Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Thursday, November 24, 2016

فہمیدہ ریاض





سوال: پھر باقاعدہ شاعری کب سے شروع کی؟

ف ر: وہ تو کالج کے زمانے ہی میں۔ زبیدہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد۔ سب کو نیشنلائیز کر لیا گیا تھا لیکن وہ تو شاید تھا ہی سرکاری کالج۔ بڑی اچھی جگہ تھا اور بڑا سا آسمان تھا اس پر۔ خاصا کھلا ہوا تھا اب تو نا جانے کیسا ہو گیا ہو؟ کالج کے زمانے میں نظمیں لکھنے لگی تھی۔ کبھی کبھی کسی کو سنا بھی دیں۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ بھیج دیں۔ اس زمانے میں ’فنون‘ شروع ہوا تھا یہ سکسٹی تھری کی بات ہے یا سکسٹی فور ہو گا۔ تو میں نے نظمیں بھیجیں اور وہ شائع ہو گئیں بس اس طرح آغاز ہوا۔ 

سوال: پہلی نظم کون سی شائع ہوئی؟

ف ر: یہ تو مجھے اب یاد نہیں ہے ’پتھر کی زباں‘ پہلے مجموعے کا نام تھا۔ سکسٹی سیون میں شائع ہوا۔ اس میں وہ نظم ہے۔ فنون میں وہ ایک نہیں تین چار نظمیں اکٹھی شائع ہوئی تھیں۔ اس کے بعد میں فنون میں ہی لکھتی رہی۔ اب تو کچھ عرصے سے میں نثر زیادہ لکھ رہی ہوں۔ سات آٹھ سال سے۔ 
سوال: بنیادی تشخص آپ کا شاعرہ کا ہے۔ اور اتنے عرصے سے شعر کہہ رہی ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کیا بنیادی بات آپ نے کہنے کی کوشش کی؟

ف ر: دیکھیے کبھی کبھار تو آپ کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ تر تو آپ وہ لکھتے ہیں جو آپ کے دل پر گزر رہی ہوتی ہے۔ یا تو کوئی چیز جو آپ کو بہت اچھی لگے یا کسی چیز سے آپ کو بہت گہرا دکھ ہو۔ تو رسمی طریقے سے وہ ایک شعر بن جاتا ہے اور آپ اسے لکھ ڈالتے ہیں۔ 

سوال: کیسے آتی ہے نظم اور کیسے پھر وہ صفحے تک جاتی ہے؟

ف ر: یہ بڑا ہی مسٹیریس عمل ہے۔ بعض اوقات تو کوئی صورتِ حال ہے اور ایک لفظ آپ کے دماغ میں آتا ہے، اور بعض اوقات تو ایک لفظ کے گرد ایک نظم بن جاتی ہے۔ ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کہ کچھ الفاظ ہوتے ہیں جو آتے ہیں آپ ان کے گرد بناتے ہیں سارا تانا بانا۔ 

سوال: کچھ نظمیں آپ کی سیاسی ہیں۔ کچھ واقعاتی بھی ہیں؟

ف ر: سیاست ایسا نہیں ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی سے الگ کوئی چیز ہو۔ خود میری نسل جس دور میں پلی بڑھی، آپ ساٹھ کی دہائی لے لیجیے، تو وہ دور خود پاکستان میں ایک تبدیلی کا دور تھا۔ وہ ایوب خان کا دور تھا۔ ایوب خان کے خلاف ایک سٹوڈنٹ موومنٹ شروع ہوئی تھی۔ کراچی سے شروع ہوئی تھی اور اس وقت ہم سٹوڈنٹ تھے اور ہم بھی اس میں شامل تھے ایک نئی دنیا بنانے کا ولولہ سا تھا جو صرف پاکستان ہی میں نہیں تھا۔ ساری دنیا ہی میں تھا۔ لوگوں کی جدوجہد کا ایک دور۔ نظام تبدیل ہو رہے تھے، حکومتوں کے تختے الٹے جا رہے تھے۔ خصوصاً ان ملکوں میں پوسٹ کالونیل جنہیں آپ کہہ سکتے ہیں۔ چاہے وہ فرانس، چاہے جرمنی اور چاہے وہ انگلینڈ ہو انہوں نے اپنی کالونیز (نوآبادیات) چھوڑی تھیں اور ان کے معاشروں میں ایک اتھل پتھل تھی ایک ایسی تبدیلی کی خواہش جو آ رہی تھی اور آنا چاہتی تھی۔ نوآبادیاتی نظام سے نکلنے والی دنیا میں ایک نئے نظام کا خواب تھا۔ جو سماجی برابری کا اور انصاف کا اور وہ قابلِ حصول لگ رہا تھا اس وقت کیونکہ چند ایک ممالک تھے جن میں تبدیلیاں آئی تھیں اور یہ ایک بڑی انسپریشن تھی، تو ان حالات میں بہت سوچ سمجھ رکھنے والا پڑھا لکھا شخص کوئی نہ کوئی سٹینڈ لے رہا تھا۔ گو کہ اس وقت یہ تحریکیں اتنی مضبوط نہیں تھیں لیکن ان میں ایسے بھی تھے جو مذہبی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا مطمعِ نظر ہونا چاہیے۔ اس میں جو نمایاں فکری عنصر تھا وہ سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ میں بھی اس میں شامل تھی یقیناً، اور صرف میں ہی کیوں، بلاشبہ میں نے سیاسی نظمیں لکھی ہیں، جیسے کہ میں تمہیں بتایا ہے کہ میری جو پہلی نظم تھی وہ بھی کوئی ایسی رومان پرور نہیں تھی۔ حالانکہ عشق بہت بڑا محرک ہوتا ہے شاعری کے لیے، آپ سے شعر کہلوانا شروع کر دیتا ہے عشق لیکن اس وقت ہمارے پس منظر میں آپ دیکھیں تو فیض صاحب تھے۔قاسمی صاحب کی شاعری تھی، مجاز کی بھی شاعری تھی۔ مجروح سلطان پوری کی شاعری تھی، ساحر لدھیانوی کی شاعری تھی۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں ہم نے لکھنا شروع کیا۔ تو اس میں گہری سیاسی وابستگی تھی اور اب بھی رہتی ہے۔ 

سوال: ایک تو یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے چاہے وہ سیاسی ہو غیر سیاسی ہو، سماجی نوعیت کا ہو، ذاتی نوعیت کا ہو، اجتماعی ہو انفرادی ہو، آپ کو متاثر کرتا ہے لیکن کچھ ایسے سیاسی واقعات بھی ہوتے ہیں، آپ ایک ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا کے دوسرے واقعات سے زیادہ آپ کو متاثر کرتا ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن جیسے آپ نے بھٹو صاحب کے دور میں بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی، حلقے میں پڑھی تھی، تو ایسے واقعات آپ کے ہاں شعری شکل کیسے اختیار کرتے ہیں؟

ف ر: سیاسی واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ وہ آپ کو بہت گہرے طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ایک بے چینی پیدا کرتے ہیں اور آپ ٹہلنے لگتے ہیں اور لکھنے لگتے ہیں جب تک پورا تصور بن کر سامنے نہ آ جائے اور پھر آپ اسے تھوڑا بہت سجا سنوار نہ لیں۔ یعنی یہ دوسرا مرحلہ کہ آپ اس کی تراش خراش کرتے ہیں۔ لیکن پہلا تو بہت ہی پُراسرار ہے اور سچ تو یہ ہے کہ شاعر اس کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ اور ہر بار یہ ایک طرح سے ہوتا بھی نہیں ہے۔ ہر مرتبہ کوئی نئی ہی چیز ہوتی ہے لیکن یہ درست ہے کہ مجھے نظم لکھنے کےلیے کبھی اس طرح کی چیزوں کی ضرورت نہیں ہوئی۔ میں نے ایک دو نظمیں تو رکشہ میں بھی بیٹھ کر لکھی ہیں کیونکہ وہ اسی وقت خیال آ رہے تھے اور اسی وقت لکھیں۔ یہ میں نے محسوس کیا ہے کہ جو پہلا پہلا امپیکٹ ہوتا ہے آپ کے ذہن پر آپ کے دل پر وہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اسے اگر اسی وقت نہ لکھ نہ لیا جائے نہ تو بعد میں آپ اسے پکڑ نہیں پاتے۔ ایسے ہی ہے کوئی وقت ہوتا ہے، کوئی آن، کوئی پل جو آپ کےساتھ کچھ کر رہا ہے، کچھ الفاظ ہیں جو آپ کے ذہن میں آ رہے ہیں اور ایک طرح سے آ رہے ہیں۔ کچھ امیجز ہیں جو آ رہے ہیں، آپ اس وقت انہیں لکھ نہیں دیں گے تو پھر وہ بھاگ جائیں گے۔ آپ کے ہاتھ پھر نہیں آنے والے۔ 





No comments:

Post a Comment

')