ٹوٹے پھوٹے الفاظ
پھیلتی رات کے گہرے ہوتے سائے ۔۔ چمکتا چاند۔۔۔
کہیں اِکا دُکا ستارے مگر بہت مدھم سے نہ ہونے کے برابر ہوں جیسے
ہوا میں نمی سی ہے
شائد کہیں پھر سے بارش برس رہی ہے
اور میں یہاں کھلے آسمان کے بیچ و بیچ لیٹی پھر سے کشمکس میں مبتلا ہوں
کچھ ہے اندر ہی اندر سے بہت بری طرح کاٹ رہا ہے
کچھ چبھ رہا ہے مگر
اب سوچتی ہوں کہ بس _____
اففففف یہ پانی کے ٹپکنے کی آواز بھی عجیب سماع خراشی کا باعث بن رہی ہے
وہ سامنے دیوار پہ بیٹھی بلی نجانے کسے دیکھ رہی
ہے
اور یہ پاؤں کا اکھڑا ناخن عجیب سی تکلیف دے رہا ہے سوچتی ہوں اب اسے اکھاڑ ہی پھینکوں
تو میں کہہ رہی تھی
کچھ ہے جو چبھ رہا ہے ،شائد کچھ کِیکر جیسا ہے خاردار جو جڑیں پکڑ رہا ہے اندر ہی اندر
لیکن بس اب اسے نوچ کر پھینکنا ہے ، مزید نہیں اگنے دینا
ہے
مگر یہ کیسے ہوگا ، ہو بھی پائیگا یا نہیں!
کہیں ایسا نہ ہو آگے بڑھنے کی کوشش ایک بار پھر سے پیچھے رہ جاؤں، کچھ پا لینے کی خواہش میں ایک بار پھر سے سب کھو دوں اور پھر خالی ہاتھ لیے پھوٹ پھوٹ کر رو دوں؟
:')
نجانے میں بھی کیا کچھ یہاں ہانکنے لگی ہوں
لیکن تم مجھے بتاؤ کبھی محسوس کیا ہے بھلا یہ کہیں بہت پیچھے رہ جانے کا خوف ؟؟
اکیلے رہ جانے کا ڈر
یا
منزل کے پاس آکر اسے کھونے کا دکھ ؟؟؟
No comments:
Post a Comment