ترے ہجر میں ، تری آس میں ، مُجھے کیا ملا تری پیاس میں
یہ حیات ساری گُذر گئی ، تُجھے دیکھنے کو ترس گئی
۔
مری سوچ پر ، مری فکر پر ، رہا سایہ تیرے خیال کا
یہ ُجنون اتنا بڑھا کہ میں ، تُجھے ملنے مثل ِ مَگس گئی
وہ لحاظ تھا یا حصار تھا ، کہ ہمیشہ جس میں بندھی رہی
نہ نکل سکی،نہ میں کُھل سکی،مری ڈور ایسی تھی کَس گئی
۔
میں سؔبیلہ ایسی ہوں فاختہ ،جو بہت دنوں سے تھی قید میں
جو رِہا ہُوئی تو نہ اُڑ سکی ، سو دوبارہ سُوۓ قَفس گئی
سؔبیلہ انعام صدیقی
No comments:
Post a Comment