Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Thursday, June 30, 2016
Monday, June 20, 2016
ادھورا احساس
احساس تو نیا نہیں۔ بچپن سے ہی کئی بار یہ کیفیت طاری ہوئی۔ سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ کیا کیا جائے۔ عجیب بےبسی کی سی کیفیت، سب کچھ مگر اپنا آپ خالی سا، اندر سے جیسے کچھ کم ہے۔ چھبیس سال کے بعد آج آکر اس احساس کو نام ملا۔ اسے خالی پن کہتے ہیں، بھری پری دنیا میں اپنا آپ عجیب سا لگتا ہے۔ یہ نہیں کہ اردگرد کوئی مسئلہ ہے۔ سب کچھ خیریت سے اللہ کی رحمت، ہر کوئی خوش لیکن اندر سے کوئی خوش نہیں۔ نہیں بلکہ خوشی نہ ہونا اور چیز ہے، وہ تو غم ہوتا ہے، یہ تو عجیب سی چیز ہے، جیسے سینے میں کوئی چھوٹا موٹا خلا ہو، اصلی والے خلا کا کمپیکٹ ایڈیشن۔ اور پھر خلا ہی نہیں، غور سے دیکھنے پر ایک ہستی اس میں تشریف فرما نظر آتی ہے، اپنی ہی ذات شریف۔ عجیب سا احساس ہے یہ، جیسے موبائل فون میں سگنل آنے بند ہو جائیں تو وہ بےمقصد ہو جائے، جیسے ٹیلی وژن کے رنگ کوئی چرا لے اور پیچھے بلیک اینڈ وائٹ تصویر رہ جائے، جیسے کوئی زندگی کا مقصد چھین لے اور جینے والا چلتا پھرتا روبوٹ بن جائے۔ ہاں یہ آخری والی بات ٹھیک لگتی ہے۔ لیکن روبوٹ بھی نہیں اب اتنی بھی لُٹ نہیں پڑی ہوئی۔ کام ہوتا ہے، ہر کام ہو رہا ہے، آنیاں جانیاں ہیں۔ ابھی کل باهر کا چکر لگا اتنی ساری مصروفیت رہی ۔ بارہ چودہ گھنٹے کا سخت مصروف دن گزارا۔ آج کا دن بھی گھر پہ کام کرواتے، الماری سیٹ کرتے ہوئے ، ادھر اُدھر، اُدھر ادھر جاتے گزرا۔ لیکن عجیب کیفیت ہے، جیسے قسط وار ڈراما لگا ہو اور ہر پندرہ منٹ بعد مشہوری آ جاتی ہو۔ ایسے ہی کام کرتے رہو تو مشہوری کا سماں ہوتا ہے۔ کام ختم کرو تو "گذشتہ سے پیوستہ" پھر وہی قسط شروع ہو جاتی ہے وقفے کے بعد۔ "ہاں تو ہم کہاں تھے؟ُ ہاں تو ہم خلا میں تھے" اور وجود پھر اسی خلا میں بےمقصد تیرنے لگتا ہے، سینے میں وہ بےبس کردینے والی میٹھی سی کسک شروع ہو جاتی ہے اور دماغ پھر وہیں اٹک جاتا ہے۔ اچھا تو یہ مسئلہ تھا اور پھرا سی مسئلے پر بےمقصد سوچ شروع ہو جاتی ہے۔ عجیب سی کیفیت ہے، بھئی دماغ اچھا خاصا پڑھا لکھا قسم کا دماغ ہے اور اچھی خاصی معلومات کا حامل ہے۔ اردگرد کو جاننے کا دعویدار، مطالعہ کے ذریعے زندگی کا تجزیہ کرنے والا، یہ جاننے والا کہ زندگی کسی ایک شخص سے جڑنے کا نام تو نہیں، یہ تو معاشرے میں رہنے سہنے کا نام ہے جس میں روزانہ درجنوں اور پوری زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن عجیب دماغ ہے اس کے دماغ میں یہ بات ہی نہیں آتی، خلا میں سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جیسے کوئی مجذوب اپنے آپ سے بھی بےگانہ ہو جائے وہی حال دماغ کا ہوتا ہے کہ عجیب لایعنی سوچیں گھیراؤ کر لیتی ہیں۔ سوچیں بھی عجیب کہ اوپر لایعنیت کی تہہ ہے، اور نیچے وہی احساس اور اس احساس کے مرکز میں خالی پن، اور بےکیفی۔ نماز پڑھو تو پڑھتے پڑھتے رکعت بھول جائے، سجدہ سہو کرو، نماز پوری کرو لیکن فلم وہیں کی وہی چل رہی ہے۔ الحمد اللہ رب العلمین "اچھا تو ہم کہاں تھے ہاں خالی پن"، ساتھ نماز چل رہی ہے ساتھ قسط وار ڈرامہ بھی وقفے وقفے سے چل رہا ہے۔ کام میں پناہ ڈھونڈو تو پناہ نہیں ملتی پھر سوچ آتی کہ سب کو بتاؤ میں کتنا مصروف ہوں۔ سب کو باآواز بلند اعلان کر کے سنایا جاتا ہے" یار میں نے کام کرنا ہے" اگلا بندہ چڑ کر کہتا ہے جا بھائی جا کے کام کر پھر۔ اور جب کام کرنے بیٹھو تو "ہاں تو ہم کہاں تھے ہاں خالی پن۔۔۔" فلم پھر سے شروع، وہی کٹی پتنگ جیسی کیفیت کہ دل کبھی ادھر ڈولے کبھی ادھر ڈولے، ارے بھائی کہیں اٹک بھی جا اب۔ لیکن نہیں اٹکتا، اٹکن بھی کوئی نہیں بس خلا کا ایک فرنچائز کھلا ہوا ہے جس میں وجود ہلکورے لیتا پھر رہا ہے۔ اور پھر یہ بھی نہیں کہ یہ ہلکورے بےوزنی کی کیفیت میں انجوائےمنٹ کے ساتھ لیے جا رہے ہیں۔ ہلکورے لیتے ہوئے بھی وزن کا احساس ہے، تکلیف کا بھی احساس ہے اور ربط کا جس کا ٹوٹنا مقدر تھا، ڈور جہاں سے ٹوٹی وہاں سے چاہے خون کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا ہو لیکن پتنگ کو احساس ہے کہ ربط کٹ گیا اب کوئی مقصد نہیں۔ عجیب سی کیفیت ہے، اور عجیب احساس ہے۔ حالانکہ پتا بھی ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا، آج نہیں تو کل، پر امید تو تھی۔ آس اور امید کیا کیا کروا سکتی ہے اس کا آج آ کر احساس ہوا، کہ آس بھی نہ رہے تو کیا ہوتا ہے۔ جب یہ پتھر پر لکیر ہو جائے کہ اب کچھ نہیں ہو گا، تب جو احساس ہوتا ہے وہ آج ہو رہا ہے۔ اور اسی احساس میں کہیں امید بھی چھپی ہوئی ہے، خوش فہمی کہتے ہیں اس کو، کہ شاید۔۔۔لیکن یہ خوش فہمی جو پہلے ہر بار دلاسہ دے جاتی تھی وہ بھی آج کام نہیں آتی۔ اور خلا کا فرنچائز پھر اردگرد پھیلنے لگتا ہے، اور وجود اس میں کٹی پتنگ کبھی ادھر کبھی ادھر، اور ربط کٹ جانے کا احساس، ہلکی سی تکلیف جیسی سوئی چبھنے پر ہوتی ہے، شاید گلا کٹنے پر بھی اتنی ہی ہوتی ہو، اس کے بعد سکون آ جاتا ہو۔ پر ادھر تو سکون بھی نہیں ہے، عجیب بےبسی کا تڑکا لگا ہوا سکون ہے، بےکسی کے ریپر میں لپٹا ہوا سکون کہ سکون سے دور بھاگنے کو دل کرتا ہے۔ لیکن دور بھاگ کر کہاں جایا جائے ہر جا تو وہی ننھا منا سا سیلف میڈ خلا موجود ہے اور پھر وہی بےمقصدیت، کٹی پتنگ اور ۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں یہاں تک کون پڑھے، اور پڑھ بھی لے تو لکھنے والے کو لعن طعن ہی کرے، کہ کیا بےمقصد لکھا ہے۔ پر لکھنے والا کیا کرے، عجیب سی بےمقصدیت چھائی ہے، کہ جہاں وجود کے موجود ہونے کے مقصد پر ایک "کیوں" کا سانپ بیٹھ جائے وہاں لکھنے والا کیا کرے۔ پڑھنے والا شاید یہ بھی کہے کہ مقصد تو عبادت ہے۔ پر لکھنے والا کیا کرے، اسے تو مقصد کی بھی سمجھ نہیں، بس بےمقصدیت کا پتا ہے جس کا انکشاف تازہ اس پر آج ہی ہوا ہے۔ مقصد کیا اور کاہے کا مقصد جب سیٹلائٹ لنک اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو پھر لوکل سگنل پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اور لوکل سگنل بھی جواب دے جائے، آؤٹ آف رینج ہو جائے تو پھر مقصد کہاں رہ جاتا ہے۔
فادر ڈے
کہتے ہیں کہ بھرے پیٹ والوں کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں۔ نئے نئے کپڑے، کاریں، شوق اور انجوائے منٹ۔ ایسی ہی انجوائے منٹ بارش بھی ہے۔ لوگ بڑا انجوائے کرتے ہیں کہ بارش ہورہی ہے، پکوان بنتے ہیں، پارٹیاں ہوتی ہیں، موج مستی ہلا گُلا ہوتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے تک میری کیفیت بڑی عجیب سی ہواکرتی تھی بارش ہونے پر۔ دل کرتا تھا کہ بارش ہوجائے، خوب ہوا چلے اور خوب بارش ہو تاکہ موسم ٹھنڈا ہوجائے اور پوڑے پکیں ۔ لیکن پھر مجھے ابو کا خیال آتا تو دل چور ہوجایا کرتا۔ ابوکی جاب ویسے توگھر سےزیادہ دورنہیں تھی لیکن بارش اور وہ بھی اندھی کے ساتھ تو ہمیں ابّو کا اور ابو کو ہمارا خیال رہتا جس کی وجہ سے وہ اپنی جاب چھوڑ کر گھر آجایا کرتے تھے کے بچے پریشان نہ ہوں .
ان دنوں طریقہ کار بہت سادہ سا تھا۔ ہم گھر سے سالن اور روٹیاں لے کرانھیں ان کے آفس دینے جاتے تھے، اس بہانے ان کے ساتھ بیٹھنا اورانکا خوبصورت آفس جہاں بہت سارے درخت اور بے تحاشا قسم کے پھول تھے دیکھنے کا شوق ہمارا پورا ہوجایا کرتاتھا. مین سپر ہائی وے کے گنجان جنگل میں گھر ہونے کی وجہ سے بیماری کے وقت ہمیں شہر کی طرف لے جانا ، اکثر اوقات وین خراب ہونے کی صورت میں انکا سکول میں ہمکو ڈھونڈنا اور شام تک گھرنہ لوٹنا بہت ساری یادیں جو میرے ذہین سے کبھی نہیں نکل نہیں سکتی شاید میں وہ سب لکھ ہی نہ پاؤں خیرکچھ حادثات زندگی کا حصّہ ہوتے ہیں اوراٹل ہوتے ہیں جنکا روکنا انسان کے ہاتھ نہیں ہوتا ، ہم بھی ان حادثات کی زد میں آگے آج انہیں بہت کثرت سے یاد کیا چونکے آج فادر ڈے تھا ان تمام دنوں سے کوئی بڑھ کےتونہیں کہا جاسکتا کیوں کے آج سب دوستو نے اپنے والد کےساتھ یہ دن منایا اور کچھ نے تصویر بھی اپلوڈ کی سوشل میڈیا پہ تو میرے لئے ایک تکلف سے کم نہیں تھا
ایک ہفتہ پہلے ایک عزیز تشریف لاے اورانہونے میرے والد کی انتقال کی خبر سنائی جوکے دل نہیں مانا اس کے بعد اور لوگ آ تے چلے آے اورمیرا دل چا ہا کے ڈھیرسری گالیوں کے ساتھ انہیں الله حافظ کہوں لیکن اس کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں شور ڈالتی گھر میں تو سارے مجھ پہ حاوی ہوجاتے تو دل میں ہی انکو نیست و نابوط ہوجانے کی بد دعا دیتی رہی بہت سوچ بچار کے بعد میں آخر کار اس کہانی کے لکھنے اور ترتیب دینے والے تک پہنچ ہی گیی بزرگ کہتے ہیں ہاتھوں سے لگائ ہوئی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے تو یہ مت سوچو جو تم نے کسی کے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ نہیں ہوسکتا
. الله میرے باپ کو صحتمند زندگی دے اور دشمنو کو دنیا میں بھی جہنم دکھاۓ
۔ میں نے یہ سب اس لیے لکھا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کل کو اگر میں اگر کامیابی کی کسی منزل پہ گامزن ہوجاؤں عام الفاظ میں کسی لائق ہو جاؤں تو میرے لکھے ہوئے الفاظ ہی مجھے میری اصل کا پتا دیں، میں کہیں بھول نہ جاؤں کہ میرے ماں باپ نے مجھے کیسے پالا تھا، میرا بچپن کیسے گزرا تھا اور ہمارے حالات کیسے گزرے اور وہ رشتے دار الله انھیں ہدایت دے اور انکی آنے والی نسلوں پہ رحم فرماے اور مجھ پر رب کریم کے کتنے احسانات ہیں۔
یا اللہ تیرا شکر ہے، تیری رحمت، تیرا کرم میں تیری رحمت کی محتاج تیرے کرم کی امیدوار۔ میری ہر سانس، میرا ہر بال تیری رحمت تیرے کرم کا منتظر۔ میرا ہونا ہی تیری مجھ پر رحمت کی نشانی ہے مولا، ورنہ میری کیا اوقات میرے مالک۔
یا اللہ تیرا شکر ہے
Friday, June 17, 2016
Thursday, June 16, 2016
Saturday, June 11, 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)