Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Sunday, October 30, 2016

ﻣﯿﺮﯼ ﻏﯿﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻼ ﺍﻥ ﮐﻮ



ﻣﯿﺮﯼ ﻏﯿﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻼ ﺍﻥ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺭﻭﺑﺮﻭ ﮐﺮﺗﮯ




ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﮈﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺳﮑﻮﮞ


ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﮈﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺳﮑﻮﮞ
ﮨﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﺎﮒ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ



ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻭﯾﺴﺎ ﺑﮭﺮﻭ ﮔﮯ



ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻭﯾﺴﺎ ﺑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ''
ﺭﺩِﻋﻤﻞ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ



ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ، ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ


ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ، ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺭُﻭﭨﮫ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﮯ







ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ، ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ


ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ، ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺭُﻭﭨﮫ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﮯ





ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺎﻡ ﺗﮭﯽ،ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻼﻝ ﮨﮯ



ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺎﻡ ﺗﮭﯽ،ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻼﻝ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﻨﺘﻈﺮ،ﺗﯿﺮﮮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﺭﮨﯽ



ﺩُﮐﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻠﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻮﺍ ﮨﮯ


ﺩُﮐﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻠﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻮﺍ ﮨﮯ
ﻣﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺩﺍ ﮐﺲ ﺭﻭﺯ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ



ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺍُﺩﺍﺱ ﺗﮭﺎ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺭﻭﺯ



ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺍُﺩﺍﺱ ﺗﮭﺎ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺭﻭﺯ

ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﺮﺩ ﺳﺎ ﻟﮕﺎ



ﺩﻝ ﮐﯽ ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ


ﺩﻝ ﮐﯽ ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻧﮕﺮ ﺳﻮ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻟﻮﭨﺎ ﮔﯿﺎ



ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ


ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ

ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺳﻮﺳﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ



ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﯾﺐ ﮨﻮﺍ



ہمارے ساتھ محبت میں فریب ہوا 
مگر خوشی ہے کہ آخر عذاب ختم ہوا 



ﺩﮬﻮﻝ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﺩﺍﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ




ﺩﮬﻮﻝ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﺩﺍﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﭘﮭﺮ ، ﺍﺳﯽ ﻏﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ



ﺟﺎﺅ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻣﮩﺮ ﻭﻓﺎ


ﺟﺎﺅ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻣﮩﺮ ﻭﻓﺎ
ﺑﺎﺭ ﮨﺎ ﺁﺯﻣﺎ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ




Saturday, October 29, 2016

خوبصورتی کیا ہے





انگریزی کہاوت ہے


Beauty lies in beholder's eyes

یعنی خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی ایک وسیع لفظ ہے۔ ایسا لفظ جس کی ہمہ گیریت اس پوری کائنات کو محیط کرتی ہے۔ خوبصورتی کا لفظ سنتے ہی زمین و آسمان کے وسعتوں میں پھیلے بے کراں راز ظاہر ہوجاتے ہیں۔ وہ راز جو انسان کو رب اور اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی طرف طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کو بیان کرنے کیلیئے دجنون صفحات بھی کم ہیں۔


یہ دنیا، آسمان، ستارے، چاند اور چاندنی، چرند پرند، درخت کہسار، ندی نالے، کھیت کھلیان، پھل پھول، شب کے اندھیرے میں چمکتے جگنو، بسنت میں لہلہاتے زرد کھلیان۔ سرمئی شام، صبح کا کہر، ڈوبتا سورج، ابھرتی صبح۔ کس کس پر غور کریں۔ ہر شے اپنے اندر حسن و جمال اور روپ کی سندرتا سموئے ہوئے ہے۔ انگریزی ادب کے مشہور شاعر رابرٹ لوئیس اسٹیونسن نے اپنی ایک نظم Journey From a Railway Carriage میں ان تمام خوبصورتی کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھنے والا اپنے اردگرد کے حسن میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔


خوبصورتی صرف چہرے کا حسن نہیں، چہرے کا تل بھی یے۔ خوبصورتی صرف زلفوں کی سیاہی نہیں، اس میں موجود کاکول بھی ہے۔ خوبصورتی صرف ستوان ناک نہیں، اس میں لگی ہوئی ننھی سی لونگ بھی ہے۔ خوبصورتی ضعیفی بھی ہے۔ خوبصورتی بڑھاپے کا رعشہ بھی ہے۔ چہرے پر پڑی عمر بتاتی جھریاں بھی ہیں۔ بچوں کی کلکاریوں سے خوبصورتی اسی طرح چھلکتی ہے جیسے لہلہاتے سبزے کو پون گدگداتی ہے۔ جیسے بارش کی پہلی بوند۔ جیسے بارش کے بعد زمین سے اٹھنے والی مٹی کی مہک۔ ٹین کی چھت پر بارش سے بجنے والی جلترنگ۔ ٹمٹماتی چراغ کی لو کے گرد منڈلاتے پروانے۔ آتشدان میں بجھتے انگارے بھی۔ ماں کا پیار بھی اور باپ کی پھٹکار بھی۔ ساحل سمندر سے ٹکرانے والی لہروں میں بھی ایک حسن دلپزیر ہوتا ہے۔ جیسے لہریں اپنی طرف بلارہی ہوں۔ دوستی کرنا چاہ رہی ہوں۔ دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ محسوس کرنے والا دل چاہیئے۔ کوئل کی کوک کس کو بھلی نہیں لگتی ہے۔ جب کسی کی یاد دل کو کچوکے دیتی ہے تو ایسے میں منڈیر پر بیٹھے کاگا کی کائیں کائیں بھی دل کو بھاتی ہے۔


یہ جہاں ہر طرح کی خوبصورتی سے لبریز ہے۔ خوبصورتی تو شان رحمت ہے۔ پوری کائنات ایک خوبصورت نظام سے منسلک ہے۔ ایک کچے دھاگے کے رشتے میں بندھی لیکن اپنی چال میں مگن۔ رباعی کی بند کی طرح۔ بکھری ہوئی خوبصورتی کو سمیٹنے والی دید چاہیئے۔ خوبصورتی ذہن میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی گفتگو میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی سوچ میں دبی راکھ ہوتی ہے۔ خوبصورتی کو ڈھوندنا نہیں پڑتا۔ بس گردن جھکا کر اپنے دل میں جھانکنے کی تکلیف کرنا ہوتی ہے۔ خوبصورتی انسانوں سے محبت کا نام ہے۔ خوبصورتی نہ رنگ دیکھتی ہے، نہ زبان، نہ نسل، نہ قوم۔ نہ قد کاٹھ، نہ گوری چمڑی، نہ سکارف، نہ تنگ پاجامہ، نہ بھدی شکل، نہ گرجا، نہ مندر، نہ بھگوان، نہ رام رحیم۔ نہ اونچے مکانات اور نہ ہی کچی دیوار۔ یہ ٹاٹ کے پردے سے جھلکتی اندر بیٹھی الہڑ نار بھی ہے اور مٹی کے مکانات کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں بھی۔ 5 اسٹار ہوٹل کے کسی ریستوران میں کینڈل لائٹ ڈنر کرتا ہوا جوڑا بھی۔ خوبصورتی شاہوں کے محل میں موجود آرام دہ بستر میں ہی میں نہیں، یہ تو کٹیا میں پڑی جھلنگی چارپائی میں بھی ہوتی ہے۔


خوبصورتی کا معیار اگر ارشد خان "چائے والا" ہے تو ننگے پاوں پیٹھ پر تھیلا اٹھائے کچرے میں کھانا تلاش کرتی بھوکی بچی بھی۔ خوبصورتی ملالہ یوسفزئی بھی ہے اور معاشرہ کے سیاہ کرتوتوں کو بے نقاب کرنے والی شرمین عبید بھی۔ خوبصورتی تیزاب سے جھلسا چہرا بھی ہے اور بیساکھی کے سہارے بابا بھی۔ دور افریقہ کے کسی گاوں میں پیدا ہونے والے کالے چپٹی ناک والے بچے کی ماں سے پوچھیں۔ وہ اپنے جگر گوشہ کو سینے سے چمٹا کر پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بتائیگی کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے۔ یہ تو بس سوچ ہے۔ جو اچھی لگ جائے بس وہی خوبصورت ہے۔


ابو بن ادھم نے خدا سے پوچھا کہ کیا میرا نام تیرے چاہنے والوں کی فہرست میں اوپر لکھا ہے؟ جواب ملا نہیں۔ تمہارا نام ان لوگوں کی فہرست میں ہے جو میری مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑا سچ اور سچی محبت کی خوبصورتی یہی ہے کہ انسان اپنے جیسوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔ حقوق العباد کا نمبر حقوق اللہ سے پہلے آتا ہے۔ انسان اور مخلوقات سے پیار ہی سب سے عمدہ بات ہے۔ اور یہی پیار زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ یہی خوبصورتی ہے۔ بس
!

Mohibullah Shah’s six-for powers Qadri Model School into Omar Trophy Inter-School Cricket semis

Medium-pacer Mohibullah Shaikh’s six wicket haul powered Qadri Model School into the semifinals of the Omar Trophy Inter-School Cricket Tournament 2016, being organized by the Pakistan Veterans Cricket Association (PVCA), as they overwhelmed St Patrick High School by six wickets in the quarter-finals at the Naya Nazimabad Lawai Stadium on October 27.

Mohibullah Shaikh, adjudged Man of the Match, claimed six wickets for 19 runs to send St Patrick High School tumbling to 93 all out in 28.2 overs. Set a target of 94 in 40 overs, Qadri Model School needed just 20 overs to do it with six wickets in hand.

Electing to bat, after winning the toss, St Patrick High School could not recover after losing wickets upfront. Coming in to bat number five, with his team reeling at 13 for three, Sharjeel Ahmed fought a lone battle against the Qadri Model School bowlers but his heroics were not enough to ensure a competitive total. Sharjeel Ahmed blasted eight fours in fighting knock of 59 off 79 balls but none of his teammates could enter double figures. He scored 63.3% of the St Patrick High School’s modest total of 93.

Moving the ball both ways, Mohibullah Shaikh ran through the top order, dismissing the first six batsmen of St Patrick High School in his 6.2 overs. There was a wicket each for Amin Abdullah, Afzal Khan, Saad Bin Yousuf and Abdul Basit.

Qadri Model School didn’t face any problem in reaching the target of 94 as openers S M Shaheer (23 off 33 balls) and Abdul Basit (16 off 15 balls) got them off to a solid start.

Amin Abdullah remained undefeated on 25 off 53 balls while Roman Ali smashed a couple of boundaries in his unbeaten 14 off only six balls to guide Qadri Model School into the semifinals.


Thursday, October 27, 2016

خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا





خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا


مہر برلب تھا مسافت میں بدن تعبیر کا


رنگ لاتا ہے بہرصورت لہو شبیر کا


سلسلہ در سلسلہ پھیلاؤ ہے زنجیر کا

ڈھونڈتا ہے کس گئی رُت کی رمیدہ خواہشیں


جبر کے سکرات میں افتادہ دل تقدیر کا

ایک ہالہ سا ملامت کا بنا رہتا ہے گرد


رُخ دمکتا ہی نہیں شادابیٔ توقیر کا

رات کی گہری سیاہی میں بھی مٹ جاتے ہیں نقش


دھوپ میں بھی رنگ اُڑ جاتا ہے ہر تصویر کا


جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا


مٹ نہیں سکتا لکھا انسان کی تقدیر کا


نااُمید آنکھوں کی تاریکی' دُعا کس سے کرے


کون ہے' کس نے جلانا اب دیا تاثیر کا


زندگی ایسی کئی قربان اس کی ذات پر


ہاتھ آ جائے کوئی نکتہ اگر تفسیر کا

کس کی جنبش کا تسلسل ہے زمیں سے تا اُفق


ہے معطر طاس' کس کی نگہتِ تحریر کا

قوتِ شوریدہ سے احمد کھلی چشمِ ہنر


کس تیقن سے ہوا مجرم قدم تاخیر کا


دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا






دُکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا


میں اپنا سر کسی دہلیز پر نہ رکھوںگا


میں تیرے قرب کے تسکین بخش پہلو میں


یہ ایک رات تو کیا ساری عمر جاگوں گا


میں اپنا دُکھ نہ سناؤں گا شہر والوں کو


ترے وقار کی اے دوست لاج رکھوں گا

وہ ایک شخص بھی اخلاص سے تہی نکلا


وفا کی سرد ترازو میں کس کو تولوں گا


شکستِ شیشۂ دل سے تو موت بہتر ہے


کوئی بتائے کہ کب تک یہ زہر چاٹوں گا


میں ایک شعلۂ احساس ہوں' اے شہر سکوت!


دماغ و دل بھی ہوئے منجمد تو بولوں گا


یہ تیرے ماتھے پہ تازہ شکن جو اُبھری ہے


اسی لکیر کے گرداب سے میں اُبھروں گا


ترے لبوں کے تبسم کے سرخ پتھر پر


میں اپنی روح کے لرزیدہ ہونٹ رکھ دوں گا






وہ میرے پاس بھی آ کر ستائے گا احمد


میں اُس سے دور بھی رہ کر دُعائیں ہی دوں گا


میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں









میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں


جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں






من مورکھ ہے' مت سمجھاؤ' کرنی کا پھل پائے گا


چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں






تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو


ترکِ تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں






جانے والے حد یقیں تک' ہم نے جاتے دیکھے ہیں


واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں






میں سوچوں کی جلتی دھوپ اور وہ تسکین کی گہری چھاؤں


میرا اس کا ساتھ ہی کیا ہے' سب کہنے کی باتیں ہیں






اک تجھ پر ہی کیا موقوف کہ سب ہی پیٹ کے ہلکے ہیں


کس کا ظرفِ دل گہرا ہے؟ سب کہنے کی باتیں ہیں






احمد اس کا چہرہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھاتا ہے


تیرے دُکھ میں وہ رویا ہے' سب کہنے کی 


باتیں ہیں




گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح




گراں ہے جنسِ وفا شہر میں خوشی کی طرح


پرانے دوست بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح






کبھی تو آئے گا چشمِ یقیں کے حلقے میں


بساطِ دل پہ جو اُبھرا ہے چاندنی کی طرح






کوئی چراغ نہ ہو جس کے صحن میں روشن


مرا وجود ہے اس شب کی تیرگی کی طرح






وہ ابرِ خاص کہ جس سے بڑی توقع تھی


دیارِ روح سے گزرا ہے اجنبی کی طرح






مری نظر میں کوئی منزلِ خرد نہ جچی


سدا سفر میں رہا ذوقِ گمرہی کی طرح






کچھ اور دور ہو مجھ سے کہ اور نکھرے گا


ترا شعور مرے فن شاعری کی طرح






تھے جتنے جسم کے عقدے وہ حل ہوئے احمد


لہو کی خاک بھی چھانی تو دشت ہی کی طرح




دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا






دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا


کتنے چہروں کے تبسم کا یہ مدفن ہوگا






تو اگر مجھ سے گریزاں ہے کوئی بات نہیں


کوئی چہرہ تو مرے قلب کی دھڑکن ہوگا






مجھ سے آئے گی تجھے شعلۂ کردار کی آنچ


میرے معیار پہ اُترے گا تو کندن ہوگا






نہ کوئی خواب' نہ تعبیر' نہ خواہش' نہ کسک


اتنا ویران کسی گھر کا نہ آنگن ہوگا






عمر بھر دُکھ کے الاؤ میں جلیں گے احمد


تن کے دوزخ کا غمِ زیست ہی ایندھن ہوگا





بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے







بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے


بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے


لفظ اخلاص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے


لبِ اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے


آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے


چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے




میں تجھے کون سے لہجے میں ملامت بھیجوں


اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے



میرے ہر جرمِ وفا سے ہے شناسا عالم


تیرے اخلاص کا احساس ادق ہوتا ہے



جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو


مطلعِ دل پہ عجب رنگِ شفق ہوتا ہے



کون محروم رہا خُلقِ وفا سے احمد


تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے




دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا









دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا


رات آنکھوں میں گزاروں تو سحر دیکھوں گا






اے غم زیست! کوئی موڑ بھی منزل کا نہیں


اور کب تک میں مسلسل یہ سفر دیکھوں گا






یہ جو ہر لمحہ دھڑکتی ہے مرے سینے میں


اس کسک کو بھی کبھی جسم بدر دیکھوں گا






مجھ کو تصویر کا بس ایک ہی رُخ بھاتا ہے


کس طرح سے ترا ویران نگر دیکھوں گا






اب تو اس خواب سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں


کب سراپا کو ترے ایک نظر دیکھوں گا






یہ مرا شہر ہے' اس شہر میں میں رہتا ہوں


کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا






اُفقِ شرق سے پو پھوٹ رہی ہے احمد


اب میں بستی کا ہر اک فرد نڈر دیکھوں گا



اندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں

















اندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں


ہم دیوانے لوگ ہنساتے پھرتے ہیں






چہرہ چہرہ ہر دل کی دیوار سے ہم


اپنے نام کے حرف مٹاتے پھرتے ہیں






شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ برگِ سبز


فصلِ بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں






وہ جو دل کو دل کی رحل پہ رکھتے تھے


اب ہم ان کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں






پہلے دھوپ کے لمس کو ہم نے برف کیا


اب ہم برف پہ پاؤں جلاتے پھرتے ہیں






اب تو اپنے سائے سے آئینہ لوگ


اپنا عیب ثواب چھپاتے پھرتے ہیں






احمد قحطِ سماعت سے دیواروں کو


تازہ غزل کے شعر سناتے پھرتے ہیں




Wednesday, October 26, 2016

اے زیست! سفر طے کتنا کریں


اے زیست! سفر طے کتنا کریں
اک روز تو مرنا پڑتا ہے



کٹ تو جاتی ھے ہر اک رات


کٹ تو جاتی ھے
ہر اک رات مگر
یوں کہ یہ دل
ایک بے جان سے پتھر کی طرح
رات بھر
وقت کی راہوں میں پڑا
آتی جاتی ہوئی یادوں کی ہر اک ٹھوکر سے
کچھ سفر کرتا ہے
کچھ تھک کے ٹھہر جاتا ہے


بہت بے ساختہ لکھتا ہے


بہت بے ساختہ لکھتا ہے
پھر لکھ کر مٹاتا ہے
مٹا کر یہ سمجھتا ہے
کہ اس نے
دل کی حالت کو عیاں ہونے سے روکا ہے
اسے معلوم ہی کب ہے
کہ جو دل پر گزرتی ہے
وہ حالت چھپ نہیں سکتی
اسے اظہار تک آنے میں کتنی دیر لگتی ہے
وہ کب روکے سے رکتی ہے
وہ رستہ ڈھونڈ لیتی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں
کبھی آہوں کی صورت میں
کبھی آنکھوں کی ویرانی سے ظاہر ہونے لگتی ہے
وہ ناداں جانتا کب ہے
اسے معلوم ہی کب ہے
کہ یہ دل ہے!
یہ اپنی بات کہنا جانتا ہے


‏دشمنِ جاں جیت کا جشن نہ منا سکا


‏دشمنِ جاں جیت کا جشن نہ منا سکا
‏زیرِ خنجر سرِمقتل ہم جو مسکرا دیے


کوئی بتائے کبھی لوٹ کر بھی آئیں گے


کوئی بتائے کبھی لوٹ کر بھی آئیں گے
گئے سموں کو جو آواز دے رہا ہوں میں



اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا


اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا
حالات کے گرداب سے نکلا نہیں جاتا
اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے
اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا



Tujy akely parhoo'n koi ham sabaq na rahy




Tujy akely parhoo'n koi ham sabaq na rahy
me chahta hun k tuj per kisi ka huq na rahy

mujy judai k mosam pe aitraaz nahi
mery dua hai k us ko b kuch qalaq na rahy

wo muj ko chor na deta to or kia karta
me wo kitaab hun jis k kai waraq na rahy

jo tera name kisi ajnabi k lub choomy
mery jabee'n pe ye mumkin nahi arraq na rahy

usy b ho gay muddat kitaab e dill kholy
mujy b yaad purany kai sabaq na rahy

wo hum se cheen k mazi b le gaya "Rana"
hum us ko yaad b karny k mustahiq na rahy




Tuesday, October 25, 2016

Mohammad Arif guides Behbud Boys Secondary School to victory in Omar Trophy Inter-School Cricket

Mohammad Arif’s fine all-round performance enabled Behbud Boys Secondary School to defeat Karachi Gymkhana Schoolboys XI by 76 runs in their Group G encounter of the Omar Trophy Inter-School Cricket Tournament 2016, being organized by the Pakistan Veterans Cricket Association (PVCA), at the Karachi Gymkhana Cricket Ground on October 23.


Electing to bat, after winning the toss, Behbud Boys Secondary School was all out for 176 in 38 overs, Karachi Gymkhana Schoolboys XI, in reply, was bowled out for 100 in 26.2 overs.

Behbud Secondary School got off to a flying start as the opening pair of Mohammad Farhan (29 off 41 balls) and Mohammad Usman (28 off 52 balls) added 56 for the first wicket. The momentum was sustained by number three Mohammad Arif who struck five boundaries in his 52-ball 39.

 Karachi Gymkhana Schoolboys XI fought back through the spin trio of Rameel Aftab (3-38), Hamza (2-25) and Mohib (2-34). Medium-pacer Mohammad Makki (2-15) cleaned up the tail as Behbud Secondary School lost their last five wickets for only 25 runs.

Chasing a target of 177 in 40 overs, Karachi Gymkhana Schoolboys XI was jolted by medium-pacer Mohammad Arif who accounted for both the openers cheaply. The damage could not be repaired with only Shaheryar (21off 20 balls) offering resistance against the steady Behbud Boys Secondary School bowling.

Left-arm spinner Shahzad (4-16) ran through the middle-order and the demolition job was completed by leg-spinner Farhan who claimed a couple of wickets for only one run off 1.2 overs. By routing Karachi Gymkhana Schoolboys XI for 100, Behbud Boys Secondary School emerged triumphant by a convincing margin of 76 runs with their all-rounder Mohammad Arif clinching Man of the Match award.


Monday, October 24, 2016

ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﻮﮦِﮔﺮﺍﮞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻠﺒﮯ ﺗﻠﮯ


ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﻮﮦِﮔﺮﺍﮞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻠﺒﮯ ﺗﻠﮯ

ﺻﺮﻑ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ




ﺳﺎﺭﯼ ﺩُﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ


ﺳﺎﺭﯼ ﺩُﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﯾﮧ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ







ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ؟


ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ؟

ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﺖ ﮐﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﮭﺎﺅﮞ



ﺗﯿﺮﯼ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺍﻗﺮﺍﺭ ___________ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﻟﯿﮯ


ﺗﯿﺮﯼ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺍﻗﺮﺍﺭ ___________ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﻟﯿﮯ

ﭘﮭﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﮮ،، ﺍﻧﮑﺎﺭ ،،ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮒ






ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﮧ ﺁﮨﭩﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ


ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﮧ ﺁﮨﭩﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ






ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﻮ


ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ



ﺍُﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮍﯼ ﺩُﮬﻮﭖ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﺭﺣﻢ ﻧﮧ ﮐﮭا


ُﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮍﯼ ﺩُﮬﻮﭖ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﺭﺣﻢ ﻧﮧ ﮐﮭﺎ
ﮔﺌﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﺧﻤﯿﺎﺯﮦ






ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﮯ ﮨﻮ



ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﮯ ﮨﻮ

ﺍﺗﻨﮯ ﺯﺧﻤﯽ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﻮ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ



Sunday, October 23, 2016

ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ


ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺳﺰﺍ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ





‏اس دل میں شوقِ دید زیادہ ہی ہو گیا


‏اس دل میں شوقِ دید زیادہ ہی ہو گیا 
‏اُس آنکھ میں مرے لئے انکار جب سے ہے





اے سوچوں کے طوفان


اے سوچوں کے طوفان 
گزر بھی جائو 
میری نیند کو رستہ دو


اِصرار نہ کر ' میرے خرابے سے چلا جا


اِصرار نہ کر ' میرے خرابے سے چلا جا 
مُجھ پر کسی آسیب کا دِل آیا ہُوا ہے


کبھی تُم کو ضد تھی کہ میں ملوں


کبھی تُم کو ضد تھی کہ میں ملوں 
کبھی میں بضد تھا کہ تُو ملے
یونہی دھیرے دھیرے ختم ہوا
یہ بھی سلسلہ، چلو خیر ہے


میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا


میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی



')