Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Wednesday, November 23, 2016

مرزا اسد اللہ خان غالب




ادیب

پیدائشی نام اسد اللہ بیگ خاں

عرفیت مرزا نوشہ

قلمی نام مرزا غالب

تخلص اسد

غالب

ولادت 27 دسمبر، 1797ء، آگرہ

ابتدا آگرہ

وفات 15 فروری، 1869ء

اصناف ادب شاعری

نثر

ذیلی اصناف غزل




خطابات نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔


مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔


شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔


غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری 


رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔










آئین اکبری کی منظوم تقریظ






1855ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ’’آئین اکبری‘‘ کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھی ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔


دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔


سر سید کہتے تھے کہ 


"جب میں مرادآباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فوراً سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"


ظاہرا جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کےساتھ تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے، سرسید نے کہا:


" آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"


مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے: واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔













سرسید کے ذہن میں یہ نکتہ بیٹھ گیا اور اس کی باقی ماندہ زندگی مردہ پروردن کے کار نامہ مبارک سے بلند ہوکر مردہ قوم میں زندگی کا تازہ خون دوڑانے کی مبارک و مسعود کو ششوں میں بسر ہوئی۔










مکتوب نگاری

غالب اور علی گڑھ







دیار علی گڑھ اپنے جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سے مرزا غالب کے مولد اکبر آباد اور مسکن و مدفن دہلی کے درمیان آباد وہ قدیم شہر ہے جو تاریخ میں عرصہ دراز تک ”کول“کے نام سے مشہور رہ کر مغل حکمراں بابر کے ایک ماتحت عہدیدار محمدعلی جنگ جنگ (فاتح کول)کے دور میں علی گڑھ کے نام سے موسوم ہوا تھا ۔ مگر عہدغالب میں بھی دیار علی گڑھ کو اس کے قدیم نام ’کول‘ سے یاد کئے جانے کی روایت جاری رہی تھی غالب نے اپنے متعدد اردو خطوط میں اس شہر کو علی گڑھ اور ”کول“ دونوں ہی ناموں سے یاد کیا ہے۔ غالب کے مولد و مدفن سے دیار علی گڑھ کے محل وقوع کی قربت غالب اور علی گڑھ کے درمیان ایک وابستگی کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے.


علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خاں اور اقلیم شعر و ادب کے قد آور سخن ور مرزا اسد اللہ خاں غالب کے درمیان تعلق کے جن رشتوں کا سراغ ملتا ہے اس مقالے میں سب سے پہلے انہیں پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔ غالب اور سر سید کے صحیفہ حیات کے مطالعے سے اس دلچسپ اتفاق کا انکشاف ہوتا ہے کہ جس طرح سید احمد خاں کا مولد دہلی غالب کا مسکن رہا تھا اسی طرح غالب کا مولد آگرہ بھی چند سال تک سید احمد خاں کا مسکن بنا تھا۔ گویا ان دونوں ہم عصر مشاہیر میں سے ایک کا مولد دوسرے کا مسکن رہاہے۔ تنخواہ اور پنشن کے سلسلے میں دونوں معاصرین کے احوال میں اشتراک کا یہ دلچسپ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ غالب انگریزی حکومت سے پنشن اور مغل دربار سے تنخواہ پایا کرتے تھے۔ سید احمد خاں کو مغل دربار سے خاندانی پنشن اور انگریزی حکومت سے تنخواہ ملتی رہی تھی۔ مرزا غالب (متولد 27دسمبر, 1797ء) سید احمد خاں (ولادت 17 اکتوبر 1817ء) سے عمر میں کم و بیش بیس سال بڑے تھے۔ غالب اپنی شادی (17رجب 1225ھ مطابق شنبہ 18 اگست 1880 ء)کے دو تین سال بعد تقریباً 13، 1812ءمیں اپنے مولد اکبر آباد (آگرہ) کو خیر باد کہہ کر دہلی منتقل ہوئے تھے اور غالب کے ورود دہلی کے چار پانچ سال بعد سید احمد خاں کی ولادت 17 اکتوبر, 1817ء کو دہلی میں ہوئی تھی ۔


غالب اور سید احمد خاں کے سن وسال میں بیس برس کے اس تفاوت کے باعث ان دونوں ہم عصروں میں برابر کے دوستانہ روابط تو نہ قائم ہوسکے لیکن دہلی کے ایک ہی دیار میں دونوں کا برسوں تک قیام دونوں میں باہمی شناسائی اور قربت کا سبب ضرور بنا تھا۔ حیات جاوید میں شاگرد غالب مولانا حالی راوی ہیں کہ سید احمد خاں مرزا غالب کو چچا کہتے تھے اور مرزا بھی سید صاحب پر بزرگانہ شفقت فرمایا کرتے تھے حیات جاوید میں مولانا حالی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سید احمد خاں اپنے علمی ذوق کی تسکین و تکمیل کےلئے اٹھارہ انیس سال کے سن میں (23۔1835ء) کے آس پاس دہلی کے جن عالموں کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہتے تھے ان میں غالب بھی شامل تھے۔ فروری 1839ء سے سرسید احمد خاں انگریزی حکومت میں اپنی ملازمت کے باعث دہلی سے نکل کر زیادہ تر مختلف مقامات پر رہنے لگے اور دہلی میں انہیں مستقل قیام کا موقع کم ہی مل سکا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر دہلی میں غالب سے سید احمد خاں کی ملاقات کے مواقع کم ہی رہے ہوں گے لیکن غالب اور سیداحمدخاں کے ادبی آثار میں ایسے متعدد شواہد دستیاب ہوتے ہیں جن سے ان دونوں ہم عصروں میں باہمی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا اردو دیوان پہلی بار سید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں کے مطبع واقع دہلی سے شعبان 1257ھ مطابق اکتوبر 1841ءمیں شائع ہوا تھا ۔ ان دونوں کے درمیان تعلقات کی تصدیق سید احمد خاں کے نام غالب کے اس نودریافت فارسی خط سے بھی ہوتی ہے۔ جو 10جنوری، 1842ءکے بعد مگر 31دسمبر، 1845ءسے قبل اس زمانے میں لکھا گیا تھا جب سید احمد خاں فتح پور سیکری (ضلع آگرہ) کے منصف تھے۔


غالب کا ایک نو دریافت فارسی خط کتاب تلاش غالب میں موجود ہے۔ اور اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خط در اصل غالب کے نام سید احمد خاں کے ایک خط کا جواب ہے۔ غالب کا یہ خط اور اس میں سید احمد خاں کے مکتوب کا حوالہ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان مکاتبت کے رشتے کا بھی انکشاف کرتا ہے اس خط سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ غالب نے اس خط کے ہمراہ سید احمد خاں کو اپنی ایک نعتیہ مثنوی بھی نقل کرکے ارسال کی تھی۔ غالب نے مکتوب الیہ کے بڑے بھائی کو آخر میں سلام لکھ کراس خط کو تمام کیا ہے۔ سید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں ۳۱ذی الحجہ ۱۶۲۱ھ مطابق 31دسمبر، 1854ءکو دہلی میں فوت ہوئے تھے لہٰذا سید احمد خاں کے نام غالب کایہ فارسی خط 31دسمبر، 1854ء سے قبل لکھا گیا ہوگا۔ سید احمد خاں مرزا غالب سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔ سید صاحب کی کتاب آثار الصنادید کے ۷۴۸۱ءکے پہلے ایڈیشن کے چوتھے باب میں ذکر بلبل نوایان سواد جنت آباد حضرت شاہ جہاں آباد کے عنوان کے تحت دہلی کے جن متعدد شاعروں کا حال ملتا ہے ان میں سر فہرست خاصی مدح و تعریف کے ساتھ غالب کے مفصل احوال اور ادبی آثار کو جگہ دی گئی ہے۔


اس کتاب میں ذکر غالب کے ضمن میں سید احمد خاں نے غالب سے اپنے عقیدت مندانہ گہرے روابط کا حالان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ : ”ان (غالب)کی نعمت تربیت کا راقم آثم (سید احمد خاں) کو جو ان کی خدمت میں ہے، اس کا بیان نہ قدرت تقدیر میں ہے اور نہ احاطہ تحریر میںآسکتا ہے اور چوں کہ ”دلہا بدلہا باشد“ ان حضرت کو بھی وہ شغف تھا راقم کے حال ہے کہ شاید اپنے بزرگوں کی طرف سے کئی مرتبہ اس کا مشاہدہ کیا ہوگا میں اپنے اعتقاد میں ان کے ایک حرف کو بہتر ایک کتاب سے اور ان کے ایک گل کو بہتر ایک گلزار سے جانتا ہوں۔“ ۹ سید احمد خاں نے مرزا غالب کی فارسی نثر و نظم کے نمونے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کی اردو شاعری کے نمونوں کوبھی اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس میں سید احمد خاں نے غالب کے احوال و ادبی آثار کے علاوہ غالب کے جن شاگردوں کے احوال و آثار کو کتاب میں جگہ دی ہے۔ ان میں یہ نام شامل ہیں: نواب محمد ضیاءالدین خاں بہادر نیر درخشاں (ص ص ۴۴۱ تا ۹۵۱) نواب زین العابدین خاں بہادر عارف (ص ص ۹۵۱ تا ۳۶۱) نواب غلام حسن خاں محودہلوی (ص ۳۶۱) نواب ذوالفقار علی خاں آذر (ص ۵۶۱) نواب محمد مصطفیٰ خاں بہادر حسرتی و شیفتہ (ص ص ۲۰۲ تا ۰۱۲) آثار الصنادید اپنے دامن میں غالب کی ایک منثور فارسی تقریظ بھی رکھتی ہے غالب کی یہ تقریظ پنج آہنگ (مشمولہ کلیات نثر غالب)میں بھی محفوظ ہے۔ غالب نے سید صاحب کی کتاب آثار الصنادید کا ایک نسخہ اپنے کرم فرما حکیم سید رجب علی خاں ارسطو جاہ ( ۶۰۸۱۔۹۶۸۱ئ ) کو اپنے جس فارسی مکتوب کے ہمراہ ارسال کیا تھا اس میں غالب نے اس کتابکی تعریف کی تھی۔ (احوال غالب ص ۹۱) غالب کے مکتوب الیہ ارسطو جاہ علم ریاضی میں سید احمد خاں کے حقیقی نانا (دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خاں مصلح جنگ) کے شاگرد رہ چکے تھے۔ ارسطو جاہ سید رجب علی خاں کے مختصر حالات زندگی بزم غالب میں موجود ہیں۔۱۱ غالب کے ادبی آثار میں سید احمد خاں کی مرتب کردہ فارسی کتاب آئین اکبری (سنہ اشاعت ۲۷۲۱ھ مطابق ۵۵۸۱ئ)پر بشکل مثنوی ایک منظوم فارسی تقریظ بھی موجود ہے۔ اڑتیس اشعار کی یہ مثنوی کلیات غالب طبع ۳۶۸۱ءمیں شامل ہے۔ اس مثنوی میں غالب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ آئین اکبری جیسی تقویم پارینہ کتاب پر محنت کرنے کے بجائے انگریزوں کے آئین حکومت پر توجہ دینا بہتر ہوگا۔


اپنی مرتب کردہ کتاب آئین اکبری کے خلاف غالب کی یہ تقریظ سید احمد خاں کو ناپسند ہوئی اور انہوں نے اسے کتاب میں شائع نہیں کی۔ ۲۷۲۱ھ/۵۵۸۱ءکے آس پاس کا یہ ناخوش گوار واقعہ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی و بد مزگی کا سبب بنا تھا. آئین اکبری پر غالب کی مخالفانہ تقریظ کی واپسی کے سلسلے میں سید احمد خاں نے غالب کے نام جو خط لکھا تھا وہ تو اب ناپید ہے لیکن حیات جاوید (ص ص ۲۷ تا ۳۷)میں اس ناخوشگوار واقعے کے متعلق مولانا حالی کے بیان کی شہادت سید احمد خاں اور غالب کے درمیان مکاتبت کے اس رشتے کی نشان دہی ضرور کرتی ہے جس کے ثبوت سطور گذشتہ میں پہلے بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ آئین اکبری کے متعلق غالب کی یہ مخالفانہ تقریظ اس لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک ایک بعید از انصاف بات ثابت ہوتی ہے کہ غالب اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل خود مہر نیم روز کے عنوان سے سلطنت مغلیہ کی تاریخ لکھ چکے تھے۔ مہر نیم روز کی پہلی اشاعت ۲ربیع الاول ۱۷۲۱ھ مطابق جمعہ ۳۲نومبر ۴۵۸۱ءکو منظر عام پر آئی تھی جو اکبر اعظم کے والد مغل حکمراں نصیر الدین ہمایوں تک کی سلطنت مغلیہ کی تاریخ پر مشتمل ہے ۔






مرزا غالب کی ایک یادگار تصویر۔


ان حقائق کے پیش نظر سلطنت مغلیہ کی تاریخ سے متعلق جس کام کو وہ خود انجام دے چکے تھے اس کی سر انجام دہی پر غالب کا سید احمد خاں کو روکنا کہاں تک جائز تھا۔ ؟ ہمارے خیال میں یہ سوال قابل غور ضرور ہے۔ سید احمد خاں کی مرتب کردہ کتاب آئین اکبری کے متعلق غالب کی تقریظ سے ان دونوں ہم عصر مشاہیر کے درمیان ۵۵۸۱ءکے آس پاس پیدا ہوجانے والی یہ دوری یوں دورہوئی کہ مرزا غالب جب سفر رامپور سے دہلی واپس ہورہے تھے تو وہ راہ میں چند روز کے لئے مراد آبادکی سرائے میں ٹھہرے۔ سید احمد خاں اس زمانے میں مراد آباد ہی میں صدر الصدور تھے۔ سید صاحب غالب کو سرائے سے اپنے مکان لے آئے اور انہوں نے اپنے مکان پر غالب کی خاطر خواہ خاطرمدارات کرکے ان سے اپنے روابط دوبارہ استوار کر لئے۔ حالی کا بیان ہے کہ غالب نے یہ سفر والی ِ رام پور نواب یوسف علی خاں کے زمانے میں کیا تھا ۴۱ ہماری معلومات کے مطابق نواب یوسف علی خاں کے دور میں غالب کے قیام رام پور کازمانہ ۷۲جنوری ۰۶۸۱ءسے ۷۱مارچ ۰۶۸۱ءتک کی درمیانی مدت کو محیط رہا تھا اور وہ ۷۱مارچ سے ۴۲مارچ ۰۶۸۱ءکی درمیانی تاریخوں کے دوران مراد آباد میں سید احمد خان کے مکان پر ایک آدھ روز مہمان رہے تھے۔ ۵۱ غالب اور سید احمد خاں کے درمیان ذاتی نوعیت کے یہ روابط ہمارے غالب اور علی گڑھ کے سلسلے میں پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب کے عزیزوں ، کرم فرماﺅں ، شاگردوں اور عقیدت مندوں کی فہرست میں ایسے متعدد افراد کے نام ملتے ہیں جن کے روابط سید احمد خاں سے بھی ثابت ہوتے ہیں ان دونوں ہم عصر مشاہیر کے مشترک مربیوں اور رفیقوں وغیرہ کی جامع و مکمل فہرست جس محنت و فرصت کی طالب ہے اس کے لئے سر دست ہمارے پاس وقت نہیں ۔ہم غالب و سید احمد خاں کے دائرہ تعارف و تاثر میں شامل صرف ان چند افراد کے مختصر ذکر پر اکتفا کرتے ہیں جن کا حوالہ ان دونوں مشاہیر کے احوال یا ادبی آثار وغیرہ میں ہماری نظر سے گزرا ہے۔


سید محمد خاں سید محمد خاں (متوفی ۳۱ذی الحجہ ۱۶۲۱ھ مطابق ۳۱دسمبر ۵۴۸۱ئ) سید احمد خاں کے حقیقی بڑے بھائی تھے۔ سید محمد خاں نے سید الاخبار کے نام سے دہلی سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا تھا جس میں سید احمد خاں کے مضامین بھی چھپا کرتے تھے۔ یہ اخبار جس پریس سے شائع ہوتاتھا اس کے یہ دو نام ملتے ہیں:


(۱)لیتھو گرافک پریس دہلی. (۲)مطبع سید الاخبار دہلی .


سید الاخبار کے لیتھو گرافک پریس دہلی سے غالب کا اردو دیوان ان کی زندگی کے دوران پہلی بار شعبان ۷۵۲۱ھ مطابق اکتوبر ۱۴۸۱ءمیں چھپا تھا۔ غالب شاید اسی لئے سید محمد خاں اور ان کے سید الاخبار کو عزیز رکھتے تھے ۔سید الاخبار اور سید محمد خاں کے متعلق غالب نے میجر جان کوب کو اپنے ایک فارسی خط میں جو کچھ لکھا ہے اس کا اردو مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ ”سید الاخبار کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ منت مزید ہے مطبع سید الاخبار کے مالک جو میرے دوست ہیں میراکلام چھاپ رہے ہیں۔ دیوان اردو غالباً ایک مہینے کے اندر چھپ کر نظر عالی سے گزرے گا۔ سید الاخبار ہر ہفتے آپ کی خدمت میں پہونچتا رہے گا مطبع والوں نے میری آپ سے نیاز مندی کی بنا پر آپ کا نام نامی سر فہرست خریداران رکھا ہے۔ “ مطبع سید الاخبار سے غالب کے اردو دیوان کے علاوہ خودسید احمد خاں کی بھی بعض کتب شائع ہوئی تھیں۔ جن میںآثار الصنادید طبع اول (مطبوعہ ۷۴۸۱ءبھی شامل ہے

No comments:

Post a Comment

')