سائیں!تو اپنی چلم سے
|
تھوڑی سی آگ
دے دے
|
میں تیری
اگر بتی ہوں
|
اور تیری
درگاہ پر مجھے
|
ایک گھڑی
جلنا ہے۔ ۔ ۔
|
یہ تیری
محبت تھی
|
جو اس پیکر
میں ڈھلی
|
ا ب
پیکرسلگے گا
|
تو ایک
دھواں سا اٹھے گا
|
دھوئیں کا
لرزاں بدن
|
آہستہ سے
کہے گا
|
جو بھی ہوا
بہتی ہے
|
درگاہ سے
گذرتی ہے
|
تیری
سانسوں کو چھوتی ہے
|
سائیں!آج
مجھے
|
اس ہوا میں
ملنا ہے
|
سائیں!تو
اپنی چلم سے
|
تھوڑی سی
آگ دے دے
|
میں تیری
اگر بتی ہوں
|
اور تیری
درگاہ پر مجھے
|
ایک گھڑی
جلنا ہے۔ ۔ ۔
|
جب بتی سلگ
جا ئے گی
|
ہلکی سی
مہک آئے گی
|
اور پھر
میری ہستی
|
راکھ ہو کر
|
تیرے قدم
چھوئے گی
|
اسے تیری
درگاہ کی
|
مٹی میں
ملنا ہے۔ ۔ ۔
|
سائیں!تو
اپنی چلم سے
|
تھوڑی سی
آگ دے دے
|
میں تیری
اگر بتی ہوں
|
اور تیری
درگاہ پر مجھے
|
ایک گھڑی
جلنا ہے
|
Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
No comments:
Post a Comment