چلو آج ہاتھ سے پھسل چکے سال کے
تمام لمحیں یاد کرلیتے ہیں
وہ باتیں جن پہ اختلافات بڑھنے کے ڈر سے
چپ سادھ لی تھی ہم نے
وہ سب بول دیتے ہیں
کچھ خدشے بھی تو دامن سے لپٹے رہتے تھے
انکو بھی ہواؤں کے سپرد کرکے
کسی اور نگر بھیج دیتے ہیں
وہ سب اچھی یادیں
جو آنکھ نم کرنے کا سبب بنی
ان پہ مسکرا دیتے ہیں
کچھ سانسیں جو ہم کھلی فضا میں لینا چاہتے تھے جو وبا کی نظر ہوئی
ان سانسوں کو چھت پہ جاکر
شام کے دھندلکے میں
آزاد کردیتے ہیں
گزرتے سال کی تمام تلخ یادیں کسی صندوق میں
قید نہ کرنا
کسی ساحل کنارے وہ سب دریا میں بہا دیں گے
گزرتے سال کے گزرتے لمحے
آؤ ہم سنگ منا لیتے ہیں !