Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Pages

Wednesday, May 30, 2018

میں نے تمہیں طلاق دی.

 

 

آج کل طلاق کے اعدادوشمار اس قدر بڑھ گے ہیں جو پچھلے کئی سالوں میں اس طرح نہیں تھے.

"میرا گھر کہاں ہے؟ "

سمیرا کا دن پھر سسرال والوں سے لعنت ملامت سنتے گزرا تھا. اس کی ساس نندیں اٹھتے بیٹھتے اس کو جتاتیں. بہو یہ تمھارا اور تمہارے ابا کا گھر نہیں ہے. جہاں تم جو چاہو گئی کرو گی.

آج تو معمولی سی بات پر سب نے ایسا بتنگڑ بنایا کہ اس کے ہزار بار معذرت کے باوجود اس کی ساس نندوں کے مزاج درست نہ ہوئے. جیسے جیسے عقیل کے گھر آنے کا وقت ہورہا تھا سمیرا کا دل بیٹھا جارہا تھا ابھی عقیل نے گھر میں قدم ہی رکھا تھا. سمیرا کی ساس نندوں نے ایسا طوفان برپا کیا کہ عقیل اس پر چیل کی طرح جھپٹ پڑا. اس نے سمیرا کی بات سننے کی بھی زحمت نہیں کی. اس کے بال پکڑ کر اس پر تاڑ تاڑ تھپڑوں کی بارش کردی. آج اس کا غضب ہی علیحدہ تھا .جب وہ مار مار کر تھک گیا تو اس نے کہا :

میں نے تمہیں طلاق دی.

میں نے تمہیں طلاق دی.

میں نے تمہیں طلاق دی.

سمیرا لپک کر اس کے پیروں میں گری مگر اس کی دنیا لٹ چکی تھی.

اس کی نند نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو دروازے سے باہر نکال دیا. یوں جس گھر میں وہ چھ ماه پہلے شادیانوں کے ساتھ عروسی لباس میں ملبوس، زیورات سے لدی ہوئی آئی تھی.آج اس گھر سے اس کو خالی ہاتھ، طلاق کا داغ دے کر؛ دھکے مار کر نکال دیا گیا تھا. اس کے کان میں اپنی ماں کی آواز گونجی :

"بیٹا ! اپنے گھر جا کر سارے اپنے چاه پورے کرنا. کنواری لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھر ایسے چاو پورے نہیں

کرسکتیں ."

وه اپنے زخمی بدن اور روح کو گھسیٹتی کیسے اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی وه اس سے بالکل ناواقف تھی. جب اس کو ہوش آیا تو اس کے ماں باپ، بہن بھائی ایسے رو رہے تھے جیسے کوئی مر گیا ہو.اس نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کو بتائے کہ وہ ابھی زندہ ہے.

اگلے دن سے اس کے گھر افسوس کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا. وه بظاہر افسوس کرنے آتے مگر اس کے زخم زدہ جسم اور چہرے کو دیکھ کر عورتیں معنی خیز انداز میں مسکراتیں. اس کو اپنی بدکردار ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑا .کوئی اس کی بات ماننے پر آمادہ نہ تھا کہ ایک سالن میں نمک تیز ہونے پر اس کی زندگی میں یہ زہر گھول دیا گیا ہے. کوئی اس بات کو سننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ عقیل کی ماں بہنوں نے اسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلاق دلوا کر گھر سے نکالا ہے.اس کی ماں کو اس سے ہمدردی تھی مگر اس کے ابا کو تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ اس کو جانتا ہی نہ ہو.بھائیوں اور بھابیوں کے تیور خراب تھے. بہنیں اس سے ہمدردی کرتیں تو ان کو بھی جھاڑ پڑتی. ایسا لگتا تھا جیسے اس کو کوڑھ ہوگیا ہو.اس کا بابل کا گھر پرایا ہوگیا تھا. ہر نظر میں اس کے لیے شک تھا. آج ناعمہ کے سسرال والے آئے اور بغیر کسی وجہ کے انگوٹھی واپس کرکے رشتہ توڑ دیا.

آج زندگی میں پہلی بار اماں نے اس کو مارا اور بار بار کہا؛

تو مر ہی کیوں نہ گئی اپنے گھر میں"

سمیرا ایک دم سے چلائی :

اماں! میرا گھر اس دنیا میں کہاں ہے؟

یہ گھر میرے ابا اور بھائیوں کا ہے وہ گھر عقیل اور اس کی ماں بہنوں کا تھا. میرا گھر کونسا ہے اماں؟

اماں کے ہاتھ رک گئے. باہر سے آتے ابا اور بھائی بھی شرمندگی سے بغلیں جھانک رہے تھے۔

 

Tuesday, May 29, 2018

خاندانی سوٹ

 

 

اس دفعہ میں نے عید پر بڑا ہی "خاندانی" سوٹ لیا ہے..میری بہن کہتی ہے زہر لگتی ہو مجهے جب ہر دوکان میں جا کر کہتی ہو بهائی ذرا خاندانی سا سوٹ دکهانا ..

بهلا یہ خاندانی سوٹ کیسا ہوتا ہے؟

میں کہتی ہوں خاندانی سوٹ وہ ہوتا ہے جس میں بندہ خاندانی لگے.. جو عمر کی مناسبت سے ہو...جس پر آجکل کے فیشن کے مطابق گهوڑے گاڑیاں یا رکشے نا بنے ہوں.. جس کا کچا تیز رنگ نا ہو... جس کا پرنٹ بیڈ شیٹ کی طرح نا ہو...نا ہی اتنے چهوٹے پهول ہوں کہ جوئیں لگیں..جس میں بندہ ڈیسنٹ اور امیر لگے.. اور پهر اگر اس کو خاندانی سا سلواؤ تو مزہ ہی اور ہے... اب بهلا خاندانی سلائی کیسی ہوتی ہے؟ کہ جس میں آپ کا جسم ڈهک جائے اور فیشن بهی پورا ہو.. کہ آپ دور سے ہی باوقار نظر آئیں.. یقین مانیں بڑی بری لگتی ہیں لڑکیاں یہ چهوٹی آستینوں اور تنگ پاجاموں میں.. ٹهیک ہے پاجامہ اچها لگتا ہے لیکن ساته میں چهوٹی قمیض....خاندانی نہیں لگتی...

اور حیرت ہوتی ہے ان لڑکیوں پر جو دوپٹہ نہیں لیتیں..میں کردار پر بات نہیں کر رہی بہت بہت اچهی لڑکیاں بهی دوپٹہ نہیں لیتیں مگر دل کا اور دوپٹے کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیئے... اکثر لڑکیاں جواب میں کہتی ہیں میری ڈریسنگ پر نا جائیں ہو سکتا ہے میرا تعلق اللہ سے تمہارے مقابلے زیادہ پختہ ہو.. اب دل کی اچهائی کا دوپٹے سے کیا تعلق...یعنی آپ بہت اچهے ہو آپ کا دل صاف ہے تو آپ کپڑے اتار دو... اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو واللہ اللہ خود کہتا کہ جو اچهی لڑکیاں ہیں جن کا میرے ساته تعلق زیادہ اچها ہے جو میرے زیادہ قریب ہے وہ بے شک کپڑے ہی نا پہنے... جب آپ اللہ کا عورت کیلیئے سب سے اہم حکم نہیں مانیں گے تو کہاں کا اچها تعلق ؟کہاں کا قرب؟...ہاں کوئی فرشتہ نہیں ہے سب سے گناہ ہوتے ہیں لیکن کم از کم اپنا جسم ڈهکنا تو ہمارے اختیار میں ہے نا...

ماؤں کو چاہیئے بہت بچپن سے ہی بچیوں کو وہ کپڑے نا پہنائیں جو ان کے بالغ ہونے پر ان کیلیئے مکروہ ہو..

بڑے ہونے پر بهی ان کو وہی عادت ہوتی ہے نا دوپٹہ لیتیں ہیں نا باحیا کپڑے پہنتی ہیں.. تو ایسے میں دنیا والوں کی زبانوں کو اور آپ کی طرف اٹهتی نظروں کو کون روک سکتا ہے؟

خاندانی کپڑا لیں اور پهر خاندانی سلوائیں...تاکہ آپ خاندانی لگیں!!

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ـــ؟؟

 

 

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ـــ؟؟

ﻃﻨﺰ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﮯ ﻃﻨﺰ ﮐﮯ ﻧﺸﺘﺮ ﭼﻼﺋﯿﮟ ﺍﻧﮑﻮ ﭼﮭﻠﻨﯽ ﭼﮭﻠﻨﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ـــ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ "ﺑﺘﺎﺅ ﮐﺘﻨﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ـــ؟

ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﮯﺭﺣﻤﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﺩﻝ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮑﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺴﻞ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﮟ! ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﺭﮒ ﺭﮒ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﺎـــ؟

ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻏﻠﻂ ﺭﺥ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺴﮑﺎﺋﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﮍﭘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﮨﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔۔۔ ﻣﻨﺎﻓﻘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭨﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺮ ﻋﺎﻡ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺳﻨﮕﺴﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺟﻮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﻃﻌﻨﮧ ﺩﯾﮟ ﺍﻧﮑﻮ ﺟﺎﮨﻞ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ـــ، ﺟﺘﻨﯽ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ـــ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﺎ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔!!!

ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﭼﭗ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﮨﻞ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺴﮑﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻻﺝ ﺭﮐﮫ ﻟﻮ ـــ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ـــ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـــ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﺳﺴﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ـــ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ـــ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺿﻤﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮭﯽ ـــ ﺩﻡ ﺳﺎﺩﮬﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ــ ﮐﮧ ﮐﺐ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮ ـــ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺟﺎﮔﯿﮟ ـــ ﺧﺪﺍﺭﺍ ــــ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﯾﺴﺎ ـــ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ـــ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﺮﺳﭩﺮﯾﺸﻨﺰ ﮐﻮ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻟﯿﮟ ـــ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ـــ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ـــ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﯿﮟ ـــ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ـــ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ـــ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﮟ۔۔!!!

 

 

تھکن تو ہوگی ہی

 

👈"تھکن تو ہوگی ہی۔۔

جب تم اْسے قبول نہیں کرو گے جس کا رخ تمھاری طرف ہے

اور بھاگ اس کی طرف رہے ہو جس کی پشت تمھاری طرف ہے۔۔۔

تھکن تو ہوگی ہی۔۔

یاد رکھو جو تمھاری طرف آتا ہے وہ بھیجا گیا ہے

اور جو تم سے دور جائے وہ تم سے ہٹایا گیا ہے

بس تم اس کو قبول نہیں کر پاتے۔۔۔

 

 

 

ہاں یہ تو سچ ہے


ہاں یہ تو سچ ہے میں محبت کو جس خوب صورتی سے کاغذ پہ رقم کرنے میں ماہر ہوں اتنی ہی بدصورتی سے میں اسے کرنے میں ان پڑھ ہوں 
مجھے محبت کرنا نہیں آتی 
میں محبت کے آداب سے واقف ہی نہیں ہوں 
مجھے نہیں پتہ جب کسی کے سر میں درد ہو تو اس کے ماتھے پر لبوں کو دھر کے اس کا دھیان درد سے کیسے ہٹایا جاتا ہے
میں نہیں جانتی جب غصے میں کوئی آپ پر چیخ چِلا رہا ہو تو دھیرے دھیرے چل کے اس کے قریب جاتے ہی اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ دھر کہ یہ کیسے کہا جاتا ہے کہ 
اچھا نہ ہوگئی غلطی اب ایسے ڈانٹیں گے تو میں رو بھی جاتی ہوں پھر-
مجھے نہیں خبر کے جب کوئی تھکا ہارا گھر کو لوٹتا ہے تو کیسے اس کے گلے لگ کر اس کے سینے پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر سکون بخشا جاتا ہے
مجھے اندازہ ہی نہیں کہ خاموشی سے کسی کو اپنی جھوٹی چائے پلا دینے
سے کیسا لطف آتا ہے 
مجھے ادراک ہی نہیں صبح کو گیلے بالوں سے ٹپکتا پانی کسی پر پھینک کر کیسے نیند سے جگایا جاتا ہے 
مجھے پتہ ہی نہیں ...محبت کیا ہے محبت کا ہونا کیا ہے ...مگر مجھے تم سے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی تو 
تو میں تمھیں تمھارا اپنا آپ بھلوا دوں گی 
تمھاری آنکھوں کی چمک سے لے کر تمھارے ہونٹوں کی مسکراہٹ تک سےمیں چھلکنے لگوں گی 
تمھارے سگریٹ کے دھوئیں میں صرف اور صرف میرا عکس ہوگا 
میں تمھاری سنسان راتوں میں روشنی بکھیر دوں گی
تمھارے اداس دنوں کو قوسِ قزاح کے ست رنگوں سے سجادوں گی 
خزاں کے موسم میں تمھارے لیے بہار کو کھینچ لاؤں گی 
تمھارے سارے وجود پر صرف اپنے نام کا ورد جاری کردوں گی تمھیں پور پور محبت میں ڈُوبو کر خود بھی مجسم محبت بنی رقص کرنے لگوں گی مگر تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی تو اور اگر مجھے تم سے محبت ہوگئی تو ؟



مجھے نفرت ہے اپنے حساس ہونے سے۔


مجھے نفرت ہے اپنے حساس ہونے سے۔۔۔مجھے نفرت ہے لوگ مجھ سے باتیں کریں اور میرا خیال رکھیں یہاں تک کے مجھے ان کی عادت ہو جائے۔۔۔مجھے نفرت ہے کے میں کسی کے بارے میں زیادہ سوچوں یہاں تک کے میں پوری رات کسی کے خیال میں گزار دوں۔۔۔مجھے نفرت ہے اس احساس سے کہ میں محسوس کروں کے کوئی مجھے اپنی عادت ڈال کر مجھے نظر انداز کر رہا ہے۔۔۔
مجھے نفرت ہے۔


ایسا نہیں کہ میں نے آپ نے اور بہت سے لوگ



ایسا نہیں کہ میں نے آپ نے اور بہت سے لوگ جو یہاں ہیں انہوں نے زندگی میں کچھ پایا نہیں جو انہیں ایسی اداس کر دینے والی شاعری پسند ہے ہم,اپنی زندگی میں بظاہر عام سے لوگ ہیں سب کی طرح ہنستے مسکراتے , زندگی_جیتے , رشتے_نبھاتے پر یہاں جو کچھ لکھتے ہیں وہ سب ہمارے اندر موجود احساسات اور ادھوری رہ جانے والی خواہشات کا ملال ہوتا ہے کیونکہ ظاہری طور پر انسان سمجھوتہ کرلیتا ہےلیکن اسکے اندر کا انسان ایک بچے کی طرح عمر بھر روٹھا ہی رہتا ہے



انسان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟


انسان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟
کسی نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا "چاہے جانا
لیکن کتنی عجیب بات ہے نا کہ جب کوئی شخص ہمیں ٹوٹ کر چاہتا ہے تو ہم اسکی چاہت کو ہر موڑ پر آزماتے ہیں۔ جتنی بلند وہ چاہت ہوتی جاتی ہے، اتنا ہی بلند ہم اپنا معیار کر لیتے ہیں۔ اور جیسے ہی وہ ہمارے معیار تک پہنچتے ہیں، ہم اپنا معیار ہی بدل لیتے ہیں۔
کیا سچ میں انسان کی سب سے بڑی خواہش
"چاہے جانا" ہی ہے؟
دراصل اس چاہے جانے کے خیال سے زیادہ مزہ ہمیں اس شخص کی خامیاں نکالنے میں اور کئی بار اسکو آزمانے میں آتا ہے۔
مرمتیں کر کے روز تھکتا ہوں،
روز میرے اندر نیا نقص نکل آتا ہے



پتا نہیں لوگوں کے لئے اذیت اور سکون کیا ہے۔


پتا نہیں لوگوں کے لئے اذیت اور سکون کیا ہے۔۔لیکن میرے لئے اذیت صرف " وہ " ہے۔۔اور میرے لئے سکون بھی صرف "وہ" ہے ۔۔۔ جب وہ سامنے آتا ہے تو میرا دل کرتا ہے اس کے چہرے پر تیزاب ڈال کر اسکا چہرہ بگاڑ دوں۔۔لیکن اگر میں ایک دن بھی اسے نہ دیکھوں تو میں اندھی ہو جاتی ہوں ۔۔ جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو میرا بس نہیں چلتا کہ میں کہیں سات زمینوں کی گہرائیوں میں خود کو دفن کر لوں۔۔لیکن جب وہ میرے سامنے سے مجھے دیکھے بنا گزر جاتا تو میرا دل کرتا میں خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لوں خود کو ۔۔ جب وہ ہنستا ہے تو میرا دل چاہتا ہے اسکی ہنستی آنکھوں کو بنجر کر دوں۔۔لیکن جب وہ اداس سا بیٹھا ہوتا ہے تو میرا من کرتا پوری دنیا کی خوشیاں اس کے قدموں میں ڈھیر کر دوں۔۔ وہ مجھے تڑپتی، بلکتی کو چھوڑ کر چلا گیا ۔۔اور میرا دل کیا کہ اس کے قدموں کے نشان مٹا دوں ۔۔۔لیکن میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھ لی۔۔میں جانتی ہوں میں مر رہی ہوں ۔۔لیکن ہر بار اس کے سامنے آنے پر میں نئی زندگی جی جاتی ۔کیا کوئی سچ میں میری اذیت کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ۔۔میں اس انسان سے نفرت کرتی ہوں۔۔جس کا عشق میری جان لے رہا ہے۔۔



ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺎﮎ ﺁﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺠﺮ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺧﻂ


ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺎﮎ ﺁﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺠﺮ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺧﻂ

ﺧﯿﺎﺑﺎﻥِ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﻻﮨﻮﺭ، ﭘﻨﺠﺎﺏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ

ﮐﯿﺴﯽ ﮨﻮ ﻣﺎﺋﺮﮦ؟ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﯽ، ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﺎﺋﺮﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺧﺮﯼ ﺧﻂ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺯﯾﺪ ﺑﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ۔ ﮐﻞ ﺯﯾﺪ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﭘﺎﯾﺎ، ﮐﯿﺴﮯ ﺁﺗﺎ؟ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ 20 ﮐﺮﻭﮌ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺯﯾﺪ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﺳﭩﮉﯼ ﮐﮯ ﮐﯿﺒﻨﭧ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﺭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺒﺰ ﺭﻧﮓ ﮎ ﻟﻔﺎﻓﮧ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺯﯾﺪ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﮐﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺧﻂ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺁﻧﺴﻮ ﮔﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ، ﺁﺧﺮ ﺗﻢ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ؟ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﺯﯾﺪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻧﺎ ﺑﻨﺎﻧﺎ، I Want My Son To Be A Brave Just Like Me ، ﺯﯾﺪ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﺍﺳﮑﺎ ﻣﺎﺗﮭﺎ ، ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ، ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺎ ، ﺍﺏ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮩﮧ ﮨﯽ ﺩﻭﮞ۔ﻣﺎﺋﺮﮦ ﯾﮧ ﺟﻨﮓ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮐﺜﺮ ﺗﻮ ﺩﺱ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﭘﮩﻠﯽ ﮔﻮﻟﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﻟﯽ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ، ﺳﺐ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﺧﺮ ﯾﮧ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﯿﺎﺭﺍ۔
ﭘﺮﺳﻮﮞ ﻗﻮﻣﯽ ﺗﺮﺍﻧﮯ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ﺳﺎﺭﺍ ﻏﺼﮧ ﭘﮕﮭﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﻢ ﻧﺼﺐ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﻧﻘﺼﺎﻧﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻓﻮﺟﯽ ﮐﺎ ﻓﺮﺽ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﻦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﯿﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺴﻮﻝ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﺩﮬﻤﺎﮐﮧ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﻢ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻦ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﺐ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺋﺮﮦ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﭽﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺝ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺟﻮﺍﺋﻦ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﭘﺎﮎ ﻭﻃﻦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﺬﺭﺍﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﻮﮞ۔ﻣﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﺋﺮﮦ، ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺪ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﺎﭖ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺧﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﻥ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺯﯾﺪ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﺋﺮﮦ، ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﺎﻟﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ، ﺁﺝ ﻣﺮﺗﮯ ﻣﺮﺗﮯ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮ ﺑﮭﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﻣﺎﺋﺮﮦ، ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻧﺸﮧ ﮨﮯ ، ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﻧﺸﮧ، ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺸﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺸﮯ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﻣﻨﺎﻧﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ ﮐﺮ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﻭﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﻓﺨﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺎﺋﺮﮦ ﺟﺬﺑﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﮮ۔ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺳﺒﺰ 
ﮨﻼﻟﯽ ﭘﺮﭼﻢ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭧ ﮐﺮ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ، ﻣﯿﮟ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ
Ramp Ceremony  ﺍﭘﻨﯽ 
  ﭘﺮ، ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮧ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﯽ ﺭﻭﻧﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﻼﻣﯽ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﻥ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺏ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﮧ ﺗﻢ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ … ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ! ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺪ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺯﯾﺪ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭨﺎﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺪ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ، ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﯿﺠﺮ ، ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺭﺟﻤﻨﭧ
 4th  B


وہ اب میری زندگی میں نہیں ہے


وہ اب میری زندگی میں نہیں ہے، اور میں نے اُسے اپنی زندگی پر اثرانداز ہونے سے بھی قابو پا لیا ہے مگر وہ ابھی بھی میرے لاشعور میں باقی ہے، شاید میری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے،
102 جیسے تیز بُخار میں جہاں اپنی ہوش نہیں ہوتی انسان کو، میں نے غُنودگی میں اُسے اپنےپاس بیٹھے ہوئے پایا، جیسے وہ دیکھ رہا ہو مجھے۔ اُس تیز بخار کی تکلیف میں ہونے والے اُس سکوں کو شاید میں کبھی الفاظ میں بیاں نہیں کرسکتی



Friday, May 25, 2018

ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺪ ﮨﻮ



ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺪ ﮨﻮ 
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﺳﮩﻨﺎ
ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮ ﮐﮧ 
ﻏﻢ ﺳﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ
ﮐﮧ ﺳﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ
ﻧﮧ ﺟﻨﺒﺶ ﺍﺑﺮﻭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﮧ ﺑﻞ ﺁﺋﮯ
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﺍﻋﺼﺎﺏ ﭘﮧ ﻃﺎﺭﯼ ﺗﮭﮑﻦ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ' ﺁﮦ ' ﻧﮧ ﻧﮑﻠﮯ
ﻧﮧ ﺩﻝ ﮈﻭﺑﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﻧﻤﯽ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺍﺗﺮﮮ
ﻟﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﻧﻤﯽ ﮐﻮ ﭘﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﭼﺒﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﻦ ﻣﯿﮟ
ﺧﺎﻣﺸﯽ ﺳﮯ ﺟﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺪ ﮨﻮ


مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں



مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چاہییں
پوچھتی ہیں آپ، آپ اچھے تو ہیں؟
جی میں اچھا ہوں، دعائیں چاہییں


Wednesday, May 23, 2018

ہر کسی کی اپنی قیامت ہوتی ہے


ہر کسی کی اپنی قیامت ہوتی ہے
جب گھاس کے تنکے پر بارش کی بوند گرتی ہے
تو تنکے پر بیٹھی ہوئی چیونٹی یہ سمجھتی ہوگی کہ کائنات فناء ہونے لگی ہے



ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم


ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے



یہ آنے والے زمانوں کے کام آئیں گے



یہ آنے والے زمانوں کے کام آئیں گے 
کہیں چھپا کے میرے تجربات رکھ دینا


تدفین میرے جسم کی ہو جاۓ گی، لیکن


تدفین میرے جسم کی ہو جاۓ گی، لیکن
تم! کیسے میرے خواب، اُتارو گے لحد میں ؟

تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے


تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے.





عشق کی ٹیسیں ، جو مضرابِ رگِ جاں ھو گئیں



عشق کی ٹیسیں ، جو مضرابِ رگِ جاں ھو گئیں
رُوح کی مدھوش بیداری کا ساماں ھو گئیں

پیار کی میٹھی نظر سے ، تُو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی ، لطفِ ساماں ھو گئیں

اب لبِ رنگیں پہ نوریں مسکراھٹ ؟ کیا کہوں
بجلیاں گویا ، شفق زاروں میں رقصاں ھو گئیں

ماجرائے شوق کی بے باکیاں ان پر نثار
ھائے وہ آنکھیں ، جو ضبطِ غم میں گریاں ھو گئیں

چھا گئیں دشواریوں پر , میری سہل انگاریاں
مشکلوں کا اِک خیال آیا , کہ آساں ھو گئیں



ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﮞ،


ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﮞ، ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺮ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ، ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ؟؟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﭘﮭﯿﻼﻧﯽ ﮨﯿﮟ، ﻧﻔﺮﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﮭﯿﻞ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ 


Monday, May 21, 2018

کبھی تم نے وہ کوئلہ دیکھا ہے


کبھی تم نے وہ کوئلہ دیکھا ہے جو بظاہر تو بجھ گیا ہو ، لیکن اس کے اندر ایک چنگاری سلگتی ہو ۔اس کوئلے کے اوپر سفید راکھ کا غلاف چڑھ جاتا ہے ، ایسا ہی ایک غلاف میرے احساسات پر چڑھ گیا ہے ، راکھ جیسا غلاف اور ایسی ہی ایک چنگاری میرے اندر دہکتی ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔جس کی تپش ایک میری رگِ جاں کے سوائے کسی تک نہیں پہنچتی۔جو سلگتی ہے ، بجھتی ہے ، پھر سلگتی ہے ، جیسے کوئی اسے اپنے آنچل سے ہوا دیتا ہو۔ جیسے کوئی اسے بھڑکنے اور بھڑکتے رہنے پر مجبور کرتا ہو۔ سنو ! یا تو میں ایسا بھڑکوں گی کہ ہر شے کو جلا کر راکھ کر ڈالوں گی یا ایسا بجھوں گی کہ میرا پورا وجود سفید راکھ میں تبدیل ہو جائے گا


میری آرزو محمدؐ… میری جستجو مدینہ


🌸💚🌸میری آرزو محمدؐ… میری جستجو مدینہ
میں گدائے مصطفٰی ہوں… میری عظمتیں نہ پوچھو
مجھے دیکھ کر جہنم کو بھی آگیا پسینہ

مجھے دشمنو نہ چھیڑو… میرا ہے کوئی جہاں میں
میں ابھی پکار لوں گا… نہیں دور ہے مدینہ

سوا اِس کے میرے دل میں… کوئی آرزو نہیں ہے
مجھے موت بھی جو آئے تو ہو سامنے مدینہ

میرے ڈوبنے میں باقی… نہ کوئی کسر رہی تھی
کہا المدد محمدؐ تو ابھر گیا سفینہ

میں مریض مصطفٰی ہوں مجھے چھیڑو نہ طبیبو
میری زندگی جو چاہو مجھے لے چلو مدینہ

کبھی اے شکیل دل سے نہ مٹے خیال احمد
🌸💚🌸 اسی آرزو میں مرنا… اسی آرزو میں جینا

میں صدقے یا رسُول اللہ ۔
❤ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔



انا پرست ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔۔

 

 

انا پرست ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔۔

خود پر کنٹرل رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ دل چیخ چیخ کر کچھ مانگ رہا ہوتا اور آپ کو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کروانا پڑتا ہے۔۔۔ دل ودماغ میں چھڑی سرد جنگ سے لڑنا پڑتا ہے ۔۔۔ برداشت کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ صبر لازم ہو جاتا ہے ۔۔۔ میرا یقین کیجئے۔۔۔ انا پرست ہونا بہت تکلیف دہ

ہے۔

Friday, May 18, 2018

میں نے دھیمی سسکیوں میں سجدوں کے دوران

 

 

میں نے دھیمی سسکیوں میں سجدوں کے دوران آنسووں کی آغوش میں بار ہا بار عزت نفس کی قبریں کھود کر اپنی خواہشات اور خلوص کو وہاں دفنایا ہے اور تدفین سے فارغ ہو کر مسکراتے ہوئے الحمدللہ کہا ہے۔

 

 

 

قرآن نے مجھ سکھایا


قرآن نے مجھ سکھایا 
"اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے پھر کیسے وہ بے خبر ہو سکتا ہے تمھارے حال سے تمھاری آنکھ کے آنسو سے بلکہ کیسے وہ بے خبر ہوسکتا ہے تمھارے ان سجدوں سے جو رات کے اندھیروں میں تم اس سے سرگوشیاں کرتے ہو   اور وہ تمہیں سنتا ہے 



رمضان المبارک عبادت کی چین


#رمضان_ایکٹیوٹی 🌸🍃 #رمضان المبارک عبادت کی چین  😍 
مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہوتی ہے جب آپ سب ساتھ بنائے رکھتے ہیں 🍃 اور ڈے ون سے ہی ایسا ہے مجھے امید ہے کہ ہمارا رمضان خالص اللہ کریم کی عبادت کے لئے رہے گا اور ہم سب کوشش کریں گے کہ ہم سب دگنا اجر و ثواب پائیں اسی حوالے سے آپ سب سے امید ہے کہ اس قدم میں بھی ساتھ رہیں گے اور اس میں برکت ڈالنا رب کریم کے ہاتھ ہے میرا مقصد ہمارا وقت برباد کرنا نہیں ہے جو بھی اس چین کا حصہ بننا چاہے خوش آمدید 

🌸


اَلسَّلاَمْ عَلَيْــكُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُهُ احباب!🌸


اَلسَّلاَمْ عَلَيْــكُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُهُ احباب!🌸 
رمضان نیکیاں سمیٹنے کا مہینہ ہے، تزکیہ نفس کا مہینہ ہے، روح کی صفائی ہو جاتی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ عزو جل نے ہمیں یہ ماہ مبارک نصیب کیا۔ مگر کل سے اب تک اتنی ایسی پوسٹس اور سٹیٹس نظر سے گزرے جس میں روزے جیسی عظیم عبادت کی تضحیک محسوس ہوتی۔ چند لایکس یا کمنٹس کے لیے پوسٹ کرتے ہوئے سوچیں ضرور کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ جیسے ہر بات کو سیریس نہیں لیا جاتا ویسے ہی ہر بات پر مراثی ازم کا ثبوت بھی لازم نہیں۔ عزت والے مہینے کی عزت کریں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔



Thursday, May 17, 2018

تمہیں پتا ہے تمہار مسلئہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟

 

 

تمہیں پتا ہے تمہار مسلئہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟

تم نے اپنے فیصلے اللہ پہ چھوڑ تو دیئے ہیں مگر۔۔۔ دل سے نہیں چھوڑے۔۔۔ تم اب بھی چاہتے ہو کہ کاش فیصلہ وہی ہوئے جو تمہاری خواہش ہے۔۔۔یہ کیسا اعتبار ہے بھلا؟؟ سمندر کے بیچ کھڑے شخص کو اس بات سے کیا غرض کشتی آر لگے گی یا پار، اسے تو بس یہ یقین ہونا چاہیے۔۔۔ میں ڈوب بھی گیا تو یہ میرے لیئے آر یا پار جانے سے بہتر ہوگا۔۔۔ یہی تو اعتبار کا امتحان ہے۔۔۔ اللہ جتنی محبت اپنے بندے سے کرتا ہے۔۔۔ وہ آپکے گمان سے بھی آگے ہے۔۔۔ہم صرف وہ دیکھتے ہیں جو ظاہری خوبصورت ہے۔۔۔جبکہ اللہ یہ بھی جانتا ہے۔۔۔ آپ کے لیئے کیا خوبصورت ہے۔۔۔یقین کرو۔۔۔ جس دن اس اعتبار پہ فیصلہ اللہ پہ چھوڑو گے کہ جو بھی ہوا میرے لیئے وہی بہترین ہوگا۔۔۔ اس دن نہ صرف آپ بےچینی سے نکل آئیں گے۔۔۔بلکہ فیصلہ آپ کے یقین سے ذیادہ بہترین ہوگا۔۔۔کیونکہ اللہ ساری دنیا اور لوگوں کے دلوں سمیت انکی سوچ کے رخ تک بدلنے پہ قادر ہے۔

Tuesday, May 15, 2018

سنو....یہ پاکیزگی کیا ہوتی ہے؟.



سنو....یہ پاکیزگی کیا ہوتی ہے؟... چائے کا کپ میز پر رکھ کر عجیب سے انداز میں پوچھا اس نے.....غیر ارادی طور پر میں نے جواب دیا....پاکیزگی یہ ہے کہ آپکا دامن ہر اس عمل سے محفوظ ہو جس سے اللہ نے منع کیا ہے....کچھ دور وہ میری آنکھوں میں دیکھتی رہی پھر شیشے سے سڑک پر گاڑیوں کو دیکھتے بولی.....پتہ ہے میں تمھاری آنکھوں میں دیکھتی ہوں نہ تو مجھے کچھ ہونے لگتا ہے میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتی............اور..........اور تم سے اسطرح ملنا میری بے چینیوں میں اضافہ کرتا ہے.....کیا تمھیں نہیں لگتا کہ ہمیں ملنا نہیں چاہئے...................کیوں؟؟ میرے منہ سے نکل گیا...........کیوںکہ تم میرے لئے ابھی نا محرم ہو...نا محرم کو دیکھنے سے آنکھوں کا نور ختم ہو جاتا ہے.......میں نہیں چاہتی کہ جو احساس تمھاری محبت نے مجھے دیا جو چمک میری آنکھوں میں تمھاری محبت سے آئی وہ ختم ہو جائے....................................میں نے آج تک اسے اتنا جذباتی ہو کر نہیں دیکھا......
ایک طویل وقفے کے بعد بولی................سنو..... 
آج کے بعد ہم نہیں ملینگے..............مجھ سے نکاح کر لو کہ..............اب تم سے نظریں چرانا بھی تمھیں کھونے کے برابر تکلیف دیتی ہے



ہاں یہ تو سچ ہے میں محبت کو جس خوب صورتی سے کاغذ پہ رقم کرنے میں ماہر ہوں


ہاں یہ تو سچ ہے میں محبت کو جس خوب صورتی سے کاغذ پہ رقم کرنے میں ماہر ہوں اتنی ہی بدصورتی سے میں اسے کرنے میں ان پڑھ ہوں 
مجھے محبت کرنا نہیں آتی 
میں محبت کے آداب سے واقف ہی نہیں ہوں 
مجھے نہیں پتہ جب کسی کے سر میں درد ہو تو اس کے ماتھے پر لبوں کو دھر کے اس کا دھیان درد سے کیسے ہٹایا جاتا ہے- 
میں نہیں جانتی جب غصے میں کوئی آپ پر چیخ چِلا رہا ہو تو دھیرے دھیرے چل کے اس کے قریب جاتے ہی اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ دھر کہ یہ کیسے کہا جاتا ہے کہ 
اچھا نہ ہوگئی غلطی اب ایسے ڈانٹیں گے تو میں رو بھی جاتی ہوں پھر-
مجھے نہیں خبر کے جب کوئی تھکا ہارا گھر کو لوٹتا ہے تو کیسے اس کے گلے لگ کر اس کے سینے پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر سکون بخشا جاتا ہے- 
مجھے اندازہ ہی نہیں کہ خاموشی سے کسی کو اپنی جھوٹی چائے پلا دینے
سے کیسا لطف آتا ہے 
مجھے ادراک ہی نہیں صبح کو گیلے بالوں سے ٹپکتا پانی کسی پر پھینک کر کیسے نیند سے جگایا جاتا ہے 
مجھے پتہ ہی نہیں ...محبت کیا ہے محبت کا ہونا کیا ہے ...مگر مجھے تم سے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی تو - 
تو میں تمھیں تمھارا اپنا آپ بھلوا دوں گی 
تمھاری آنکھوں کی چمک سے لے کر تمھارے ہونٹوں کی مسکراہٹ تک سےمیں چھلکنے لگوں گی 
تمھارے سگریٹ کے دھوئیں میں صرف اور صرف میرا عکس ہوگا 
میں تمھاری سنسان راتوں میں روشنی بکھیر دوں گی
تمھارے اداس دنوں کو قوسِ قزاح کے ست رنگوں سے سجادوں گی 
خزاں کے موسم میں تمھارے لیے بہار کو کھینچ لاؤں گی 
تمھارے سارے وجود پر صرف اپنے نام کا ورد جاری کردوں گی تمھیں پور پور محبت میں ڈُوبو کر خود بھی مجسم محبت بنی رقص کرنے لگوں گی مگر تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی تو اور اگر مجھے تم سے محبت ہوگئی تو ؟



Monday, May 14, 2018

اگر آپ کسی کے بغیر رہ نہیں سکتے


اگر آپ کسی کے بغیر رہ نہیں سکتے تو اسے “محبت” نہیں 
" بے بسی” کہتے ہیں
جتنی جلدی ہو سکے,اس بےبسی سے باہر نکلیں





دل پر پانی پینے آتی هیں امیدیں


دل پر پانی پینے آتی هیں امیدیں
اس چشمے میں زهر ملایا جا سکتا هے




جو باتیں پی گیا تھا میں



جو باتیں پی گیا تھا میں
وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو



کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟


کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟
تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
(عمر ابن الخطاب)
اس نے زیر لب ان الفاظ کو پڑھا۔ اسے وہ واقعہ یاد تھا۔ ایک شخض اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمائے تھے‘ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟




‏بارش کے موسم میں اس نے صاف لکھ بھیجا



‏بارش کے موسم میں اس نے صاف لکھ بھیجا 
ہم نے اب نہیں آنا_________انتظار مت کرنا



جگ کی بارش دیکھی سب نے


جگ کی بارش دیکھی سب نے
من کی بارش دیکھے کون؟





بیوی غیر مرد کی طرف کب اور کیوں جاتی ہے
معاشرے کی ایک تلخ حقیقت
اگر کسی کو پوسٹ بڑی لگے تو میری طرف سے معذرت
کروٹ بدل کے آنکھیں بند کیے ہی اس نے تکیے کے نیچے سے فون نکالاجو مسلسل وائیبریٹ کر رہا تھا۔ آنکھ کھولی اور فون کی سکرین پہ بلنک کرتا ہوا جانا پہچانا نمبر دیکھ کے اسے کوفت ہوئی۔ ” اس وقت اسے کیا مصیبت پڑی ہے” کچھ بڑبڑاتے اس نے کال کاٹ دی اور میسج ٹائپ کیا” اس وقت بات نہیں کر سکتا، وہ ساتھ سو رہی ہے”میسج سینڈ کرکے کے وہ جواب کا انتظار کرنے لگا۔ فون کی سکرین لائیٹ جو آف ہوگئی تھی میسج ریپلائی آنے پہ آن ہوئی۔ اس نے جلدی سے میسج دیکھا اور ساتھ ہی اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا۔ بنا کوئی آواز کیے بالکل آہستہ سے وہ بستر سے اٹھا اور اندھیرے میں ہی چپل ڈھونڈنے لگا۔ چپل ملی تو اس نے آگے بڑھ کے دھیرے سے دروازہ کھولا ۔
باہر کی لائیٹ آن تھی ، دروازہ کھلنے سے کمرے میں ہلکی سی روشنی ہوئی اس نے مڑ کے پیچھے دیکھا کہ کہیں وہ جاگ نہ گئی ہوئی، پر جب بستر پہ نظر پڑی تو بستر خالی تھا۔ “یہ کہاں چلی گئی؟” اسکے دماغ نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ واش روم کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ شش وپنج میں مبتلا وہ کیچن کی طرف گیا، وہاں کی لائٹ بھی آف تھی۔ اگلے دس منٹ میں اس نے پورا گھر چھان لیا لیکن اسکا کچھ پتا نہ چلا۔ آواز دے کے پکارنے سے اجتناب کیا کہ کہیں ساتھ والے کمرے میں سوئی ماں جی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ حیرانی ایک دم سے پریشانی اور غصے میں بدلی۔ اسکا فون دوبارہ وائیبریٹ کرنے لگا، بڑی بے دلی سے کال کاٹ کے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سوچوں میں گم ماں کی بات اسکے خیالوں میں گونجی”بیٹا ! آجکل تیری بیوی کے لچھن مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے، گھنٹوں کمرے کا دروازہ بند کرکے پتا نہیں کس سے فون پہ لگی رہیتی ہے” ابھی کچھ دن پہلے ہی ماں جی نے اپنے شک کا اظہار کیا تھا، لیکن اس نے اس بات پہ دھیان نہ دیا۔ کہیں چھت پہ نہ ہو، دماغ میں سوالوں کا انبار لیے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ابھی اسکا پاؤں آخری سیڑھی پہ نہیں پڑا تھا ، ایک سرگوشی سن کے وہ وہیں رک گیا۔ ۔
میں اسکی بیوی تو بن گئی لیکن اسے مجھ میں دلچسپی نام کی نہیں ہے، ہمارے بیچ زور زبردستی کا رشتہ چل رہا ہے ۔ جب پہلی بار میں نے انکے فون میں کسی لڑکی کے غیر اخلاقی میسج پڑھے تو بہت روئی ۔ دل کیا ان سے کہوں پر ڈر گئی کہ کہیں غصے میں آکے طلاق ہی نہ دے دیں ۔ جب میں سو جاتی تو وہ گھنٹوں کسی سے فون پہ باتیں کرتے رہیتے ۔ میں اپنے آپکو اندر سے کھاتی رہی۔ لیکن کتنی دیر برداشت کرتی۔ کوئی تو ہو جو میرے دل کی بات سنے۔ پر جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو تو لگتا ہے کوئی اپنا ہے ، جو پرواہ کرتا ہے۔ میں جب بھی پریشان ہوتی ہوں تو تمہیں یاد کرتی ہوں ۔ تم سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا ہوجو جاتا ہے، وہ اگر اپنے دل کی باتیں کسی اور سے کرتے ہیں تو میرے دل کی باتیں سننے کے لیے میرے پاس تم ہو۔
سرگوشیاں ابھی جاری تھیں لیکن اس کی برداشت کم پڑ گئی۔ غیرت کے سمندر میں طوفان اٹھا اور اس نے قدم آگے بڑھایا کہ آج تو اسے اس دھوکے کی سزا مل کے رہے گی۔ اتنے میں اسکے فون نے پھر سے وائبریٹ کرنا شروع کیا۔ سارے جذبات ایک دم ڈھنڈے پڑ گئے۔ ایک پل کے لیے جیسے سب کچھ رک گیا ہو۔ جیسے کسی نے اسکی زبان جکڑ لی۔ پاؤں آگے نہ بڑھ پائے۔ وہ کسی شکست خوردہ انسان کی طرح واپس سیڑھیاں اترنے لگا ۔ سرگوشیاں اب بھی کانوں میں پڑتی رہیں جو کلیجہ چھلنی کررہی تھیں۔ اپنا فون پاور آف کرکے وہ بستر پہ لیٹ گیا۔ آج تو آرام دہ بستر پہ بھی کانٹے چبھ رہے تھے۔ جس گناہ کا مرتکب وہ خود تھا کیسے کسی اور کو اسی گناہ کی سزا دیتا۔ اگر کوئی سزاوار تھا تو وہ خود تھا۔ “کبھی کبھی ہم اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ ہماری کی ہوئی چھوٹی سی ایک غلطی کیسے بھیانک طوفان کا پیش خیمہ بنتی ہے



میں نے اسے گناہ و ثواب کے پردے میں نہیں دیکھا


میں نے اسے گناہ و ثواب کے پردے میں نہیں دیکھا
میں نہیں جانتی کہ اسے محسوس کرنے کے لئے بہت نیک ہونا ہوتا ہے.. میں جیسی بھی ہوں..
وہ میرا ہے میں اسکی ہوں.. اس حقیقت سے بڑی کوئ حقیقت نہیں جو میرے دل کو سکون دیتی ہو.. ہاں بس دل چاہتا اپنی میں سے اپنے آپ سے بھی گزر کر اسکی ہو جاؤں
مجھے اس سے سزا و جزا کا حجاب محسوس نہیں ہوتا.. میرے غم میرا ضبط میری چپ میری ہر سانس کا محرم وہ ہے. وہ ہمیشہ محبت لگا .. اپنا .. سچا .. مخلص .. باوفا .. ایسا کھرا جسکا نعم البدل کوئ نہ ہو.. ایسا اپنا کہ جسکے در کو چھوڑ کر کسی در پر نہ جایا جائے.. ایسا بیش قیمت کہ اسکے لئے اپنا آپ دے دینے کو دل چایے .. ایسی محبت کہ اسکے لئے کچھ نہ ہونے کو جی چایے 
مجھے اپنے آنسو اچھے لگتے ہیں.. کہ میرے دل کی رقت مجھے اسکا پتہ دیتی ہے.. ایک پل میں اسکے در کا تالا کھل جاتا ہے اس دل پر..وہ سچا معصوم بےعیب پاک ایک واحد مجھ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت کرنے والا. . سب کا اتنا خیال رکھنے والا. . سب سے اتنی محبت رکھنے والا.. میرا دل چاہتا یے میں اہنی ہر خواہش سے پرے اسے اس کے لئے چاہوں.. اسکو سجدے اسکی محبت میں کروں.. اسکی یاد کے آنسو کو آب زمزم سا سینچوں. . اسکے کیف کو اپنی دھڑکن بناؤں.. اسکے اسم کو اپنی زیست کا نور کردوں.. میرا دل چایتا ہے میں اسکے حوالے سے پہچانی جاؤں.. وہ میرا نصیب ہو.. میں اسکے رنگ میں رنگی جاؤں.. میں اس سے سچی ہوں.. میں اسکی ہوں.. میں اسکی ہو جاؤں.. اسکی ہو جانے میں .. میں اپنا ہونا پاؤں.. میں اسکے نام سے پہچانی جاؤں میری زیست میری مرگ میرے خواب میری نیند.. میرے اشک میری مسکان سب ایک اسی کے لئے ہوں.. میری امید میرا انتظار میرا وجد میرا مان .. میرا کیف میرا انتظار.. میرا یقین میرا دھیان سب وہ ہو جائے.. میں ...میں نہ رہوں. سب وہ ہو جائے



میرا غم بھی میرے جیسا تھا



میرا غم بھی میرے جیسا تھا
اس کو جس سے محبت تھی
وہ میں نہیں تھا



تم کہتی ہو کتاب لکھوں


تم کہتی ہو کتاب لکھوں ، ہاں تم پہ تو دیوان لکھا جانا چاہیے 
لکین کیا لکھوں گا میں؟ مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا ، ہاں اگر کچھ لکھوں گا تو تمہارے بائیں ابرو کے دائیں کونے کو ستارہ لکھوں گا، تمہارے نچلے لب کو دل کی دھڑکن کی تیزی کا سبب لکھوں گا، تمہارے لہجے کو اف تمہارا لہجہ صدقے جاوں تمہارے لہجے دنیا کے ہر اک سر سنگیت سے مسحور لکھوں گا ، تمہاری آنکھوں کے رنگ کو اپنا پسندیدہ رنگ لکھوں گا ، مری جان خود ہی بتاو اب میں کیا لکھوں تم کہتی ہو کتاب لکھوں 



Friday, May 11, 2018

کوئی دلیل ڈھونڈھ نہ پایا تو اگلے دن


کوئی دلیل ڈھونڈھ نہ پایا تو اگلے دن
✨ اس نے میرے خلوص پہ الزام دھر دیا



اسے پتہ تھا کہ اس کا نظر انداز کرنا مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے


💔 اسے پتہ تھا کہ اس کا نظر انداز کرنا مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے 
میرے لیےاس سے بڑھ کےکوئی اذیت نہیں
اسے یہ بھی خبر تھی کہ اگر ہمارے درمیان کبھی جدائی آئی تو اس کی اسی نظر انداز کرنے کی عادت کی وجہ سے آئے گی
اسی لیے اس نے جب مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تو زیادہ کچھ نہیں کیا صرف نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور پھر مجھے 
 اس سے دور جانا پڑا
اس کا مقصد بھی پورا ہو گیا اور اس پر کوئی الزام بھی نہیں آیا 

ﺗﯿﺮﮮ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﮔﻮﺍﮦ تهے ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ
💔✌🌸 ﺗﺠﮭﮯ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﻟﮕﺘﺎ تها ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔ 



اگر محبت ایک ہی دفعہ ہوتی تو پھر اسلام میں چار شادیوں کی ہرگز اجازت نہ ہوتی


اگر محبت ایک ہی دفعہ ہوتی تو پھر اسلام میں چار شادیوں کی ہرگز اجازت نہ ہوتی

مجھے اس بات سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔۔۔، سمجھ نہیں آتی بادل بار بار بن جاتے ہیں،بارش بار بار ہوجاتی ہے، پھول دوبارہ دوبارہ کھلتے ہیں، بہار بار بار آتی ہے، درخت بار بار پھل لاتا ہے،
انسان کےپاس میاں بیوی ماں باپ،اولاد رستے دار ،دوست احباب سب کے رشتے ہوتے ہیں اور وہ سب سے محبت کرسکتا ہے اور کرتا بھی ہے نبھاتا بھی ہے،
والدین کے پانچ دس بارہ بچے بھی ہوں سب سے محبت ہوتی ہے والدین کی محبت کم نہیں پڑتی 
تو پھر اس ایک محبت میں محبت کا چشمہ کیسے سوکھ جاتا ہے ؟؟
محبت بہت وسیع جذبہ ہے، الگ الگ رنگ اور صورتیں ہیں
ہر شخص کا اپنا اپنا خاص مقام ہوتا ہے
کبھی کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا،
انسان کا وہ دل جس کے لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی وسعت میرے لئے کم پڑ گئ تو بندہ مومن کے دل کی وسعت میرے لے کافی ہوئی میں اسمیں سما گیا 
تو اس وسعت میں ہم خود دروازے بند کرلیتے ہیں اوروں کے لئے، 
ہم اپنے جذبات کو خود روک دیتے ہیں، ورنہ اللہ نے نہ تو انسان کو اتنے محدود جذبات دئیے نہ دل۔۔۔،اور
نہ ہی زندگی گزارنے کے لئے اسے اصول بنایا اور نہ ضروری قرار دیا،
ورنہ دنیا کا نظام رک جائے، زندگی میں خوشیاں باقی ہی نہ رہتیں۔۔
محبوب بچھڑ بھی جائے،اسکے حصے کی یادیں،جذبات، دل میں اسکی جگہ۔۔ سب کچھ موجود ہوتا ہے، 
پر محبتیں ختم نہیں ہوتیں، اور ہو بھی نہیں سکتیں کبھی
زمین کی فصل ویسی ہی نئی اور عمدہ ہوتی ہے ہر بار



بعض دفعہ واقعی کسی نامحرم سے محبت ہو جاتی ہے





بعض دفعہ واقعی کسی نامحرم سے محبت ہو جاتی ہے... ہاں... اللہ بهی کرا دیتا ہے... لیکن... اسکی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں.. بعض دفعہ یہ محبت ہم پہ سزا بن کر اترتی ہے... ہمارے کسی غرور کسی غلطی کی سزا... بعض دفعہ.. ہم میں... ہمیں کچه سکهانے کے لیئے ڈالی جاتی ہے... اور ان سب کا اینڈ... بس یہی ہوتا ہے... اللہ سے قربت... میں سمجهتی تهی... اللہ دل میں نامحرم کی محبت نہیں ڈالتا... مگر پهر مجهه پتا چلا... بعض دفعہ... یہ واقعی ہمارے دل میں ڈالی جاتی... کبهی اپنی ذات کا غرور توڑنے کے لیئے... کبهی کسی اور مصلحت کے تحت... مگر... اس سارے قصے میں انسان... سیکه بہت کچه جاتا ہے... خاص طور پر... اللہ کے قریب ہو جاتا ہے... اسے پہچاننے لگتا ہے... ہاں... یہ سچ ہے... بعض دفعہ محبت ہمارے کسی گناہ کی سزا بهی ہوتی ہے.














 ❤کچھ نام ایسے ہوتے ہیں ناں ، جن سے ہمیں یونہی بنا کسی وجہ کے عقیدت ہوتی ہے 

ایسے ہی اِک نام سے مجھے بھی بےپناہ عقیدت ہے، اتنی کہ میں اُس نام کو پڑھ لوں تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، سُن لوں تو رُواں رُواں مسکرانے لگتا ہے، میں کاغذ قلم لے کر بیٹھوں تو سارے صفحے اُسی ایک نام سے بھرنے لگتے ہیں، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ڈھیر سارے آنسوٶں سے کاغذ بھیگنے لگتا ہے، وہ واحد نام ہے جو میری ڈائری کے پہلے سے آخری  
صفحے تک لکھا ہے 

میرا دل چاہتا ہے میں اُس نام کو اپنی ہتھیلی پر لکھوں،آنکھوں سے لگاٶں، انگلیوں سے چھو لوں، لبوں سے لگاٶں،
❤ میرا دل چاہتا ہے میں اپنا دل کھولوں اور اُس نام کو دل میں رکھ کر لاک لگادوں؛ 
وہ ہمیشہ یونہی میرے دل سے جڑا رہے
میں چاہتی ہوں، شدتوں سے، کہ اگر میرے نام کیساتھ دوسرا کوئی نام جڑنا ہی ہے تو وہ بس یہی اِک نام ہو 



إک قہقہوںکی گونج تهی جو گونجتی رہی


إک قہقہوںکی گونج تهی جو گونجتی رہی
إک دل کاشورتهاجوسناتک نہ گیا



ہم تھے مشکل یا سب اناڑی تھے


ہم تھے مشکل یا سب اناڑی تھے
جس نے بھی کھیلا اس نے ہارا ہمیں





اس دن دوست کے نکاح کی تقریب میں جانے کے لیے میں تیار کھڑی تھی



اس دن دوست کے نکاح کی تقریب میں جانے کے لیے میں تیار کھڑی تھی تو اُس سے سامنا ہوا
سفید اور پیازی رنگ کا یہ جوڑا میں نے اُس کی فرمائش پر پہنا تھا۔
میک اپ کے نام پر زرا سا بلشر، مسکارا اور ہلکے رنگ کا لِپ شیڈ، کمر کو چُھوتے بال کسی بھی قید سے آزاد تھے اور یہ ہربار کی طرح میری مکمل تیاری تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی میں اپنا جائزہ لینے لگی تو خود پر ٹوٹ کے پیار آیا۔ پتہ نہیں آج کل میں واقعی حسین ہو رہی تھی یا صرف مجھے ہی ایسا محسوس ہو رہا تھا۔ شاید محبت کا اثر تھا یا پھر شاید محبوب کی نظر کا۔
دروازے پہ ہلکی سی دستک کے بعد وہ اب میرے سامنے کھڑا تھا۔ اُس کی ہمیشہ جھکی رہنے والی نظریں آج اُٹھی ہوئیں تھیں اور میرا ہمیشہ سے اُٹھا رہنے والا سر آج جھکا ہوا تھا۔
سو تبدیلی آ نہیں رہی تھی تبدیلی آگئی تھی۔
بس اتنی سی تیاری؟ سوال تو آگیا جواب نہیں آ سکا۔ خواہش تھی کے چند تعریفی بول سُنوں۔ مگر وہ کہہ رہا تھا،
لڑکیاں تو اتنا میک اپ کرتی ہیں کے پلاسٹک کی گڑیا لگنے لگتی ہیں مگر آپ تو ابھی بھی موم کی گڑیا ہی لگ رہی ہیں۔
پتہ نہیں تعریف تھی یا برائی مگر مجھے اچھا نہیں لگا۔ دل جیسے اُداسی کی دلدل میں دھنسا جارہاتھا کہ پھر یکدم کمرے میں گلاب کی خوشبو اِٹھلانے لگی۔ وہ میرے لیے گلاب کے کنگن لایا تھا۔
وہ گلاب کے کنگن اس نے اپنے ہاتھوں سے مجھے پہنائے اور میرے کان کے پاس اپنے لب وا کیے کہنے لگا
آپ اچھی لگ رہی ہیں اپنی تمام تر سادگی سمیت، معصومیت کی جھلک دِکھاتیں نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی ہیں۔
اُس کی سانس کی حِدت میرے کان کی لو کو سُرخ کر گئی۔ پھر اُس نے میری جُھمکی کو چھیڑا یا پتہ نہیں وہ جُھمکی میری غیر ہوتی حالت کا مزاق اُڑاتے خود ہلنے لگی تھی۔ کمرے میں اتنی دیر تک خاموشی رہی کہ مجھے گمان ہوا وہ جا چکا ہے۔ بوجھل ہوتی نظروں کو بہ مشکل اُٹھانے میں کامیاب ہوئی تو اُسے اپنے سامنے مُجَسِم پایا وہ آنکھ بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا یا شاید کوئی ورد کر رہا تھا۔ اُس کی بند آنکھیں
اُس کے ہلِتے ہونٹ، اک سیکنڈ، دو سیکنڈ، تین سیکنڈ، چار، پانچ، چھ، نہ جانے کتنے سیکنڈوں بعد اُس نے آنکھ کھولی اور مجھ پر پھونکنے لگا
میں ہل نہیں سکی
سانس نہیں لے سکی
پَلک نہیں جھپک سکی
جیسے وہ مجھ پر کوئی منتر پھونک رہا تھا
.وہ مجھے قید کر رہاتھا۔
نہیں، شاید وہ میرے گرد حفاظتی حصار باندھ رہاتھا۔ وہ مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کر کے چلا گیا۔
کمرے کی ہر بے جان شے اُس کی محبت کے گیت گانے لگی۔
اور میری آنکھیں اُس کی اتنی پرواہ پر آنسو بہا رہی تھیں مگر پھر یاد کا کوئی دُھندلا سا منظر میری آنکھ رُلا گیا تھا۔
میں بھی تو کسی کے گِرد یونہی حصار باندھا کرتی تھی۔ اُسے تصور میں لا کر میں بھی تو یہی کِیا کرتی تھی،
جو آج وہ میرے ساتھ کر گیا تھا۔
میں نے کب سوچا تھا کوئی میرے ساتھ بھی یوں کرے گا
میں نے کب چاہاتھا کوئی میری پرواہ کرے۔ مگر
آہ! محبتیں یوں بھی لوٹ کر آیا کرتی ہیں
یوں،
بلکل اچانک
دبے پاؤں،
میرے وہ سچے جذبے یونہی بے کار نہیں گئے۔
میرا رب مجھے بدترین سے گزار کے بہترین تک لے ہی آیا
وہ اور میں ....میں اور وہ .... کسی تیسرے کا کہیں اب سایہ بھی نہیں تھا


')