی ہے تب سے اگر کراچی کے حالات کے بارے میں کچھ لکھا تو طعنے سننے پڑے۔ ایک بڑے سقہ قسم کے تبصرہ نگار نے فورًا پنجابی ہونے کے طعنے دینے شروع کردئیے، پنجاب میں ایسا ہو تو کوئی بولتا نہیں کراچی میں ہوگیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بات اس وقت ہورہی تھی ایک پل گرنے کی جو تعمیر کے دوران یا چند ہفتوں بعد ہی گر گیا تھا اور مجھے اس کے نیچے کھڑے ٹھیلے والوں کی موت پر بڑا افسوس ہوا تھا، کہ ایک بے ایمان کی وجہ سے غریبوں کی جان گئی، لیکن ان صاحب نے میرے لتے لینے شروع کردئیے۔
یہ ساری بات کرنے کا مقصد کسی کی گوشمالی، شکایت یا اختلافات کو ہوا دینا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ پر کبھی کبھار کچھ لکھتی ہوں، دہشت گردی پر اس وقت لکھا جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور تب چند ہفتے پہلے والی پوسٹ وجود میں آئی جس پر سب کو اعتراض تھا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے، خیر اپنی اپنی سوچ، سرحد اور بلوچستان کے حالات پر بھی کچھ نہیں لکھتی ، کیا لکھوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر بندہ کیا لکھ سکتا ہے۔ جو حجاب شب، یا شعیب صفدر، ابن ضیاء یا ابوشامل لکھ سکتے ہیں وہ میں کہاں لکھ سکتی ہوں۔ میں تو ان ظالموں کے مرنے کی دعا ہی کرسکتی ہوں۔ دعا نہیں بدعا کہ خدا انھیں غارت کرے جنہوں نے کراچی کا سکون برباد کردیا، ان سیاہ ستدانوں اور ان بےغیرت حکمرانوں بھی غارت کرے جنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے، ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے بال بچے اس میں مریں تو انھی احساس ہو کہ بےگناہوں پر ظلم کرنے سے کیا بیتتی ہے۔ کیا کہوں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے بس غم بھری ایک چپ ہے،ان قانون کے رکھوالوں کی بےغیرتی پر جو مدد کے لے کال کرنے پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم نہیں، ان حکمرانوں کی بےغیرتی پر جو لاشیں گرنے سے پہلے حالات کا ادراک نہیں کرسکتے، ہمیشہ سینچری پوری ہونے پر "نوٹس" لیتے ہیں۔ خدا انھیں ذلیل و خوار، مغضوب و مقہور کرے جو بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اب تو دعائیں بھی بے اثر ہوگئی ہیں، گناہوں سے لتھڑے دلوں سے نکلی دعائیں اوپر جاتی ہی نہیں، یہیں ڈولتی رہ جاتی ہیں۔ دعائیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایس ایم ایس
پاکستان میں اس وقت کم از کم پانچ موبائل فون کمپنیاں فعال ہیں اور جدید ترین خدمات فراہم کررہی ہیں. ملک کی آدھی کے قریب آبادی موبائل فون استعمال کررہی ہے. ہمارے میڈیا کے اشتہارات کا اچھا خاصا حصہ ان پانچ کمپنیوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتا ہے. ہر روز کوئی نیا پیکج اور ہر روز کوئی نئی آفر. یہ کردیا وہ کردیا وغیرہ وغیرہ.
ان کمپنیوں کی فراہم کردہ خدمات میں سے ایک ایس ایم ایس یعنی شارٹ میسنجنگ سروس ہے. ایس ایم ایس کے بارے میں کئی سال پہلے گلوبل سائنس میں پڑھا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہر وقت آنلائن رہ کر پیغامات وصول کرسکیں. خیر اس کا مقصد جو بھی آج کل یہ پاکستان میں انّھے وا استعمال ہورہے ہیں. لطائف سے لے کر مرے ہوئے شعرا بشمول فراز کی خوب مٹی پلید کی جاتی ہے.
ایک ایس ایم ایس، اگر آپ کے پاس کوئی پیکج نہیں، تو قریبًا سوا روپے میں پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس پیکج ہے جیسا کہ قریبًا ہر کمپنی دے رہی ہے تو آپ کو یہی ایس ایم ایس دس، بیس، تیس پیسے اور ایک پیسے سے بھی کم میں پڑتا ہے۔ لیکن اس سارے میں جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے۔ آپ پیکج کروائیں کمپنی کو مخصوص رقم ادا کریں۔ اور اس کے بعد مخصوص مدت کے لیے ایس ایم ایس کی مخصوص تعداد آپ کی ہوئی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ایس ایم ایس کام کے لیے نہیں تفریح بلکہ وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ماہانہ سو کے قریب ایس ایم ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے پہلے پہل ایس ایم ایس کرنے سے پرہیز کی کوشش کی لیکن دوست احباب کے طعنے، ہم جماعتوں کے جائز استفسارات کے جواب (چونکہ میں کلاس کا سی آر ہوں) اور کئی ایسے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے مجھے اس طرف آنا ہی پڑا۔ اب حال یہ ہے کہ ہر ماہ میرا سو کے قریب روپیہ ان پر لگتا ہے۔ اور پھر مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ایس ایم ایس اتنے رہ گئے ہیں انھیں ختم بھی کرنا ہے۔ چناچہ میں نے جہاں ایک کرنا ہو وہاں تین چار بھی کردیتا ہوں۔ اب ان کو ختم بھی تو کرنا ہے کا سوچ کر۔
میرا سوال اتنا ہے کہ اگر ایس ایم ایس اتنا سستا ہوسکتا ہے جیسا کہ ان پیکجز کے ذریعے ہے تو اس کو مناسب ریٹ پر لاکر نارمل پیکج میں شامل کیوں نہیں کردیا جاتا؟ جس طرح ایس ایم ایس مفت بانٹے جارہے ہیں ،چار روپے کٹوائیں 24 گھنٹے میں 500 ایس ایم ایس آپ کے، اگر اس کو دس سے ضرب دی جائے تو جواب آٹھ پیسے آتا ہے۔ چلیں دس پیسے کرلیں اور ٹیکس ڈال کر پندرہ پیسے کرلیں۔ اگر پندرہ پیسے کا ایس ایم ایس بھی کردیا جائے تو کیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے چائنہ میں بات ہورہی تھی اس کے مطابق ایک ایس ایم ایس پاکستانی پانچ سے چھ روپے کا پڑتا ہے، کال سننے کے چارجز دینے پڑتے ہیں، روزانہ کے پیسے کاٹے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں وائرلس لوکل لوپ والے روز کے پیسے کاٹتے ہیں بطور لائن رینٹ اور جب آپ کا بیلنس ختم تو نمبر بند۔ جب تک دوبارہ لوڈ نہ کریں تو نہ کال وصول سکیں گے نہ اس دوران آیا میسج آپ تک پہنچ سکے گا، کمپنی کے سرور پر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں اس سے حالات ہزار درجے بہتر ہیں اور اس کی وجہ کمپنیوں کا آپسی مقابلہ ہے۔ لیکن پھر بھی ان کمپنیوں ہمارا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سیل فون کام کی چیز نہیں فن اور مسخریاں کرنے کی چیز بن گیا ہے۔ کام کے لیے میسج کرنا ہے تو سوا روپیہ اور بے مقصد کرنے ہیں تو جتنے چاہیں۔ بس پیسے کٹواتے جائیں اور جو مرضی حاصل کرلیں مفت ایس ایم ایس سے لے کر انٹرنیٹ کے گھنٹوں کی سستے ترین گھنٹے۔ لیکن اس طرح کہ آپ انھیں استعمال صرف اور صرف وقت ضائع کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ عجیب سائنس ہے یہ بھی اور اس سائنس نے ہم نوجوانوں کی کیمیا کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کی بے مقصد رات ساری ساری رات گپ بازی اور موبائل چیٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔