Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Tuesday, June 9, 2015

فلمیں شلمیں


پچھلے سے پچھلے ماہ اور پچھلے ماہ کے پہلے پندرھواڑے تک بجلی وافر مقدار میں ملتی رہی اور ہمیں مفت کا ایک وائرلیس نیٹ ورک بھی ملتا رہا تو اہم نے اسے رج کے استعمال کیا اور ڈھیر ساری فلمیں اتاریں۔ ان فلموں میں سے دو فلمیں جو یاد رہ گئیں وہ ان کی آپسی مماثلت ہے۔ سروگیٹس میں ایک سائنسدان ایسے روبوٹس ایجاد کرتا ہے جو انسانوں کے دوسرے جسم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ خود سارا دن ایک تابوت میں لیٹے رہیں اور آپ کا روبوٹ اوتار آپ کی جگہ کام کرے گا چونکہ اصل میں وہ بھی آپ ہی ہیں، وہی محسوسات اور ویسا ہی بلکہ طاقتور جسم۔ اس فلم کے آخر میں یہ سارا نظام اس کے خالق کے ہاتھوں ہی تباہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس فلم کا گنجا سا ہیرو پتا نہیں اس کا نام کیا ہے سارے انسانوں کو بچا لیتا ہے اور روبوٹ نظام قیں ہوجاتا ہے۔

دوسری فلم جو ہمیں بڑی پسند آئی وہ اوتار ہے۔ کہانی کی بنیاد وہی ہے ایک عدد ہیرو اور ایک عدد ولن۔ ایک ہیروئن اور اس کے گھر والے جن کو آخر میں ہیرو بچا لیتا ہے۔ اور ہاں ہیرو کی ٹریننگ بھی۔ لیکن جو چیز اس کی بہت اچھی تھی وہ ایک نئی دنیا تھی۔ آج کل کارٹون والے اور فلموں والے ایسی کہانیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جن میں غیر ارضی مخلوق کو دکھایا گیا ہو۔ آپس کی بات ہے یہ اچھی بھی بہت لگتی ہے۔ بہت دلچسپ، ہماری بھی اندر سے خواہش ہے کہ ایسی دنیاؤں کے بارے میں جانیں جو ارضی نہ ہوں۔ اس فلم میں اینی میشن اور حقیقی عکس بندی کو کچھ اس طرح ملایا گیا ہے کہ ایک شاندار منظرنگاری پر مشتمل فلم وجود میں آئی۔ ارے ہاں اس کی سروگیٹس سے مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ معذور ہیرو ان انسان نماؤں میں ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے سروگیٹس میں لوگ روبوٹس کو بطور متبادل جسم استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو صاحب ایک تابوت نما چیز میں لیٹ جاتے ہیں پھر اللہ تیری یاری ہیروئن کے ساتھ چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ ہیروئن کوئی اتنی "خوبصورت" نہیں تھی لیکن ہیروئن تو تھی نا۔ بہرحال فلم پسند آئی اور بہت ہی پسند آئی۔ بلکہ مجھے تو اتنی پسند آئی کہ میرا دل کیا کہ یہاں تبلیغ کرنے پہنچ جاؤں۔ الو کے پٹھے پتا نہیں کس کی عبادت کررہے ہیں اللہ میاں کی عبادت کریں۔ ہاں ان کے ہاں کعبے کا مسئلہ ہوتا لیکن وہ تو حل ہوجاتا جن محددات یعنی جتنے ارض بلد اور طولبلد پر کعبہ یہاں واقع ہے ایسا ہی وہاں بنا لیتے۔ کرنی تو عبادت ہے نا جی۔ ہائے ہمارا کتنا دل کرتا ہے ساری دنیا بلکہ ساری کائنات کو مسلمان کرلیں۔ اور خود آپس کے سیاپے ہی ختم نہ کر پائیں۔ 

خیر تُسیں چھڈو۔ یہ خبر پڑھو۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فلم بن جائے گی، سہ جہتی ہے نا اس لیے اس کا ٹکٹ بھی مہنگا بکتا ہے۔ چلو جی سانوں کی، ہمیں تو مفت مل جاتی ہے دیکھنےکو۔ اصل سواد تو دوسری تیسری قسط کا ہے۔ سنا ہے ہدائیتکار صاحب کہانی ہٹ ہوگئی دیکھ کر اب دوسری تیسری قسط کے لیے چھری کانٹا تیز کررہے ہیں۔ 



آخر نوازشریف نے سرزمین پاک کو چھو ہی لیا


سابق وزیر اعظم نواز شریف آج لاہور پہنچ گئے ہیں۔ مارشل لاء حکومت کے صدر پرویز مشرف کے سعودی عرب کے مختصر دورے میں نجانے کیا کھچڑی پکی ہے کہ نواز شریف کو واپسی کی اجازت مل گئی ہے۔ حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل کا ہی نتیجہ ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس بار سعودی عرب بھی امریکہ کے ساتھ اس ڈیل میں ملوث ہے۔ مارشل لاء حکومت تو ایسے لگتا ہے جیسے شترمرغ ریت میں سر دے لیتا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے بھی ایسے بیان آرہے ہیں کہ پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا ایجنڈا مختلف ہے۔


اب دیکھنا یہ ہے کہ ایجنڈا کیا ہے۔ حالات واقعی نو مارچ والے نہیں ہیں۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو ایک ڈگڈگی چاہیے تھی جو انھیں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی صورت میں مل گئی اور انھوں نے اچھی طرح بجا بھی لی۔ اب کی بار ان کے پاس الیکشن کی ڈگڈگی ہے۔ جسے بجا کر انھیں اصلی تے وڈا فائدہ مل سکتا ہے۔ چناچہ ہر کوئی دبے پاؤں الیکشن کی تیاری میں ہے۔ چند ایک سرپھرے ہیں جو ببانگ دہل بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ بلوچ پہلے ہی فوجی صدر سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کرچکے ہیں۔ عمران خان ابھی 'نواں آیاں اے سوہنیا' ہے۔ وکلاء کو اپنے چیف جسٹس کی فکر ہے چناچہ وہ تو تحریک جاری رکھیں گے ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اے پی ڈی ایم کی چھتری تلے نوازشریف کی طرف سے کیا حکمت عملی طے ہوتی ہے۔ آیا کوئی "درمیانی" راہ نکل آتی ہے یا۔۔۔۔۔بے نظیر نے تو آج کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے بیان دے دیا ہے کہ نواز شریف کی واپسی قومی مفاہمتی آرڈیننس کا نتیجہ ہے۔

موٹروے



موٹروے ویسے تو ایک سڑک کا نام ہے۔ لیکن مسافر کے لیے شاید یہ صرف ایک سڑک سے بڑھ کر ہے۔ موٹروے سے مسافر کا پہلا پہلا واسطہ دو سال پہلے پڑا۔ مسافر نے حسب معمول، جیسا کہ وہ ہر کام تاخیر سے کرتا ہے، دیر سے اپنے شہر سے نکلنا شروع کیا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں وہ کہانی بیان ہو چکی ہے۔ تو اس مجبوراً نکلنے کی وجہ سے پہلے تو وہ بذریعہ حیدرآباد جاتا رہا اور جب رزق کے معاملے میں اللہ کی رحمت بڑھی تو موٹروے سے واقفیت چل نکلی۔ تب سے ہر ہفتے حیدرآباد آنا جانا ہوتا ہے اور ہر ہفتے اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ پورے ہفتے میں ایک ہی قابل ذکر کام ہوتا ہے اور وہ حیدرآباد کا سفر ہے جس کے بہانے موٹروے سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ 

موٹروے سے مسافر کی واقفیت کوئی بہت قریبی نہیں۔ یہی جیسے دو اجنبی روز ایک دوسرے کے قریب سے گزریں تو جیسے اک بے نام سا ربط بن جائے، شناسا لیکن اجنبی چہروں اور آنکھوں کے اس تعلق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جیسے راستے کے ہر پتھر اور گڑھے کی عادت ہو جاتی ہے اور جب تک وہاں سے گزرتے جھٹکا نہ لگے کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی راستے میں ٹکرانے والے اجنبی چہروں کی عادت سی ہو جاتی ہے نظر نہ آئیں تو کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ موٹروے اور اس کے نشیب و فراز، اس کے راستے میں آنے والے درخت، پتھر، کھیت کھلیان، بے فکرے دیہاتی اور وسیع و عریض لینڈ اسکیپ مسافر کے ساتھ کچھ ایسی ہی واقفیت رکھتے ہیں یا شاید یہ صرف مسافر کی اپنی سوچ ہے اور یہ سب اسے دوسرے مسافروں جیسا ہی سمجھتے ہیں جو چلے جاتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے۔ لیکن اس سے بھلا فرق بھی کیا پڑتا ہے تعلق تو اندر کہیں ہوتا ہے سوچ میں باہمی اظہار چاہے نہ بھی ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔ 


موٹروے سے یہ تعلق جیسا بھی ہو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت مسافر کے اردگرد موٹروے بھاگ رہی ہے اور اس کے محسوسات لفظوں میں ڈھل رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے موٹروے کراچی جیسی ہے سرد مزاج اور روکھی، پروٹوکول اور فاصلے کی دلدادہ، شاید کراچی جاتی ہے اس لیے۔ شاہرہ پاکستان اس کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کالونی کے مقابلے میں محلہ ہو، عوامی، پر ہجوم، چہل پہل والا اور شور بھرا۔ شاہرہ پاکستان پر ہر کچھ دیربعد ایک شہر یا قصبہ آ جاتا ہے موٹروے پر یہی فرض اوورہیڈ پل سر انجام دیتے ہیں۔ شاہراہ پاکستان پر راستہ بنانا پڑتا ہے اور موٹروے پر راستہ گویا راہ دیکھتا ہے۔


موٹروے پر چڑھ کر یوں لگتا ہے گویا آپ اردگرد سے کٹ گئے ہیں۔ موٹروے کا ایک ڈیکورم ہے۔ ایک لمبی نیلی پٹی جو چلتی چلی جاتی ہے چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک الگ ہی دنیا۔ اس لمبی پٹی پر نظر رکھی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے منزل ہر لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپ کھڑے ہیں اور منزل قدم بہ قدم آپ کو گلے لگانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس پٹی پر نظر رکھیں تو جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر بورڈ، موڑ، انٹرچینج، ہیلپ لائن کے بوتھ اور دورانِ سفر آرام کے لیے جدید ترین سہولیات۔






لیکن صرف ہلکا سا زاویہ نظر تبدیل کرنے سے گویا دنیا بدل جاتی ہے۔ ذرا دائیں یا بائیں دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ نیلی پٹی ہی دنیا نہیں، ایک اور دنیا کے اندر بسی ہوئی ہے۔ ایک وسیع و عریض سبز لینڈ اسکیپ جس کے اندر کسی مصور نے بڑے سے برش سے یہ نیلی پٹی کھینچ دی ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان، درخت اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، تہذیب کے نشان چھوٹی چھوٹی بستیاں، گھر گھروندے اور آتے جاتے انسان۔ لیکن اس وسیع لینڈ اسکیپ کے سامنے سب کیڑے مکوڑے۔ موٹروے پر دوڑتی بس کی سیٹ نمبر پینتالیس پر بیٹھا مسافر اس وسعت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مصورِ کائنات کے ذوق ِ مصوری کا ہلکا سا ادراک ہوتا ہے اور اس کا دل سبحان اللہ پکارنے کو مچل اٹھتا ہے۔ کہیں سبز رنگ ہے، کہیں گہرا سبز، کہیں ہلکا سبز، کہیں مٹیالا رنگ ہے، اور کہیں سنہری۔ جیسا موسم ہے ویسا رنگ ہے، آج کل گندم کے خوشے لہراتے تھے، ہر ہفتے گندم کا رنگ گہرے سبز سے پھیکا پڑتا پڑتا سنہری مائل ہوتا گیا اور اتنا سنہری ہو گیا کہ زمین جیسے سونے کی ہو گئی۔ اور اب کسان یہ سونا اکٹھا کر رہے ہیں۔ کہیں پھر سے مٹیالا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اور کہیں ابھی یہ سنہری پن باقی ہے۔ کہیں پھر سے سبز شیڈ نمودار ہو جاتا ہے۔ اور مسافر کے منہ سے رنگوں کے اس خوبصور ت انتخاب پر موزوں الفاظ ِ تحسین بھی نہیں نکل پاتے۔






موٹروے صرف د و دنیاؤں کا نام ہی نہیں۔ یہاں ایک تیسری دنیا بھی پوری آن بان سے نمودار ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہے مسافر کے اندر کی دنیا۔ مسافر فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے ولا، خود ہی اندازے لگا کر خود ہی فیصلے کرنے والا ایک ایسا ریاضی دان جو دوسراہٹ کے نامعلوم متغیر کو اپنی ذات کی مساوات میں شامل کرنے سے کتراتا ہے۔ اس لیے صرف اپنے آپ کو ہی مساوات کے دونوں جانب رکھے زندگی گزار دیتا ہے۔ موٹر وے کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تنہائی مسافر کے اندر کی تنہائی سے مل کر دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک نیلی پٹی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، افق تا افق چلتی چلی جاتی ہے اور اس پر دوڑتا تنہا مسافر۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ، آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا وسیع منظر اور اس میں ایک نیلی پٹی پر دوڑتا تنہا مسافر، اور مسافر کے اندر کی تنہائی یہ سب مل کر بعض اوقات اتنی وحشت پیدا کر دیتے ہیں جیسے سانس کے لیے ہوا کم پڑنی شروع ہو جائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر باہر کی تنہائی سے شروع ہوتا ہے، جیسے درخت تلے کھڑے ہونے کے باوجود بھی بارش دھیرے دھیرے اپنا راستا بنا لے اور بھگونے لگے، ایسے یہ وسیع و عریض تنہائی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پھر جیسے مقناطیس کو مقنا طیس کشش کرتا ہے، مثبت کو منفی کھینچتا ہے ویسے باہر کی تنہائی اندر ایک ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اندر سے باہر کی جانب ایک سفر شروع ہوتا ہے اور جب یہ دو طرفہ سفر مکمل ہوتا ہے تو مسافر دوہری تنہائی کے حصار میں آ جاتا ہے۔






تنہا ہونے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو یا تو فطری طور پر تنہا ہو یا حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا ہو۔ تنہائی کسی بھی طرح وارد ہو مسافر کے تجربے میں طبعیت کی قنوطیت تنہائی کے لیے عمل انگیز ہوتی ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے اس خالی پن کو پوری کائنات پر نافذ کر دیتی ہے۔ ذات کی تنہائی اور باہر کی تنہائی مل کر اتنی بڑی تنہائی تشکیل دیتی ہیں کہ وحشت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ ایسے میں عجیب و غریب سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی تو یہ تنہائی اتنی پھیل جاتی ہے کہ آفاقی ہو جاتی ہے۔ مسافر کی تنہائی، راستے کی تنہائی، نسلِ انسانی کی تنہائی اور اس کرے پر موجود زندگی کی تنہائی۔ اتنی بڑی بڑی تنہائیاں کہ مسافر کی اپنی تنہائی ان کے سامنے ہیچ محسوس ہونے لگے۔ 






کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے موٹروے پر چڑھنا کسی مراقبے کی ابتدا ہو۔ مراقبہ بھی تو ایک خلا میں اترنے کا نام ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس خلا میں کوئی رہنما نہیں ہوتا ۔ تنہائی کوئی بھی ہو، اس تنہائی میں ایک دوسراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ پالنے والے کی ذات، جو خود کہتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ لیکن جب ریسیور ہی کسی قابل نہ ہو، جب آنکھیں بینائی سے محروم ہوں، جب ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں راستہ دکھانے والا کوئی نہ ہو، جب پتنگ کی ڈور کو قابو کرنے والا کوئی نہ ہو تو تو روح بیکراں تنہائی میں ادھر اُدھر ڈولتی رہتی ہے۔ اپنی ہی تنہائی کے احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی موہوم سا احساس ہوتا ہے کہ شاید منزل کی جانب سفر جاری ہے لیکن اکثر یہ سفر سہ جہتی خلا میں معلق جسم کی بے معنی حرکات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


موٹر وے اکثر مجھے ایسی کیفیات میں لے جاتی ہے۔ اور میں ان کے سامنے بے بس ہوتا ہوں۔ اس کا منطقی نتیجہ میرے لیے یہی ہوتا ہے کہ سارا بِس کاغذ پر اتار دوں ورنہ میرا اندر سلگ سلگ کر خاک ہو جائے۔ ڈیڑھ ہزار الفاظ کی یہ بک بک شاید بلا مقصد لگے، لیکن مجھے ایک بات کی خوشی ہوتی ہے کہ موٹر وے اتنی طویل نہیں ہوتی کہ میں اپنی ذات کی تنہائی میں اتنا گہرا اتر جاؤں کہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔

کرسمس کرسمس



ہر سال کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو گیا جس سے خبردار کرنے کے لیے باقاعدہ فتوے جاری کرنے پڑے. پر فتوے والوں نے خود ہی فتوے لگا لگا کر ان کی حیثیت گھٹا ڈالی ہے. ہر کروٹ پر فتوی ، بسیار گوئی کا کوئی تو نتیجہ نکلنا تھا. 


ایک اور ٹرینڈ فیس بک کا چل نکلا ہے وہاں ایمان بچاؤ برگیڈ ہر ایسے موقع پر سرگرم عمل ہو جاتا ہے. ماشاءاللہ عظیم لوگ ہیں اور نیک نیت رکھتے ہوں گے. میرا مقصد یہاں یہ ان وجوہات کو قلم بند کرنا ہے جو مجھے کرسمس کی مبارکباد دینے پر مجبور کرتی ہیں. 


اول تو یہ کہ قرآن و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں غیر مسلموں کو ان کے تہواروں کی مبارکباد دینےکی ممانعت مجھے نظر نہیں آتی. یار لوگ چند قدیم ملاؤں کے اقوال پیش کرتے ہیں اور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی والی حدیث (جو اکثر معاملات پر فٹ کی جاتی ہے مثلاً پینٹ شرٹ ). یہاں مبارکباد باد دینے سے کس مشابہت کا خدشہ لاحق ہوتا ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں.


کچھ لوگوں نے نقطہ اٹھایا کہ نبی پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم.نے تو مبارکباد نہ دی. کچھ تحقیق سے معلوم ہوا کہ تب تو عیسائی گنتی کے چند لوگ تھے مدینہ اور مکہ میں. مثلاً اماں خدیجہ کے کزن. اسی طرح مدینہ کے اسلام دشمن عیسائی کا ذکر ملتا ہے عامر نامی شاید. یعنی اس وقت اولاً تو عرب میں عیسائی تھے نہیں یا کم تھے ، ثانیاً یہ رسم ابھی اتنی مقبول نہیں ہوئی تھی کم از کم عرب کے عیسائیوں میں جو اکثر راہب ہی بنے. اس کے برخلاف نجران یا جو بھی مقام تھا ، کے عیسائی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو مسجد نبوی میں قیام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی. یعنی نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم.ان کی دلجوئی کا اتنا خیال تھا. 


پھر دلیل یہ بھی دی گئی کہ کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا نعوذ باللہ اور پیدائش مسیح علیہ اسلام پر ساری بحث کہ تاریخ پچیس دسمبر نہیں. میرے پاس تو بس یہ وجہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے. میری نیت یہ ہے کہ اسلام کا اچھا تاثر جائے اور مجھ میں جتنا بھی رتی بھر اخلاق اور رواداری اس عمل سے انہیں نظر آتی ہے اسے دیکھ کر شاید وہ اسلام کی جانب مائل ہوں. جیسے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم.کا طرز عمل تھا.


میرے ایک عیسائی کولیگ کئی برس سے ہر عید پر مبارکباد دیتے ہیں. بطور مسلمان نہ تو مجھے ادھار رکھنا پسند ہے اور نہ ہی میرے پیشوا رحمت اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ شفقت و رحمت کا سلوک روا نہ رکھا جائے. چنانچہ میں بھی عیسائی بھائی بہنوں کو کرسمس کی مبارکباد دوں گا اور انشاء اللہ یہ عمل مرتے دم تک رہے گا. 


نبی سائیں صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ سب انسان برابر ہیں. عیسائی مسلمان بھی برابر ہیں. چنانچہ میرا فرض ہے کہ بطور مسلمان یہ رویہ نہ دکھاؤں کہ میں تو چنیدہ مخلوق ہوں اور وہ جسٹ اینی باڈی. اللہ کرے یہ طرز عمل سب اختیار کریں اور اسلام کا پیغام محبت سے غیر مسلموں میں پہنچے. تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور اسلام قبول کریں



‏یادیں



یہ یاداں بھی سالی عجیب ہوتی ہیں۔ بےوقت کی راگنی کی طرح بھیرویں شروع کر دیتی ہیں۔ چلتے چلتے اچانک ٹھوکر لگ جانے کی طرح ، کہیں سے اچانک کوئی ہاتھ آ کے چٹکی بھرتا ہے اور یاداں گھوڑے کی طرح بدک اٹھتی ہیں۔ پھر لاکھ سنبھالو نہیں سنبھلتیں۔ زنجیری تعامل جو شروع ہوتا ہے تو ایک کے بعد دوسری ، تیسری چوتھی ۔۔۔اور پھر یاداں کی ایٹمی چھتری پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سارا حال ماضی کی دھول میں اٹ جاتا ہے۔ غائب حاضر اور حاضر غائب بن جاتا ہے۔ ان دکھی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، لوگ، چیزیں ، موسم ، وقت سب کچھ :حقیقت اور غیر حقیقت ایسے ملغوبہ بن جاتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جانے وا لوں کے چہرے تو کبھی بھولتے ہی نہیں، لیکن جب یاداں کا ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو گویا جانے والوں کے آسیبی وجود عدم سے وجود میں آ جاتے ہیں۔ ابھی یہاں کچھ نہیں تھا، اور ابھی وہ چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔ ہنستا، کھیلتا، گاتا، جیتا، جاگتا، وجود جو اس عدم اور وجود کے درمیان برزخ میں کبھی نابینا آنکھوں کے لیے بینا ہو جاتا ہے کبھی پھر سے ان دیکھے پردوں کے پیچھے اوجھل ہو جاتا ہے۔

یاداں بڑی ظالم ہوتی ہیں ۔ روتے روتے ہنسا دیتی ہیں اور ہنستے ہنستے رُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یاداں ماضی ہی کیوں ، مستقبل بھی تو یاداں میں آ سکتا ہے ۔ یہ شاید ایسا ہی لگے جیسے مچھلیوں کا اڑنا، آگ کا ٹھنڈا کرنا اور بھینسوں کا درخت پر چڑھنا لگے۔ جیسے آگ کا کام جلانا ہے ویسے ہی یاداں کا کام ماضی کو حال میں واپس لانا ہے۔ لیکن یاداں میں آگ کی سی اضافی خاصیت ۔۔ان کو دو دھاری بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں آگ جلاتی ہے اور شدید ٹھنڈک بھی جلاتی ہے ایسے ہی یاداں بھی کرتی ہیں۔ خوشی بھری ہوں یا دکھ بھری، سر پر سوار ہو جائیں تو آنسوؤں کی بھینٹ لے کر ہی ٹلتی ہیں۔ 


انسان بھی عجیب مخلوق ہے، حال میں رہتے ہوئے ماضی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، اس لیے یاداں کو ایسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے جیسے کوئی محبت کے پہلے تحفے کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ ساری عمر یاداں کے پودے کو اپنی ذات پر سینچتا ہے، اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یاداں امر بیل ہیں، جیسے جیسے عمر گزرتی ہے یاداں کا درخت تناور ہوتا چلا جاتا ہے اور جان کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہستی کے درخت کے ساتھ یاداں رہ جاتی ہیں اور چند سوکھے پتے۔ پھر بلاوا آ جاتا ہے اور یاداں ۔۔۔پتا نہیں یاداں یہیں رہ جاتی ہیں، مٹی میں مل جانے کے لیے یا آگے پاس آن ہو جاتی ہیں ایک لامتناہی دنیا میں ۔۔۔جہاں کسی چیز کا کوئی انت نہیں دکھ اور خوشی کا بھی نہیں شاید۔



حجاب، نقاب ہم اور ہمارے رویے


ایک عرصہ ہو گیا میں 'موسمی' موضوعات پر لکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ جب سارے اردو بلاگر ایک موضوع کو لے کر اس کی مٹی پلید کر رہے ہوتے ہیں اس وقت میری خواہش ہوتی ہے کہ کچھ مختلف لکھا جائے۔ خیر لکھنے والی بات بھی نوے فیصد جھوٹ ہی ہے کہ میں اکثر ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں جو مہینوں بعد کچھ لکھتا ہے۔ لیکن بلاگر ہونا شرط ہے، لکھا تو کبھی بھی جا سکتا ہے۔ آج کل کا اِن موضوع حجاب،نقاب وغیرہ ہے۔ ایک طرف یار لوگوں نے عالمی حجاب ڈے وغیرہ کی ڈفلی اٹھائی ہوئی ہے، دوسری طرف سے زبردستی مسلمان کروانے وغیرہ کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اور اس دوران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے تبصرہ نگار ایسی بلاگ پوسٹوں پر طنزیہ لہجے میں براہ راست ہتک آمیز تبصرے بھی کر رہے ہیں۔

خیر یہ تو ہماری قومی عادت ہے کہ برداشت نہیں کرنا، تصویر کا ایک ہی رخ لے سامنے رکھ کر چلائے چلے جانا اور "میں نا مانوں" کا نمونہ اکمل بنے رہنا۔ میں نے سوچا موضوع اِن ہے تو ہم بھی اڑتے کیچڑ میں دو چار پتھر پھینک لیں۔ کروانے تو کپڑے ہی گندے ہیں، ویسے بھی برسات ہے تو چلن دیو۔

میرے حساب سے حجاب نقاب جس کی آج بات کی جا رہی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اول جو اس پیرے میں زیر بحث آئے گا، وہ ہے یورپی ممالک میں مسلمان خواتین پر ہونے والی سختیاں (بسلسلہ حجاب) جن میں حکومتی اقدامات سے لے کر نسلی امتیاز تک ہر چیز شامل ہے۔ دیکھیں جی ہر کسی کو اس کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور یورپی مسلمانوں کو یہ اجازت نہ دے کر انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ میرا اس سلسلے میں مزید کوئی خیال نہیں، بس اتنا خیال ہے کہ اوکھے دن ہیں لنگھ جائیں گے۔ حجاب کے متعلق آگاہی پھیل رہی ہے، اس کے حامی بھی ظاہر ہے یورپیوں میں ہوں گے، کرنا یہ ہے کہ اپنی آواز پر امن انداز میں شانتی اور سکون سے بلند کی جائے۔ اور اللہ کی مہربانی سے وہ وقت بھی آئے گا جب انسانی حقوق کے یہ بزعم خود علمبردار حجاب کی اجازت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہاں جب تک وہ سختی کرتے ہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے نا جی، اسے پتا ہے کہ مسلمان بے بس ہیں تو اس کی ذات معاف کرنے والی ہے۔ کوشش کرنا ہمارا فرض اور باقی اللہ سائیں راہیں سیدھی کرنے والا۔ چناچہ لگے رہو بھائیو حجاب ڈے مناؤ، اور اپنا موقف ان کے کانوں تک پہینچاتے رہو۔۔۔۔


لیکن تہاڈی مہربانی ہے مسلمانوں کو مسلمان نہ کرو۔ خدا کا واسطہ ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کس حجاب کے نفاذ کا زور و شور سے مطالبہ ہو رہا ہے۔ پچھلے پانچ سو برس سے یہ علاقہ، اور اس کے باشندے جو مسلمان ہیں، اور ان کی روایات اور ثقافت اسلام اور مقامیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں پردہ تب سے رائج ہے جب سے اسلام یہاں ہے۔ میری والدہ، نانی اور خالہ ایک اڑھائی گز کی چادر سر پر لیا کرتی تھیں۔ اور آج بھی میں نے انہیں وہی چادر لیے دیکھا ہے۔ نانی اور خالہ کو زمینوں پر کھانا دینے جانا ہوتا تھا، اور وہ اسی چادر میں جاتی تھیں۔ جسے اوڑھنی کہتے ہیں۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اور کیا چاہیئے کیا زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیں عورتوں کو؟ سر تا ییر برقعہ اوڑھا کر کام کیسے کرواؤ گے بھائی؟ ہمارے بہادر تو یہ چاہتے ہیں کہ عورت کے ہاتھوں پر بھی دستانے ہوں۔ صدقے جاؤں ایسے اسلام کے اسی نے بیڑے غرق کیے ہیں۔ رونا روتے ہیں یورپیوں کی انتہا پسندی کا خود ان کے استاد ہیں اس معاملے میں۔ برداشت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہیں، مار دو، کاٹ دو، قتل کر دو، جو'اہل ایمان' نہیں اسے اڑا دو۔ اور اہل ایمان کی اپنی تعریف ہر کسی کی۔ اللہ جماعت اسلامی کو ہمیشہ اقتدار سے دور رکھے، آمین۔ ضیاء الحق کے رفقاء میں شامل رہنے والے یہ لوگ نان ایشوز کی سیاست بڑے ول انداز میں کرتے ہیں۔ پاسپورٹ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو، پارلیمان کی ویب سائٹ پر تصویر میں کلمہ نظر نہ آ رہا ہو یہ سب سے آگے اور اب حجاب کو آئین میں لازم قرار دیا جائے۔ پہلے مجھے کوئی یہ بتائے گا کہ کونسا حجاب؟ میری والدہ، ان کی ماں، ان کی ماں کی ماں اور ان کی دس نسلوں سے جو اوڑھنی چلی آ رہی ہے، یا شٹل کاک برقع جو افغانستان سے درآمد ہوا ہے، یا عربی اسٹائل حجاب، یا سعودی اسٹائل فل سائز برقعے۔ کونسا حجاب سائیں؟ یہ کدھر کو چل پڑے ہیں، ہر چیز کو مسلمان بنانے پر تلے ہیں۔ کراچی کا گھنٹہ گھر گرا نہ سکتے تھے اس لیے کلمہ لکھ کر مسلمان کر لیا۔ عمارتیں، نشانات، آثار یا تو مٹا دئیے یا 'مسلمان' کر لیے۔ یہی کام مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ یا تو مسلمان کر لیے، جو'رافضی'، 'کافر' وغیرہ بچے انیہں زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ واہ بھئی، صدقے اس اسلام کے۔ صدقے۔


آخری بات عرض کرتا چلوں، کہ آج نوجوان لڑکیاں چادر یا اوڑھنی والا نقاب نہیں برقعے والا نقاب کرتی ہیں۔ اس کی وجہ اسلام ہائپ تو ہے ہی، معاشرتی عدم تحفظ بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اسلام اسلام کرنے سے اوپر اوپر تو ملمع چڑھ گیا ہے، اندر کی بےغیرتی نہیں گئی۔ جب تک یہ بے غیرتی نہیں جائے گی حجاب چھوڑ کر نماز پڑھنے کا آرڈیننس بھی جاری کروا دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔



مقابلے بازی



کراچی کے لوگوں میں ایک بڑی گندی عادت ہے۔ خصوصاً متوسط اور اس سے نچلے طبقات میں کہ کسی کو کھاتا ہوا کم ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یا تو حسد کرنے لگتے ہیں یا پھر اس کے مقابلے میں کام شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں علم لاہور یا دوسرے صوبوں اور شہروں میں کیا صورت حال ہے۔ لیکن میں نے اپنے شہر میں کئی بار اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک ریڑھی والا دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا، ایک دوکاندار دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا۔ اگر ایک کا کاروبار چل پڑا ہے تو اس کے سامنے یا بالکل ساتھ ایک حریف آکر بیٹھ جائے گا۔ اور اس کا واضح مقصد یہی ہوگا کہ اس بندے کے گاہک توڑے جائیں۔


ابو جی ناشتہ لگایا کرتے تھے، تو اس آٹھ نو سالہ دور میں کئی بار حریفوں سے پالا پڑا۔ کچھ لوگ عرصے تک ٹکے رہے، کچھ چند دن بعد ہی بھاگ جایا کرتے تھے۔ اس ساری صورت حال میں گھر میں بہت ٹینشن ہوا کرتی تھی۔ ایک ریڑھی والے کی محدود سی آمدن میں اگر کوئی حصے دار بن جائے تو اس کے لیے تو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر یہی ہوگا۔ مجھے یاد ہے ابو کا رویہ تلخ ہو جایا کرتا تھا، میرا دل وسوسوں سے بھرا ہوا رہتا تھا اور امی جی کے چہرے پر خدشات کے سائے گہرے ہوتے چلے جاتے تھے۔ وہ دن گزارنے بہت اوکھے ہوتے تھے۔ آج بھی وہ دن یاد آجائیں تو بے چینی پیدا کر دیتے ہیں۔


انہی دنوں کی ایک یاد ایک موٹے ریڑھی والے کے شروع کے دن بہت تناؤ والے تھے۔ اس نے ہمارے اڈے سے صرف دس میٹر دور آخر ریڑھی لگا لی تھی۔ شروع شروع کے چند دن اس کے بعد کوئی گاہک نہیں آتا تھا۔ تو وہ اور اس کا میرا ہی ہم عمر بیٹا، ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے رہتے اور دیکھتے رہتے۔ کہتے ہیں نظر تو پتھر پھاڑ دیتی ہے، تو وہ نظریں مجھے بہت تناؤ کا شکار کر دیتی تھیں۔ اللہ اس بندے کے رزق میں برکت دے، وہ سال یا زیادہ عرصہ وہاں رہا، اور پھر کاروبار کی مندی کی وجہ سے چھوڑ گیا۔


اب تو اللہ سائیں کی رحمت ہے، رب کا شکر ہے، وہ دن لد گئے اب ہم ہیں اور دوسرے غم ہیں۔ ابو جی دوکان کرتے ہیں۔ لیکن مجھے وہ دن پھر سے یاد آجاتے ہیں، خاص طور پر مقابلے پر بیٹھے ویلے دوکاندار کی گھوریاں۔ ہمارے گھر کے سامنے چوک ہے، اس میں ایک تکے والا ہے، کراچی تکہ شاپ۔ وہ قریباً دس سال سے یہاں کاروبار کر رہا ہے۔ اس سارے عرصے میں اس نے اپنا معیار بنایا ہے، اپنی ریپوٹیشن بنائی ہے اور گاہک اس کے پاس دور دور سے آتے ہیں۔ اگرچہ یہ دوکان مین روڈ پر نہیں، لیکن پھر بھی وہ اچھا خاصا کما لیتا ہے، کئی ایک نوکر رکھے ہوئے ہیں اور خوشحال ہے۔ اس کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار بشیر سویٹس ہوا کرتی تھی۔ بشیر مٹھائی والا مر گیا تو اس کے تین بیٹے اس کو چلاتے رہے۔ اس کے بعد کوئی چار سال پہلے انہوں نے بند کر دی مٹھائی کی دوکان۔ لیکن کوئی پانچ سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ مٹھائی والے اس تکے والے کے مقابلے میں تکے والوں کو اپنی دوکانیں کرائے پر دیتے ہیں۔ کبھی ان سے شراکت داری کر کے کبھی ویسے کرائے پر۔ اور میں نے ہر بار یہ مقابلے باز تکے والے بھاگتے ہی دیکھے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں کوئی چار تکے والے مقابلے پر آچکے ہیں۔ بڑی شان و شوکت سے سامان آتا ہے۔ بلب سجتے ہیں، میز کرسیاں بچھتی ہیں اور رنگ و روغن کروا کے پھر سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔ لیکن ایک دو ماہ میں سب ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جتنی آمدن کی توقع کر رہے ہوتے ہیں اتنی آمدن ہوتی ہیں، اور اخراجات بڑھ جانے پر بھاگ جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پنجاب والے کے پاس کیا جادو ہے، اس کا گاہک بہت ہی کم ٹوٹتے دیکھا ہے میں نے۔ اور سامنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے سے ہی لگ رہا تھا کہ نیا مقابلے باز آرہا ہے، رنگ و روغن ہوا، سامان آیا اور عید والے دن سے تکے کی دوکان کھل گئی۔ اور اب میں پچھلے دو تین دن سے رات بارہ بجے کے قریب سونے سے پہلے باہر نظر ماروں تو وہ اور اس کے کارندے ویلے بیٹھے سامنے تک رہے ہوتے ہیں جہاں کراچی والے کے پاس اور کچھ نہ سہی تو دو چار گاہک تو ہوتے ہی ہیں۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ یہی صورت حال رہی تو یہ بھی بھاگ جائے گا۔


مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر لوگوں کے پاس مقابلے بازی کا جگرا نہیں ہوتا تو مقابلے پر آتے ہی کیوں ہیں۔ شاید جدید کاروباری اخلاقیات میں ایسے متھے پر دوکان کھول لینا کچھ برا نہ ہو، بلکہ یہ کسی کا بھی حق ہے کہ جہاں بھی چاہے جو بھی چاہے کاروبار کرے۔ لیکن میرے خیال سے یا تو آپ کے پاس اتنا وقت اور روپیہ ہونا چاہیے کہ آپ مقابلے بازی کر سکیں۔ یا آپ اتنے سے کام شروع کریں کہ ویلا بھی رہنا پڑے تو اخراجات تنگ نہ کریں۔ لیکن اگر آپ ایک چلتے کاروبار کے سامنے اچھی خاصی سرمایہ کاری کرکے بیٹھ جائیں کہ پکی پکائی مل جائے گی تو یہ خام خیالی ہے۔ اور اخلاقی طور پر تو میرے خیال میں آمنے سامنے ایسے دوکانداری شروع کرنی ہی نہیں چاہیے۔ کوئی چار دوکانیں چھوڑ کر کام شروع کرنا چاہیے اور اپنا نام بنانا چاہیے نہ کہ دوسرے کے کام سے چوری کرنا یا لوٹنا، میرے لیے تو یہ ڈکیتی ہی ہے جو نیا دوکاندار پرانے کے گاہکوں پر کرتا ہے۔



کڑوا کڑوا تھُو تھُو


مسلمان بلکہ پاکستانی مسلمان اللہ میاں کی بھیڑیں ہیں۔ جس طرف ایک میں میں کرتی چل پڑے دوسری اس کے پیچھے سر جھُکائے بیں باں کرتی چل پڑتی ہیں آگے والی چاہے کھائی میں جاگرے لیکن پیچھے والی پھر میں باں باں کرتی پیروی کرتی جائیں گی حتی کہ کھائی میں خود بھی نہ گر جائیں۔


فیس بُک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے سلسلے میں ایک گروپ بنا اور لوگوں نے اس پر احتجاج شروع کردیا۔ کسی نے اس کے خلاف گروپ بنایا، کسی نے ہولوکاسٹ کے گروپ کو جوائن کرلیا، کسی نے اس پیج کے خلاف رپورٹ کی اور کسی نے فیس بُک ویسے ہی چھوڑ دی۔ اس کے بعد اسلام کے ٹھیکیداروں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کورٹ نے فیس بُک کو بلاک کروا دیا۔ اس فیصلے کی آڑ میں حکمرانوں نے یوٹیوب کو بھی بلاک کردیا، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس پر بھی توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مواد موجود ہے۔ جتنا مواد موجود ہے وہ اچانک ہی یاد آگیا انھیں ورنہ یہ کونسا نئی بات تھی۔ اصل سیاپا تو ان ویڈیوز کا تھا جو میرے جیسے کمی کمین یوٹیوب پر اپلوڈ کردیتے تھے جن میں ان وزیروں مشیروں کے کچے چٹھے اور گندے پوتڑے دھوئے گئے ہوتے تھے۔ اصل سیاپا تو یہ تھا توہین رسالت کا تو نام لگا ہے بس ،اور مولوی بھی بے چارے مفت میں بدنام ہوگئے۔


اب یاران نکتہ داں اور نکتے نکال رہے ہیں کہ وکی پیڈیا پر بھی یہی کچھ موجود ہے اسے بھی بلاک کردو۔ اس کے بعد گوگل کو بھی بلاک کردیا جائے، یاہو کو بھی اور بنگ کو بھی۔ اور بلاگنگ کی ویب سائٹس کو بھی، کہ اس کے خلاف بھی بہت سے لوگ بہت عرصے سے سڑ رہے تھے کہ یہ کمی کمین انٹرنیٹ پر جاکر بکواس کرلیتے ہیں اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، وہ ذریعہ بھی بند کیا جائے۔


میرے یار پاکستانی فیس بُک اور اسلامی فیس بُک کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور میں حیران ہورہا ہو کہ اے کھلدی کیوں نئیں۔ یار کھلے تو صحیح کہ میں یار کا نظارہ تو لوں کہ کیسے نظر آتے ہیں میرے سرکار۔ لیکن دو دن سے میں اس کے ربط pakfacebook.comپر جاکر اور انتظار کر کر کے پرابلم لوڈنگ پیج کا ایرر دیکھ کر واپس آجاتا ہوں۔ آج سے چند برس قبل جب پیپسی اور کوکا کولا کے خلاف مہمات چلیں تھیں تو مسلم کولا اور اس طرح کے کئی "مسلم" ڈرنک منظر عام پر آگئے تھے۔ ہم نے بھی دو ایک بار مذہبی جذبے سے لا کر اسے پیا لیکن اسے مستقل پینے کے لیے مجنوں ہونے کی ضرورت تھی جس کی لیلی کالی بھی اسے گوری لگتی تھی ۔ہم مجنوں نہ ہوسکے چناچہ اس دوسرے درجے کے ڈرنک کے عادی نہ ہوسکے اور جتھے دی کھوتی اوتھے آکھلوتی کے مصداق پھر کوکا کولا اور پیپسی پر واپس آگئے۔ مسلم کولا بھی ایک دن اپنی موت آپ مرگیا اور اب عرصے سے اس کا نام تک نہیں سنا ۔ اس ساری رام کہانی کا مقصد یہ تھا کہ صرف کی جھاگ کی طرح ہماری ایمانی جھاگ بہت چڑھی ہوئی ہے آج کل اور مسلم و پاکستانی فیس بُک کے نعرے لگ رہے ہیں، منہ سے کف اُڑ رہے ہیں لیکن میں شرط لگانے کو تیار ہوں چند ماہ میں یہ سب برابر ہوجائے گا اور سب ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے اپنے کاموں پر لگ جائیں گے۔ پاکستانی فیس بُک والے پھر مکھیاں مار رہے ہونگے اور اصلی یہودیوں والی فیس بُک پھر سے جلوہ گر ہوگی۔


بات تو یہ ہے نا سائیں کہ اپنے پلے کچھ ہوبھی۔ ہمارے پلے ٹکا بھی نہیں اور ہم چلے ہیں فیس بُک کے مقابلے کی ویب سائٹ بنانے۔ اتنی تو ہماری اوقات ہے نہیں کہ فیس بُک پر جاکر چار پیسے ہی کما لیں۔ اپنی ویب سائٹ کی پروموشن کروا لیں مفت میں، اس کے لیے ٹریفک جنریٹ کروا لیں۔ یہ اپنی فیلڈ سے متعلق گروپس جوائن کریں، فیلڈ کے ماہرین سے رابطے میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے مواقع پیدا کرلیں۔ ہماری تو اڑان اتنی ہے کہ فیس بک پر جاکر مافیا وارز کھیل لیں، قسمت کا حال بتانے والی ایپلی کیشنز کو سبسکرائب کرا لیں، فی میلز میں انٹرسٹڈ ہوں، جو کڑی نظر آئے فٹ اسے ایڈ کرلیں حتی کہ اس کے دوستوں کا کھانہ فُل ہوجائے اور اس کے بعد بھی میرے جیسے باز نہ آئیں مسلسل ایڈ کرنے کی کوششیں فرماتے رہیں کہ کبھی تو ایڈ ہوگی ہی۔


یو ٹیوب پر پابندی لگ گئی ہے، تو ایک عدد پاکستانی یوٹیوب بھی بنا لیں۔ کے خیال ہے جناب دا؟ لیکن وہی بات پھر سائیں کہ اوقات تو ہماری اتنی ہے کہ یو ٹیوب پر بھارتی اور انگریزی گانے تو سن سکتے ہیں جاکر ہم لیکن اتنا نہیں کرسکتے کہ اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کے متعلق ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کریں۔


جتنی اوقات ہوتی ہے تو رب سائیں بھی اتنا ہی دیتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ چھتر پڑیں اور لگاتار پڑتے ہی جائیں۔ ہم چیخیں چلائیں بھی لیکن پھر بھی پڑتے چلے جائیں۔ ایک طرف چھتر یہ پڑے کہ فیس بُک پر توہین رسالت ہو اور ہم بس ٹاپتے رہ جائیں اور اس پر پابندی لگوا دیں۔ جس کے نتیجے میں اگر کوئی مثبت کام اس کے ذریعے ہوبھی سکتا تھا تو وہ بھی نہ ہوسکے۔ یو ٹیوب پر پابندی لگوادیں تاکہ سیاستدانوں کے سیاہ کارنامے تو نظر نہ آسکیں لیکن تعلیم سے متعلق جو کچھ وہاں تھا وہ بھی جاتا رہے۔ ابھی وکی پیڈیا پر پابندی باقی ہے وہ بھی لگی کے لگی اب۔ رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ جن کو اسائنمنٹ بنانے کے لیے یہاں سے مواد مل جاتا تھا وہ بھی گئے۔


لیکن آپ فکر نہ کریں ورلڈ سیکس ڈاٹ کام ابھی بھی کھلتی ہے یہاں، دیسی بابا ڈاٹ کام بھی کھلتی ہے۔ چناچہ تفریح جتنی مرضی کریں اور "اصلی تے وڈی" تفریح کریں۔ باقی تعلیم و ترقی کا کیا ہے سالی ہوتی ہی رہے گی۔ پہلے باسٹھ سالوں میں ہم نے کیا کرلیا جو اس انٹرنیٹ سے ہم نے کرلینا تھا۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ حکومت پاکستان پی ٹی وی کی طرح ایک انٹرنیٹ براڈکاسٹنگ سروس بنا لے اور پاکستان میں صرف یہ ویب سائٹ کھلا کرے۔ جو سب کچھ ہرا ہرا دکھائے، جہاں صدر، وزیر اعظم و ہمنواؤں کی روزانہ کی لمحہ لمحہ رپورٹ نشر کی جائے۔ ان کی تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کی جائیں، جلسے جلوسوں میں عوام کا جوش خروش دکھایا جائے۔ باقی سب کچھ ہی بلاک کردیا جائے تاکہ عوام جو خراب ہورہی تھی، فیس بک پر وقت ضائع کرتی تھی، یوٹیوب پر انڈین گانے سنتی تھی اور بلاگز پر جاکر بکواس کرتی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی گھر بیٹھے اور شانتی کے شربت پیے۔

جیے پاکستان، جیے پاکستان کے ٹھیکے دار
جیویں اسلام کے ٹھیکے دار

اور اسلام کی خیر ہے، اس کا ٹھیکہ ویسے بھی اللہ نے لے رکھا ہے چناچہ اس کی کوئی فکر نہیں۔ 


')