رات کے اس پہر
کیا کروں درد کا
مجھ میں جو چیختا اور چلاتا ہے
سانس لیتا ہے اور
ایسا لگتا ہے کہ کوئی تازہ سا ہے زخم جس نے مرے
دل میں گھاؤ کیا
ایسے لگتا ہے کہ پھر کسی یاد نے
درد کی چیخوں کو دو گنا کر دیا
اس درد کو اس اذیت کو میں
ایک آواز کی شکل دیتی تو ہوں
کیا کروں کوئی سنتا نہیں ہے یہاں
کوئی احساس میرا سمجھتا نہیں
کیا بتاؤں مجھے ایک انجانے سے درد نے کر دیا ایسا گھائل مجھے
کوئی سنتا نہیں
کاش کوئی تو ہو
کاش کوئی تو ہو
No comments:
Post a Comment