چند الفاظ کی بس ردّ و بدل ہوتی ہے
پھر وہ جس کی ہو غزل میری غزل ہوتی ہے
میری پھونکوں نے بجھائے کبھی حسرت کے چراغ
میں نے بے فیض کئے فیض کے مینا و ایاغ
پھول کی پتّی سے ہیرے کا جگر کاٹا ہے
میرے کنجشک نے شاہیں کا لہو چاٹا ہے
میں نے چھُپ چھُپ کے اُڑائے ہیں اثر کے ٹکڑے
میرے اشعار میں ہوتے ہیں جگر کے ٹکڑے
دشتِ رومان میں سلما کا سہارا لے کر
ڈھونڈا اختر کو چراغِ رُخِ زیبا لے کر
Eminent
ReplyDelete