Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Pages
▼
Monday, June 29, 2015
Saturday, June 27, 2015
تمہیں معلوم تو ہوگا
تمہیں معلوم تو ہوگا
سبھی موسم بدلتے ہیں
کبھی تپتی دوپہریں جون کی
تن من جلاتیں ہیں
کبھی یخ بستہ راتوں کا
دسمبر لوٹ آتا ہے
کبھی پت جھڑ کا موسم خون پیتا ہے درختوں کا
کبھی سُوکھی ہُوئی شاخوں پہ کلیاں کھلکھلاتیں ہیں
خزاں کا دم نکلتے ہی
بہاریں مسکراتیں ہیں
تمہیں معلوم تو ہوگا
سبھی موسم بدلتے ہیں
مگر یہ بھی حقیقت ہے
ہمارے دِل کے آنگن میں
کسی صُورت نہیں بدلا
تمہاری یاد کا موسم
Friday, June 26, 2015
Tuesday, June 23, 2015
کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
آدھی رات کے سناٹوں میں
کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
,______جانے کس کا فون آیا ہے
فون اُٹھا کر یوں لگتا ہے
اُس جانب کوئی گُم سُم ، گُم سُم
!____________________اُکھڑا اُکھڑا
دھیرے دھیرے کانپ رہا ہے
مہکی ہوئی اک خاموشی ہے
,,_______________گُھپ خاموشی
لیکن اس خاموشی میں بھی
,,,,____گوُنج رہے ہیں
ٹھنڈی سانسیس ، بارش ، آنسو
خاموشی سے تھک کر اُس نے
سانس لیا تو
!چُوڑی کھنکی
اُف یہ کھن کھن
اِک لمحے میں سارے بدن میں
!!!پھیل گئی ہے
تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے
لیکن اتنے برسوں بعد____؟؟؟؟
کون سا نام تجھے دوں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟
کون سا نام تجھے دوں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟
یوں بھی گزری ہے کہ جب ۔۔۔۔۔۔۔
درد میں ڈوبی ہوئی شام،
گھول دیتی ہے میری سوچ میں زہرِ ایام !
زرد پڑ جاتا ہے جب شہــــرِ نظر کا مہتاب،
خون ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب !
ایسے لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ،
مہرباں ہاتھ تیرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریشم و بلّور سے ہاتھ،
اپنے شانوں پہ میرے ســـــر کو جھکا دیتے ہیں!!
جس طرح ساحلِ امید سے بے بس چہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
دیر تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں !
یوں بھی گزری ہے کہ جب ۔۔۔۔۔۔۔
قرب کی سرشاری میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمک اٹھتا ہے نگاہوں میں تیرے حُسن کا شہر،
نہ غمِ دہر کی تلچھٹ، نہ شبِ ہجـــــــر کا زہر !
مجھ کو ایسے میں اچانک تیرا بے وجہ سکوت،
کوئی بے فیـــض نظر، یا کوئی تلوار سی بات !
ان گنت درد کے رشــــــتوں میں پرو دیتی ہے !
اس طرح سے کہ ہر آســــودگی رو دیتی ہے !!
کون سا نام تجھے دوں ؟ میرے ظالم محبوب !
تو ہی قاتل ہے میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہی مسیحا میرا !!
ﻣﺤــــﺒﺖ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯿﺠﻮ , ــــ
ﻣﺤــــﺒﺖ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯿﺠﻮ , ــــ
ﻛﻪ
ﺟﯿﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﭘﺮ ﺗﺘﻠﯽ , ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮬﮯــــ
ﮬﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﻟﺘﯽ , ﭘﺮ ﮐﮭﻮﻟﺘﯽ ﺗﺘﻠﯽــــ
ﻟﺮﺯﺗﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﯽ , ﭘﻨﮑﮭﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ــــ
ﺗﻮ ﮬﺮ ﭘﺘﯽ ﻧﮑﮭﺮﺗﯽ ﮬﮯــــ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯿﺠﻮ ﮐﮧــــ
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﺧﻮﺷﺒﻮ, ﺑﮑﮭﺮﺗﯽ ﮬﮯــــ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯿﺠﻮــــ
ﮐﮧ
ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺁﺗﺎ ﮬﮯــــ
ﺟﻮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﻩ
ﺁﮬﭧ ﺕﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﯽــــ
ﮐﺴﯽ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ , ﻣﺪﮬﺮ ﭼﭗ ﻣﯿﮟــــ
ﺑﮭﺖ ﺁﺳﻮﺩﮦ ﭘﻠﮑﯿﮟ ﻣﻮﻧﺪﺗﯽ, ﺳﯿﺎﻝ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟــــ
ﮐﺴﯽ ﮨﻠﮑﻮﺭﮮ ﻟﯿﺘﯽ , ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮــــ
ﮐﺴﯽ ﺑﯿﺘــﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯــــ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﺘــﺎﺏ ﺁﺗﺎ ﮬﮯــــ
ﻣﺤــــﺒﺖ ﺍﺱ ﻃــــﺮﺡ ﺑﮭﯿﺠﻮـــــــ
Monday, June 22, 2015
Thursday, June 18, 2015
!شاعری بھی بارش ہے۔
!شاعری بھی بارش ہے۔
جب برسنے لگتی ہے۔۔
سوچ کی زمینوں
کو
رنگ بخش دیتی ہے۔۔
لفظ کو معانی
کے
ڈھنگ بخش دیتی ہے۔۔
نت نئے خیالوں کی
کونپلیں نکلتی ہیں۔۔
اور پھر روانی پر یوں بہار آتی ہے۔۔
جیسے ٹھوس پربت سے
گنگناتی وادی میں
آبشار آتی ہے۔۔
!!شاعری بھی بارش ہے۔۔
اُن دلوں کی دھرتی پر۔۔
غم کی آگ نے جنکو
راکھ میں بدل ڈالا۔۔
زہن و دل کا ہر جذبہ
جیسے خاک کر ڈالا۔۔
ایسی سرزمینوں پر،
بارشیں برسنے سے،
!فرق کچھ نہیں پڑتا۔۔
Tuesday, June 16, 2015
وہ سب باتیں جو
وہ سب باتیں جو تمہارے ہجر میں ہر روز
میں تمہارے وصل کے لئے الگ کر کے رکھتا تھا
تمہاری غیبت کی طولانی سے گھبرا کر
دم توڑنے لگے تھے
کچھ اکڑ گئی تھیں
کچھ پر کائی جم گئی تھی
اور کچھ تو پرندوں کی' کیڑوں کی'
گدھوں کی نظر ہو گئیں
جو باقی بچی تھیں
وہ میں نے خامشی سے
ایک نظم کے حوالے کردئیں
اب میرے پاس تمہارے لئے کوئی لفظ'
کوئی احساس نہیں ہے !
سو میری طرف
یوں
نگاہوں میں سوال بھر کے مت دیکھو
میں بلکل خالی ہوں۔
تم نے آنے میں بہت دیر کر دی!
Monday, June 15, 2015
Saturday, June 13, 2015
مرے چارہ گر
مرے چارہ گر
مرے محتسب
مری بات سن
مجھے صبر دے
مجھے دے سدا
تو یہ حوصلہ
کہ میں سہہ سکوں
جو ہیں غم سبھی
جو ہیں دکھ سبھی
مری ذات کے
مرے لم یزل
مرے راہبر
مری بات سن
تو بلاشبہ،
مجھے آزما
کڑے امتحاں
سے مجھے مٹا
تو اگر سنے،
مری التجا
مجھے بھی دکھا
وہی راستہ
کہ چلوں اگر
تو میں لڑکھڑا کے گروں نہیں
جو میں گرپڑوں
تو اے چارہ گر
مجھے تھام لے
اے اشک رواں میرے
اے اشک رواں میرے
اے اشک رواں میرے
اتنی تو سمجھ کر لے
تیری چاہ ادھوری ہے
اس شخص کے اور میرے
حائل ہے ایک دنیا
اے اشک رواں میرے
توں کیوں نہی سمجھ پایا
اس شخص سے الفت کو
-
اے اشک رواں میرے
اس شخص سے تو میری
بے نام سے قربت ہے
اس شخص سے تو میری
بے نام سی دوری ہے
-
اے اشک رواں میرے
تیری چاہ ادھوری ہے .
-
توں کیوں نہی سمجھ پایا
سائیں کا بھرم تھا توں
میرا تو حرم تھا توں
توں حرم سے نکل آیا
-
اے اشک رواں میرے
تیری چاہ ادھوری ہے
-
اب صبر ضروری ہے
-
اے اشک رواں میرے
اے اشک رواں میرے
Friday, June 12, 2015
یہ جو شام ڈھل رہی ھے
یہ جو شام ڈھل رہی ھے
اسے سہل بھی نہ جانو
یہ ٹھہر گئی جو دل میں
یہی شب ہلاکتوں کی
یہی دو پہر کڑی ھے
.
پس ِگردِ عہدوپیماں
یہ جو ہجر کی گھڑی ھے
یہ فشار ِ جاں کا موسم
یہ جو دل گرفتگی ھے
یہ جو وہم ھے لہو میں
یہ جو سہم آنکھ میں ھے
یہ سناں سی وسوسوں کی
جو خیال مں گڑی ھے
یہ جو اک خلش وفا کی
یہ جو ان کہی کہانی
مرے دل میں رہ گئی ھے
یہ تھکن رہ ِ جنوں کی
جو اتر گئی رگوں میں
یہ تری مری خوشی ھے
یہ چراغ چاہتوں کے
جو ہوا میں جل رہے ہیں
انہیں کب تلک سنبھالیں؟
چلو پھر سے توڑ ڈالیں
وہ تمام عہد و پیماں
کہ میں تجھ میں جی رہی ہوں
کہ تو مجھ میں بس رہا ھے
چلو پھر سے سوچتے ہیں
کہ میں تجھ سے نا شناسا
کہ تو مجھ سے اجنبی ھے
وہ جو رسم ِ دوستی ھے
وہ رہے تو جاں سلامت
نہ رہے تو پھر بھی جاناں
تیرا غم سنبھالنے کو
ابھی زندگی پڑی ھے
Thursday, June 11, 2015
Uski Chahat Ka Bharam Kia Rakhna..??
Uski Chahat Ka Bharam Kia Rakhna..??
Dasht-e-Hijraan Mein Qadam Kia Rakhna..??
Apnay Jaisa Koi Milta Hi Nahe...!!
Aankh Mein Dolat-e-Ghum Kia Rakhna..??
Baat Chup Reh Kar Bhi Hoo Sakti Hay..!!
Paas Qirtaas-o-Qalam Kia Rakhna...??
Aaoo Kashkool Ko Nelaam Karein..!!
Qarz-e-Arbaab-e-Karam Kia Rakhna..??
Fikar-e-Araish-e-Maqtal Mein Rahoo..!!
Mehr-o-Mezaaan-e-Alam Kia Rakhna..??
Uski Yadoon Ko Ghanimat Janoo...!!
Is Ta'luq Ko Toa Kam Kia Rakhna...??
Hans Bhi Lena Kabi Khud Per Mohsin..!!
Har Garhi Aankh Ko Numm Kia Rakhna..??
Tuesday, June 9, 2015
.خود شناسی
خود شناسی کا دعوی کرنا اور خود شناس ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اور اس کا اندازہ مجھے پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والے پے در پے انکشافات کے بعد ہوا۔ ایک عرصے سے میرا خیال تھا کہ میں خاصا مثبت سوچ رکھنے والا انسان ہوں۔ اسی طرح کے کئی ایک بت جو میں نے اپنی ذات کے بارے میں اپنے ذہن میں تراش رکھے تھے۔ ان بتوں کو حالیہ دنوں میں منہ کے بل گرنا پڑا۔ اور مجھے احساس ہوا کہ میں جو دنیا کو جاننے کا دعوے دار بنتا ہوں، چھبیس سال تک اپنے آپ کو ہی اچھی طرح سے نہیں جانتا تھا۔
خود شناسی شاید اس سے بھی ارفع چیز ہے۔ لیکن میں شاید اتنا تو کہہ ہی سکتا ہوں کہ اپنے آپ سے تھوڑی سی واقفیت ہو گئی ہے۔ بڑی بیسک لیول کی واقفیت۔ جیسے دو چار ملاقاتوں میں کسی اجنبی سے آپ ہلکی سی شناسائی پیدا کر لیں۔ تو پچھلے دنوں میں مجھ پر آنے والے کچھ زلزلوں نے بڑے بڑے بت گرا دئیے ، اور اب مطلع صاف ہونے پر جو حقیقت حال سامنے آئی تو اس 'میں' سے اب میری تھوڑی تھوڑی سی شناسائی ہوئی ہے۔ پہلی شناسائی تو یہ ہوئی ہے کہ میں جو اپنے آپ کو جاننے کا زعم رکھتا تھا، اب مجھے یہ پتا چل گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو بالکل بھی نہیں جانتا تھا، شاید اب بھی نہیں جانتا۔ بس کہیں کہیں کچھ دھندلے دھندلے سے نقوش ہیں، کچھ ادھوری ملاقاتوں کے نتائج جن سے اپنے بارے میں نتائج اخذ کیے ہیں۔ کہ شاید یہ بندہ ، جو میرے اندر بیٹھا ہوا ہے، ایسا ہے۔
مجھے کچھ معاملات میں شدید ناکامی کے بعد احساس ہوا کہ میں رسک ٹیکر نہیں ہوں۔ میں اپنے آپ کو محتاط تو سمجھتا تھا، لیکن کئی معاملات میں بزدلی کی حد تک کی احتیاط نے مجھے ٹھوکروں کا منہ دکھایا تو احساس ہوا کہ میں محتاط سے بڑھ کر کچھ چیز ہوں۔ اپنی ذات کا ذرا مزید سخت ہو کر تجزیہ کیا تو احساس ہوا کہ زندگی کے اکثر معاملات میں میرا رویہ ہمیشہ پتلی گلی سے نکل لینے والا ہوتا ہے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میرے سامنے رکاوٹ آ رہی ہے، میں نے نسبتاً آسان راستہ اختیار کر لیا۔ چاہے وہ تعلیمی کیرئیر ہو، یا زندگی کا کوئی اور معاملہ۔ اسی عادت سے منسلک ایک اور عادت معاملات کو لامتناہی طور پر پس پشت ڈالنے کی عادت بھی ہے۔ جس نے مجھے بہت سے برے دن دکھائے، خاص طور پر حالیہ دنوں میں میرے احباب اور میری اپنی ذات نے قدم قدم پر مجھے احساس دلایا کہ میں شدید طور پر ریت میں سر دے کر سب اچھا ہے کی گردان کرنے والا ایک شتر مرغ ہوں۔ میری یہ فرض کرلینے کی عادت کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس کی وجہ سے جو منہ کی کھانا پڑی وہ الگ کہانی ہے۔ تاہم اس شترمرغ والی عادت نے بہت سے معاملات میں میرے لیے راہ ہموار کرنے کی بجائے دشوار اور بعض اوقات بند ہی کر دی۔ انتظار کرنے کی پالیسی شاید ایک حد تک تو ٹھیک ہو، لیکن ہمیشہ انتظار کرتے رہنا آپ کو کہیں بھی نہیں لے کر جاتا، بلکہ آپ وہیں رہ جاتے ہیں اور دنیا آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور میں نے یہ تجربہ کر لیا ہے کہ انتظار لامتناہی ، انتظار لا حاصل ہے۔ کم از کم مجھے یہی تجربہ حاصل ہوا ہے کہ جہاں میں نے سوچا کہ انتظار بہتر رہے گا، وہیں انتظار آخر میں تباہ کن ثابت ہوا، دنیا آگے بڑھ گئی اور میں وہیں کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ کبھی کبھی مجھے اسی لیے اپنا آپ جی ٹی روڈ کے کسی ٹول پلازے پر بیٹھے کلرک کی ذات لگتا ہے۔ جو گاڑیوں کو جاتے دیکھتا رہتا ہے، دیکھتا رہتا ہے، منزل مقصود پر روانہ کرتا رہتا ہے اور خود ساری عمر اسی ٹول پلازے پر گزار دیتا ہے۔ یہی کچھ مجھے بھاری قیمت چکاتے ہوئے اپنے آپ کے بارے میں محسوس ہوا۔ کہ میں بھی فطری طور پر ایک جگہ بیٹھ کر دھوپ سینکنے کا عادی ایک کچھوا ہوں جو خطرے کو دیکھ کر گردن اندر کر لیتا ہے، ورنہ مزے سے دھوپ سینکتا رہتا ہے اور آنے جانے والوں کو تکتا رہتا ہے۔ا ور جب وقت گزر جاتا ہے تو بھاگنے کی کوشش میں اپنا گِٹا نکلوا بیٹھتا ہے۔
ایک اور داستان ختم ہوئی
ہر کہانی کے اختتام پر میرے اندر ایک خالی پن ہوتا ہے، کچھ کھو جانے کا احساس، کسی چیز کی کمی، لیکن میں پھر بھی کہانیوں میں کھونے سے باز نہیں آتا۔ پرانی عادت ہے، اور شاید مرتے دم تک نہ جاسکے۔ پہلی کہانی شاید دیوتا تھی، یا اِنکا، یا خبیث، یا کمانڈو، یاد نہیں پہلی کہانی کونسی تھی جس کو ختم کرنے کے بعد مجھے سینے میں ایک مہیب خلاء کا احساس ہوا تھا، کہ جیسے دنیا ختم ہوگئی ہے۔ کہانی ایک دنیا ہی تو ہوتی ہے۔ جیتے جاگتے کردار، سانس لیتی زندگی ، قہقہے، خوشیاں اور غم۔ کہانی پڑھتے پڑھتے میں کہانی کا حصہ بن جاتا ہوں۔ اور اس کے اختتام پر لگتا ہے جیسے گہرے دوستوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہا ہوں۔ ایک زندگی کا اختتام ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
فینٹیسی، ایڈونچر اور مرچ مصالحے دار کہانیاں پڑھنا میرا شوق ہے۔ اردو میں ایم اے راحت کے سلسلے، محی الدین نواب کی طویل ترین داستان دیوتا اور ستر اسی کی دہائیوں میں پاکستان کے ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والے سلسلے عرصہ ہوا پڑھ کر بھُلا بھی چُکا۔ اب تو ان کے نام بھی ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ حالیہ سالوں میں یہی کام انگریزی میں شروع کرڈالا ہے۔ پہلی بار جس کہانی نے متوجہ کیا وہ ہیری پوٹرتھی۔ 2007 میں آدھی سے زائد کمپیوٹر پر بیٹھ کر پڑھی تھی۔ اس کے اختتام پر بھی ایک خالی پن کا احساس ہوا تھا۔ پھر چل سو چل۔ وہیل آف ٹائم میں ابھی ہیرو کے مرنے کا مزہ چکھنا ہے، دیکھیں کب آتا ہے آخری حصہ۔ کوڈیکس الیرا میں ایک جہان کی تباہی بڑی مشکل سے سہی تھی، جب دنیا بچاتے بچاتے آدھی سے زیادہ دنیا تباہ ہوئی تھی۔ اور اب سٹار ٹریک دی نیکسٹ جنریشن، انگریزی ٹی وی سیریز میں سے مقبول ترین جس کو کئی ایوارڈ بھی ملے۔ سات سال تک دلوں پر راج کرنے والی یہ سیریز میں نے عرصہ دو ماہ سے بھی کم میں دیکھ ڈالی۔ روزانہ دو سے تین اقساط، سات سیزن اور ہر سیزن میں چھپیس اقساط۔ واہ کیا دُنیا تھی۔ زبان کو فِکشن اور فینٹیسی کا چسکا تو لگا ہوا تھا، لیکن سائنس فکشن۔ آہاہاہاہاہا یوں جیسے نشہ دوآتشہ ہوگیا ہو۔ سواد آگیا بادشاہو سٹار ٹریک دیکھ کر۔ لیکن بھوک پھر بھی نہیں مٹی۔ کہانی کا اختتام بڑا خوشگوار ہوا، ہیپی ہیپی دی اینڈ۔ لیکن کیپٹن پیکارڈ، وِل رائیکر، کاؤنسلر ٹرائے، ڈاکٹر بیورلی کرشر، لفٹیننٹ کمانڈر ڈیٹا، لیفٹیننٹ جارڈی لفورج، لفٹیننٹ وہارف۔۔۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور ہنسنے کی عادت ہوگئی تھی پچھلے دو ماہ میں۔ اب جبکہ سب کچھ ختم ہوگیا، پھر سے اپنی دنیا میں واپس آنا پڑے گا۔ ہر کہانی کے بعد میرے ساتھ یہی ہوتا ہے، کئی دن تک یہ خالی پن رہے گا، پھر آہستہ آہستہ خلاء پر ہوجائے گا۔ اور اتنی دیر میں مَیں کوئی اور کہانی ڈھونڈ لوں گا۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں
رہ سکتی ویسے میں کہانیوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
السان الاروی
آج پجن اور کرئیول کی تلاش کرتے کرتے مجھے اروی مل گئی. صبح ہمارا سماجی لسانیات کا ٹیسٹ تھا اور میں یہ دو موضوعات تلاش کررہا تھا. پجن یعنی ایسی زبان جو کئی زبانوں کا مربہ ہو، جیسے اردو تھی شروع شروع میں. کسی کی بھی مادری زبان نہیں لیکن رابطے کے لیے ضروری. پھر پجن جب مادری زبان بن جائے تو کرئیول ہوجاتی ہے جیسے اردو اب ہے. تو اسی دوران مجھے اروی کا پتا چلا. السان الاروی اصل میں عربی اور تامل زبان سے مل کر بنی ہے. جس کا رسم الخط ہند کی دوسری زبانوں کی طرح عربی بھی ہے اور تامل زبان کے رسم الخط میں بھی اسے لکھا جاسکتا ہے. اس کا رسم الخط اردو کی طرح عربی میں اضافے کرکے بنایا گیا ہے اور اس کے تیرہ حروف جو اصل میں آوازیں بھی ہیں اسی زبان سے مخصوص ہیں. یہ زبان جنوبی بھارت اور سری لنکا کے مسلمان بولتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ عرب سے آنے والے تاجر جو جنوبی بھارت کے ساحلوں اور سری لنکا میں آباد ہوگئے تھے ان کی موجودہ نسلیں یہ زبان بولتی ہیں. لیکن اس زبان کو بھی مٹ جانے کا خدشہ ہے. اس کو بہت کم بولا جاتا ہے، بہت کم مدارس ہیں جو اس زبان کی تعلیم دیتے ہیں یا سری لنکا کی روایتی مسلم فیملیاں اسے استعمال کرتی ہیں.
مجھے اسے دیکھ کر عجیب اپنائیت کا احساس ہورہا ہے. جیسے یہ اردو ہی ہو. لیکن اس کی حالت زار اردو سے بہت بدتر ہے. اس زبان کے ادب کو شائع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی بول چال کو رواج دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی. السان الاروی...کتنا میٹھا نام ہےنا اس کے کچھ الفاظ ..ایسا نہیں لگتا اردو ہی ہے؟
بلا، راحت، شفاء، خیر، تعلیم، شیطان، شرک، طیب، اخلاص، جنازہ، موت، شربت، کتاب، بیت، بیاہ،
وہ جو اردو سے نہیں لگتے مگر عربی النسل ہیں شاید
مصیبہ، وللہی، ساہن، دفس،
ان الفاظ کی رومن فہرست اوپر دئیے گئے وکی پیڈیا کے ربط پر رومن میں دیکھی جاسکتی ہے، میں نے کوشش کی ہے اردو کے قریب ترین الفاظ کو لکھ دوں ان کی جگہ. اس کے 13 مخصوص حروف میں سے بہت سی آوازیں اردو کی بھی ہیں جیسے گ کے لیے ک میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے. تفصیلی نقشہ اسی ربط کے سائیڈ بار میں موجود ہے
بارشیں، بجلی اور غذائی اجناس
پچھلے چار پانچ دنوں سے ملک میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میں خوش تھا کہ چلو اب لوڈشیڈنگ سے جان چھوٹے گی۔ والدہ کہنے لگیں یہ بارشیں جو اب ہورہی ہیں جنوری کے آخر یا فروری میں ہونی چاہئیں تھیں۔ ان بارشوں کی وجہ سے ڈیم تو شاید بھر جائیں گے لیکن فصلوں کا ستیاناس ہوجائے گا۔ محکمہ موسمیات کے کے مطابق سندھ میں جاری ان طوفانی بارشوں سے گندم کی فصل بری طرح متاثر ہوگی۔
پچھلے ایک سال سے پاکستان شدید غذائی بحران میں مبتلا ہے اور یہ بحران آئندہ بڑھتا ہی نظر آرہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسی قسم کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ دنیا بڑے غذائی بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں تو پہلے ہی صورت حال بہت خراب ہے۔ آٹے کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ کراچی میں فلور ملوں کا کوٹہ کم کردیا گیا ہے۔ میرے ایک عزیز بتا رہے تھے کہ آٹے کا تھیلا لینے کے لیے سارا دن ذلیل ہوا ہوں پوری کالونی میں کسی بھی دوکان پر آٹا نہیں تھا۔ Karachi میں متوسط طبقے کے لوگ یوٹیلٹی سٹور سے آٹا لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے گھر کے قریب واقع سٹور پر پچھلے کئی ہفتوں سے آٹا نہیں آیا۔
کل رات سے Karachi میں لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔ سات سے آٹھ تک بند رہنے والی بجلی صرف چند منٹ بند رہ کر دوبارہ آگئی۔ آج بھی 9 سے 10 تک کے لیے بجلی بند نہیں ہوئی۔ شاید ڈیموں میں پانی وافر مقدار میں آچکا ہے۔ لیکن اس کی قیمت شاید ہمیں گندم اور دوسری فصلوں کے بحران کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔ اس سال کپاس کی فصل بھی ہدف سے کم حاصل ہوگی۔ گندم کی فصل کو تو دوہرا صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔ جنوری میں پڑنے والی سردی کی شدید لہر نے گندم کے پودے ہی جلا ڈالے۔ کہتے ہیں سردی کا بہترین علاج ہے کہ فصل کو پانی دے دیا جائے۔ اس سے درجہ حرارت معتدل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس وقت پانی کہاں تھا۔ ڈیم تو بیوہ کی مانگ کی طرح خالی تھے۔ اب بارشیں ہورہی ہیں تو گندم کی فصل پھل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسے اس وقت گرمی کی ضرورت ہے لیکن ان بارشوں سے اتنی ٹھنڈ ہوگئی ہے کہ مجبورًا دوہرا کھیس لے کر سونا پڑ رہا ہے پھچلے دو تین دن سے۔ ورنہ کمرے میں سونا ہی محال ہوتا جارہا تھا اس سے پہلے ۔
ملک کی آدھی آبادی اور چورانوے اضلاع خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔ پھچلے ایک سال میں آٹے کی قیمت 28 فیصد اور چاول کی قیمت 48 فیصد بڑھ چکی ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے صرف دس سال پہلے تک میرے نانا اور ماموں کے گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں چاول کثرت سے کاشت کیا جاتا تھا۔ میں سانگلہ ہل کے علاقے کی بات کررہا ہوں جو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے شیخوپورہ سے کچھ ادھر واقع ہے جنکشن ہے اور اچھا خاصا شہر بن چکا ہے۔ لیکن اب پانی کی کمی کی وجہ سے چونا (چاول کی فصل چُونا نہیں چونا پیش کے بغیر) کاشت کرنا موقوف کردیا گیا ہے۔ بہت کم جگہ سے چاول کی سوندھی خوشبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔
آنے والا وقت نہ جانے ہم پر کیسی آزمائشیں لارہا ہے۔ لیکن اس کا دیباچہ ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان، چین، افغانستان، بھارت، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک ہمالیہ کے گلئیشیرز سے نکلنے والے دریاؤں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ عالمی موسمی تبدیلیوں نے ان کے پگھلنے کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ ایک طرف جہاں بنگلہ دیش جیسے علاقے سطح سمندر بلند ہونے سے ڈوب جائیں گے وہاں پاکستان جیسے علاقے پانی نہ ہونے کی وجہ سے شدید غذائی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ دنیا کے قریبًا تین ارب افراد ان ممالک میں رہتے ہیں۔ ہمالیہ کی جھیلیں جو گلیشئیرز کے پگھلنے سے وجود میں آتی ہیں اپنی گنجائش سے زیادہ بھر رہی ہیں اور آئندہ پانچ سے دس برس میں یہ اپنے کناروں سے چھلک کر کروڑوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیں گی۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوجائیں گی اور شدید سیلابوں سے ایک وسیع علاقہ زیر آب آکر تباہ ہوجائے گا۔ جس حساب سے یہ گلیشئیر پگھل رہے ہیں لگتا ہے ہمالیہ کا دامن ان سے خالی ہوجائے گا۔ پھر بارشیں ہوا کریں گی اور سیلاب کی صورت میں سمندروں کی نذر ہوجایا کریں گی۔
پاکستان کو اپنے پانی کے ذخائر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے پلے ککھ نہیں رہے گا اور پاکستان سے زندہ بھاگ جیسے نعرے سچ ثابت ہوجائیں گے۔ اس وقت ڈیموں کی تعمیر جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے زیریں علاقوں کے رہنے والوں کو اعتراض ہے کہ پانی روکنے سے ڈیلٹا کا علاقہ تباہ ہورہا ہے۔ اوپر والے یہ شور مچاتے ہیں کہ اتنا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وسیع مذاکرے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ڈیم ضرور بننے چاہیئں چاہے ان سے نہریں نہ نکلیں بلکہ پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے تو کچھ برا نہیں۔ پاکستان میں ابھی سے نظر آرہا ہے کہ پانی ایک مخصوص وقت میں وافر مقدار میں ہوتا ہے اس کے بعد کوئی چار ماہ ہمیں ہاتھ ملنا پڑتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پچھلے دس سال میں کبھی ڈیم اس طرح خالی ہونے کے بارے میں سنا ہو۔ تربیلا اور منگلا کی گنجائش تیزی سے کم ہورہی ہے۔ گار اور مٹی نے ان کی جھیلوں کی گنجائش بہت کم کردی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچا کرتا ہوں اگر ان کی بھل صفائی ہی کردی جائے تو بہت سی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ خالی ہی تو نہیں ہوجاتے۔ ڈیڈ لیول تلے پانی ہوتا تو ہے جو کہ اچھا خاصا ہوتا ہے۔ تاہم ان کی صفائی کرنا ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کا کوئی طریقہ نکل آئے تو ہم شاید آئندہ بحرانوں کو کچھ وقت کے لیے ٹال سکیں۔
وقت بہت تیزی سے ہمارے خلاف ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم نے اس کے ساتھ چلنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کاش یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے۔ کاش ہم کچھ کرلیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے