Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Thursday, May 13, 2021

Some heart melting words that parents should understand✨❤.

                           


                 

" نیو جنریشن, نیو پرابلمز " 

"ملينيلز: وائے ہارڈ ٹو مینج؟"


(ملينيلز ' mallenials ' انیس سو اسی کے ابتدا سے سن 2000 کے ابتدا میں پیدا ہونے والی جنریشن)


" کیا آپ میں سے  کوئی ایسا ہے جس کے گھر میں ڈبا ٹی وی ہو؟ " 

یقیناً نہیں ۔

 "کوئی ایسا جو مٹی کے گھر میں رہتا ہو؟" 

نہیں نا۔

" کوئی جو آج بھی گدھے, گھوڑوں پر سفر کرتا ہو؟"

نہیں نا۔

 اب تو جہاز آگئے ہیں."

 " ہاں یہ نیا زمانہ ہے"


"اچھا بچپن میں جب آپ شرارت کرتے تھے تو آپ کے والدین کیا کرتے تھے؟" 


"وہ آپ کو روکتے تھے؟ " 

ایسا ہی ہے نا۔

 پھر آپ شرارت کرتے تھے تو وہ آپ کو ٹوکتے تھے.

 ایسا ہے؟"

"اور آپ تب بھی بات نہیں مانتے تھے تو وہ کیا کرتے تھے؟"

ٹھوکتے تھے۔

' ہاں پھر وہ ٹھوکتے تھے۔" 


"اچھا وہ تو پرانا دور تھا, مٹی کے گھروں کا, گدھے گھوڑوں کا اور ڈبے والے ٹی وی کا. اب جب آپ کے بچے آپ کی بات نہیں مانتے یا شرارت کرتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ "


"روکتے ہیں؟ ٹوکتے ہیں؟ اور پھر؟ پھر ٹھوکتے ہیں"

ایسا ہی ہے؟

جی بالکل ۔ ایسا ہی ہے ۔

جب سب بدل گیا ہے تو آپ کا پیرینٹنگ اسٹائل کیوں نہیں بدلا؟"

"چلیں ٹھیک ہے ہو سکتا ہے یہ طریقہ کار آمد ہو تبھی آپ نے بھی اپنے والدین کا انداز اپنا رکھا ہے. تو بتائیں جب آپ اپنے بچے کو روکتے, ٹوکتے اور ٹھوکتے ہیں تو وہ آپ کی بات مان جاتا ہے؟ کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے بچے کو روکا, ٹوکا, ٹھوکا اور کچھ دیر بعد بچا آپ کے پاس آیا ہو اور کہا ہو ماما آپ نے تو میری آنکھیں ہی کھول دیں."

"یقیناً نہیں ہوتا! 

بلکہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ بچہ وہ ہی سب کرنے لگ جاتا ہے. اس کا یہ مطلب ہوا کہ طریقہ ہے ہی غلط اگر صحیح ہوتا تو کچھ نتیجہ نظر آتا. نہیں؟" 

اس جنریشن میں اور آپکی جنریشن میں بہت فرق ہے. یہ جنریشن آپ سے زیادہ ٹیلینٹڈ ہے. آپ کے ٹی وی کی سیٹنگ بدل جاتی ہے, یا رنگ ٹون بدل جاتی ہے تو آپ ان بچوں سے کہتے ہیں کہ صحیح کر دیں. زرا بتائیں جب آپ اپنے بچوں کی عمر کے تھے آپ کو یہ سب آتا تھا؟" 

" اچھا ایک مثال لیتے ہیں. آپ نے گاڑی لینی ہے, سب گھر والے بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ کون سی گاڑی لیں. آپ کی ملازمہ جھاڑو لگاتے وہاں آتی ہے اور کہتی ہے سر/ میڈم فلاں گاڑی لے لیں. کیا آپ اس کی بات مانیں گے؟"

"نہیں. "

"کیوں؟ "


کیونکہ اس کا اسٹیٹس لو ہے۔میں اس  جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔


"اچھا. اب آپ کو کسی مکینک نے کہا کہ آپ فلاں گاڑی لے لیں. آپ اس کی بات مانیں گے؟"

"ہاں."

"کیا مکینک کا اسٹیٹس آپ سے میچ کرتا ہے؟ "

آپ نے ملازمہ کی بات کیوں نہیں مانی. اور مکینک کی کیوں مان لی؟"

جواب آپ خود جانتے ہیں ۔

"کیونکہ ملازمہ کے پاس آپ سے کم ٹیلنٹ ہے اور مکینک کے پاس گاڑیوں کا آپ سے زیادہ ٹیلنٹ ہے. اس لیے آپ نے ایک کی بات مانی اور دوسری کی نہیں مانی." 

جب آپ کے بچے کے پاس آپ سے زیادہ ٹیلنٹ ہے تو وہ بھی آپ کی بات نہیں مانے گا کہ ماما یا پاپا کو تو کچھ نہیں پتا. "

"اسی طرح آپ  کے دور میں ٹیکنالوجی اس قدر نہیں تھی. آپ کو ٹیکنالوجی کا تجربہ بھی نہیں ہے، آپ کو لگتا ہے آپ کا بچہ بگڑ گیا ہے جبکہ آپ تو سدھرے ہوئے تھے."

" تو جناب آپ اس لیے سدھرے ہوئے تھے کیونکہ بگاڑنے کو اس دور میں اتنا کچھ تھا ہی نہیں. نہ فیس بک تھی. نہ انٹر نیٹ تھا. نہ وڈیو گیمز تھی. '

" تو مطلب آپ سدھرے ہوئے تھے کیوں کہ بگاڑنے کو کچھ تھا ہی نہیں. ہاں اگر فیسبک ہوتی اور پھر بھی آپ کتابوں کو فیس کرتے تو میں مانتی۔ وڈیو گیمز ہوتیں پر آپ نہ کھیلتے تو بھی میں مانتی. "

"آپ میں کتنے لوگ ہیں جن کے بچے ان سے بچپن میں اپنی باتیں شئیر کرتے تھے؟"

یقیناً بہت سے آپ میں سے ایسے ہیں۔

 "اور کتنے لوگ ہیں جن کے بچے اب بڑے ہو کر بھی آپ سے اپنی باتیں شئیر کرتے ہیں؟ "

یقیناً بہت ہی کم۔ نا ہونے کے برابر ۔

"جب وہ چھوٹے تھے اسکول سے آتے تھے. آپ ان سے پوچھتے تھے آج اسکول میں کیا ہوا، ٹیچر نے کیا کہا، کوئی دوست بنا نہیں بنا، کھانا کھایا تھا نہیں کھایا. وہ اپنی کوئی شرارت بتاتا آپ ہنس دیتے. اسی طرح وہ آپ کو اپنی باتیں بتاتا رہا. ایک دن وہ گھر آیا اور کہا ماما آج ہم سب دوستوں نے بنک کیا تھا. وہ اسی خوشی سے آپ کو بتا رہا تھا۔ مگر آپ کے تاثرات بدلے، آپ ہنسے نہیں بلکہ غصہ کیا. اسے ڈانٹا.


"پھر کیا ہوا؟ کیا اس نے یہ سب کرنا چھوڑ دیا؟ نہیں. بلکہ بتانا چھوڑ دیا. فون پر پاسورڈ لگا لیا. تا کہ ماما کو کچھ نہ پتا چلے، بابا کو کچھ نہ پتا چلے. "


"بچے غلط نہیں ہیں. آپ کا رویہ غلط آپ کا ان کو ہینڈل کرنے کا طریقہ غلط ہے."


" آپ کہتے ہیں کہ کوے کا بیٹا کوا ہوتا ہے تو آپ کا بچہ بھی آپ کی طرح ہو، تو معزرت کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔


"کیونکہ وہ آپ کا دور تھا جب بیٹے کا رول ماڈل باپ اور بیٹی کی آئیڈیل ماں ہوتی تھی. تبھی ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور درزی کا بیٹا درزی ہوتا تھا. اب والدین رول ماڈل نہیں رہے. اب درزی کا بیٹا ڈاکٹر بننا چاہتا ہے اور ڈاکٹر کا بیٹا ڈریس ڈزائنر. اسی طرح حجام کا بیٹا انجینئیر بننا چاہتا ہے اور انجینئیر کا بیٹا ہئیر ڈریسر. "


" ایک اور بہت بڑا مسئلہ بچوں کی ٹین ایج. مجھے پتا ہے والد اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے ہیں. مگر پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر آکر ان کا بیٹوں سے رویہ الگ ہوتا ہے اور بیٹی سے الگ. "


کئی لوگ ہوں گے جن کے گھر اس چیز کو لے کر بے سکونی رہی ہو گی. بیٹا کسی لڑکی کو پسند کرے، راستہ روک کے کھڑا ہو، دن رات باتیں کرے، تو جوانی ہے. ٹائم پاس ہے. بیٹی کسی کو پسند کر لے تو توہین سمجھتے ہیں. اعتماد کھو دیتے ہیں. بات کرنا بند کر دیتے ہیں.


"پہلی بات انا بنا لیتے ہیں. اسے نفرت سے دیکھتے ہیں. اور اگر شادی وہیں کر بھی دیں اور وہ نہ چل سکے تو کہیں گے تمہاری ہی مرضی تھی. بھگتو۔ اور اگر ارینج میرج نہ چل سکے؟ "

"تو کہیں گے نصیب تھا. میں یہ نہیں کہہ رہی کہ بچے اپنی مرضی سے ہی شادی کریں. پر سمجھیں آپ اپنے بچوں کو سمجھیں. خدا سے مشورہ لیں.

ہو سکتا ہے یہ ہی اللہ کا فیصلہ ہو. ورنہ میں نے کئی ارینج میرج والوں کو سسکتے ہوئے زندگی گزارتے دیکھا ہے۔

 بیٹوں کو سمجھائیں. یہ بیٹیاں بڑی نازک ہوتی ہیں. چاہے اپنی ہوں یا دوسروں کی. ان سے گھر میں کوئ اونچی آواز میں بات کر لے تو رونے لگ جاتی ہیں تو بتائیں جن کو یہ بچے گلیوں محلوں، کالجوں کے باہر آوازیں کستے ہیں ان پر کیا گزرتی ہو گی؟ خدارا ان کا خیال کریں کہ پھر دکھی دل کی بد دعا بھی عرش تک جاتی ہے.

 یقیناً بہت کچھ یاد آیا ہو آپ کو۔


" مدرز سے کہتی ہوں بچوں کو دینا سیکھائیں. ایدھی صاحب کہتے ہیں ان کی ماں ان کو دو دیتی تھی ایک خود کے لیے ایک کسی ضرورت مند کے لیے. اور آج کل کی مائیں کیا کرتی ہیں؟ بچا گھر آتا ہے تو کہتی ہیں خود کھایا یا کسی اور کو کھلایا؟ اگر کبھی ٹیچر کچھ چکھ لے تو اسکول پہنچ جاتی ہیں کہ اس نے میرے بچے کا ٹفن کھا لیا. یون وہ جان جاتا ہے کہ اس نے کسی کو نہیں دینا. اور جب وہ دیتا نہیں تو اس کے پاس آتا بھی نہیں ہے. پیسہ, پیار, محبت, علم سب دینے سے بڑھتے ہیں. "


فادرز سے کہتی ہوں یار سخت باپ نہ بنو. آپ کے اصول لاکھ ٹھیک سہی پر وقت بدل گیا ہے. زمانہ اپ ڈیٹ ہو گیا ہے آپ اپناطریقہ بھی اپ ڈیٹ کر لیں. وہ آپ کے بچے ہیں. آپ کا ان کا نہ کوئی مقابلہ ہے اور نہ ہی کوئی موازنہ ہے. 

 ان سے ضد نہ لگائیں. وہ آپ سے دور ہو جائیں گے. "


دو طرح کے والدین ہیں ایک وہ جو بچوں کو آذاد چھوڑ دیتے ہیں اور ایک وہ جو پابند کر دیتے ہیں. دونوں طریقے غلط ہیں ۔ بیلنس لانا سیکھیں.

" اپنے بچے کو دماغی طور پر تھوڑا آذاد کریں، اسے فیصلہ لینے دیں کہ اسے کیا بننا ہے. آپ اس خوف سے کہ فیصلہ نہ کر لے اس کے سارے فیصلے خود لیتے رہتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ اسے فیصلہ لینا ساری زندگی نہیں آتا. اسے اپنے پروں کے نیچے سے نکالیں پلیز، تھوڑی گرم ہوا لگنے دیں. ہمارے ہاں تو ٹیچر بھی بچے کی طرف انگلی اٹھا دے تو انگلی کاٹنے پہنچ جاتے ہیں ہم. بھئی تھوڑا سیکھنے دیں اسے اور انسان اپنی ہڈیوں سے ہی سیکھتا ہے. اسے ذمہ داری دیں.

 "مغرب میں بچہ بلوغت کو پہنچتا ہے اور ماں باپ ہاتھ اٹھا لیتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری خود اٹھاؤ.

 امریکہ کے سابق صفر اباما کی بیٹی ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس تھی. اسی طرح ایک بڑی طاقت کے وزیر اعظم کا بیٹا لوگوں کے گھروں مین اخبار ڈالتا تھا. کیا ان کے پاس پیسہ نہیں تھا کہ اپنے بچوں کو سکون کی زندگی دیتے؟ آپ سے زیادہ وسائل تھے پر انہوں نے بچوں کو باہر نکالا تا کہ وہ ذمہ داری اٹھانا سیکھ

سکیں.'

"آج آپکا بچہ غلط فیصلے لے گا تو ہی کل صحیح فیصلے لے سکے گا. "

وہ اپنے کیریر میں جو کرنا چاہتا ہے کرنے دیں. مجبور مت کریں. کہ تم نے ڈاکٹر ہی بننا ہے. وہ نہ بن سکا تو ساری زندگی اٹک جائے گا. اگر وہ فیل ہو جاتا ہے زندگی کے کسی میدان میں تو اسے نالائق تصور نہ کریں۔ میں کہتا ہوں ناکامی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے. ہو سكتا ہے جس دروازے کو اپنے بچے کا نصیب سمجھ کر آپ دستک دلوا رہے ہوں زبردستی کھلوانے کی کوشش کر رہے ہوں وہ ہو ہی نا. اتنے بچے ہر سال تعلیمی وجوہات کی بنا پر خود کشی کر لیتے ہیں. یار جب بچہ ہی نہیں رہے گا تو ڈاکٹر انجینیر کا کیا کریں گے آپ؟ "

میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کو ناکامی ملی. میرے والدین کی خواہش تھی میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنوں. نہیں بن سکی. بہت طعنے سنے. بہت کچھ سہا. بالآخر میں آج ایک بہت اچھے ادارے میں ٹیچنگ کر رہی ہوں ۔ اور آج خدا کا شکر ادا کرتی نہیں تھکتی کہ اس وقت اگر فیل نہ ہوئی ہوتی تو آج یہاں یہ سب نہیں بیان کر سکتی ۔

 میرا ہر لفظ آپ کی اپنی زندگی ہی تو ہے.اور اس وقت شاید بہت سے والدین اور بچوں کے رشتے کو نئی زندگی مل گئی ہے۔



No comments:

Post a Comment

')