Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Monday, September 1, 2008

محمد علی مکی


آج محمد علی مکی سے بات ہورہی تھی۔ مکی آج کل اردو لینکس ڈِسٹرو پر کام کررہے ہیں۔ ان سے دوران چیٹ ترجمے کا کام، اس کی دیکھ بھال، اردو برادری کی حالت زار اور مستقبل کے نقشے پر کچھ بے معنی بکواس سی کی ہے۔ آپ کی نظر ہے۔ اس پر تھنکیں، اور مجھے چاہے نہ بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ پنجابی کی سمجھ نہ آئے تو اپنے اردگرد سے کسی پنجابی کو پکڑ لیں۔ کوئی نہ کوئی مل جائے گا جو آپ کو بتا دے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ خوش رہیں۔

شاکر: يار مکي پائين
شاکر: ميں نے کبھي يہ کام دل لگا کر نہيں
شاکر: کيا
شاکر: اسليے کہ
شاکر: ہر 3 ماہ بعد اس کا نيا ورژن آجانا ہے
شاکر: اور ايک بار ترجمہ کرنے کے بعد اس کي ديکھ بھال کے ليے پوري ٹيم چاہيے
شاکر: اور کوئي ماں کا لاڈلا اس کام کي زحمت کرنے کو تيار نہيں
شاکر: اس ليے مجھے يہ کام بے کار لگتا ہے
شاکر: اوپر سے اوبنٹو سائيں نے ڈيسکٹاپ کا حليہ بدل لينا ہے اگلے ورژن ميں
شاکر: بندہ کرے تے کي کرے
شاکر: تے کتھوں کتھوں کرے
شاکر: تے کنہوں کنہوں کرے
شاکر: يعني کھانا پينا بھي چھوڑ کر اعتکاف ميں بيٹھ جائے
شاکر: ايک ليپ ٹاپ لے کر
شاکر: اور ترجمہ ہي کرتا رہے ساري عمر، مفت والا
شاکر: خير ميں تہانوں dicourage نہيں کرريا
شاکر: تُسيں کرو اے کم
شاکر: تے ميں جو مدد کرسکيا ميں نال آں
شاکر: پر ساڈے کول کوئي نظام ہونا چائيدا اے
شاکر: ون مين شو د و چار سال چل سکدا اے
شاکر: لانگ ٹرم وچ نئيں چل سکدا
شاکر: ٹيپو سلطان ايک اي سي
شاکر: اوس توں بعد سارے ماں دے يار
شاکر: سالے حرامي ڈرپوک منافق يار مار دھرتي نال فراڈ کرن والے
شاکر: نتيجہ کہ کچھ نئيں بنيا
شاکر: محمد علي مکي وي ايک اے
شاکر: جد مکي نہ رہيا تے
شاکر: فير کي بنےگا؟
شاکر: سانوں بندہ نئيں بندے چائيدے نيں پاء جي
شاکر: جيدي اگلے پنج سال وچ وي گھٹ اي اميد اے
شاکر: سب نوں اپني روزي روٹي دي فکر اے
شاکر: کون کرے اے
شاکر: جد ويلے ہُندے نيں
شاکر: جيسے ميں تھا
شاکر: تو سب کرتے ہيں
شاکر: جب کام مل گيا
شاکر: تو سب بھاگ ليے دم دبا کر
شاکر: سپرٹ نہيں اے سائيں
شاکر: ايس چيز دي ضرورت اے
شاکر: خير چھڈو تُسيں
شاکر: کيہڑياں گلاں وچ پے گئے آں
شاکر: تُسيں انجوائے کرو
شاکر: بھيگي بھيگي رات
شاکر: اسيں وي چلئيے ہُن
مکی: آپ کی باتیں بجا ہیں
مکی: مگر اب کوئی اس طرف نہ آئے تو کیا کیجیے...
مکی: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ناکافی ہے اس کام کے لیے
مکی: مگر مجبوری ہے جی
مکی: یہ کام ٹیموں کا ہی ہے
شاکر: چلو جي جد تک تُسين او
شاکر: تب تک سانوں کوئي ٹيم نئيں چاہيے
شاکر: تُسيں اپنے اندر ايک ڈويژن دے برابر او
شاکر: ون مين آرمي
شاکر: اينہوں جاري رکھو
شاکر: اسيں تہاڈے نال آں
مکی    
شاکر: گلاں وچ وي  
شاکر: تے ہور جنہاں ہوسکے
شاکر: انشاءاللہ کردے رہواں گے
مکی: ‏‫جہاں تک ابنٹو والوں کی بات ہے تو اسی وجہ سے ہم ڈیسٹرو بھی تو اپنی ہی بنا رہے ہیں..
مکی: تاکہ دوسری ڈیسٹروز پر انحصار نہ رہے..
شاکر: پاء جي اتنا بڑا سيٹ اپ نہيں چلے گا
شاکر: عريبين لينکس کي طرح سال بعد ٹھپ ہوجائے گا سب کچھ
شاکر: باہر سےکرسي لے کر اس کا رنگ ہي بدلنا ہے
شاکر: پر اس ميں بھي سياپا کم تو نہيں
شاکر: مسئلہ ہے يہ کہ کسي ڈسٹرو کے ساتھ ٹيم جڑي ہو
شاکر: جو ساتھ ساتھ ترجمے کو ديکھتي رہے
شاکر: تاکہ ايک بني بنائي چيز، جس کي کوالٹي بھي مسلمہ ہو مارکيٹ ميں ہو
شاکر: کم سے کم ايفرٹ ميں زيادہ سے زيادہ کام
شاکر: نہ کہ پہيہ دوبارہ ايجاد کرنا
شاکر: پھر سارے سياپے کرنا
شاکر: بگ آگيا جي
شاکر: او فلانياں اے نئيں ہُندا اوئے
شاکر: ٹيوٹوريل لکھنا
شاکر: يہ کرو وہ کرو
شاکر: اے ساڈے وس دا کم نئيں سائيں
شاکر: خير چھڈو جي
شاکر: اللہ خير کرسيں
شاکر: ميں چلاں سائيں فير
شاکر: تے اے گفتگو لگے گي ميرے بلاگ تے
شاکر: تہاڈي اجازت دے نال
مکی: جی بالکل لکھیں
شاکر: رب راکھا فير
مکی: رب راکھا جی



Sunday, June 22, 2008

اور اپگریڈ ہوگئی


ایک فولوور کے بلاگ سے اپگریڈ پلگ ان کے بارے میں پڑھا اور آج صبح قریبًا

دس منٹ لگا کر اپنے بلاگ کو ورڈپریس 2.7 پر اپگریڈ کرلیا۔ 

شکریہ فولوور ۔

Tuesday, June 17, 2008

کچن کچن


کچن میں جارہے ہیں تو جانے سے پہلے اپنی آستینیں ٹانگ لیں۔ شلوار یا پتلون کو اونچا کرلیں اور دایاں پیر بسم اللہ پڑھ کر اندر رکھیں۔ 


سب سے پہلے برتنوں کی طرف دیکھیں آپ کو کئی قسم کے برتن نظر آئیں گے جیسے پتیلا، کُجا، ساس پین، فرائی پین، کولا، گلاس وغیرہ۔ اپنی پسند کے کوئی سے تین برتن منتخب کرلیں اور اس کے ساتھ ایک برتن ہماری پسند کا بھی منتخب کرلیں یعنی ایک عدد پتیلی۔


اس کے بعد کھانے کی چیزوں کی طرف آئیں۔ مصالحوں میں سے حسب ضرورت و حسب پسند جو بھی پسند ہو نکال کر سامنے رکھ لیں۔ اگر سمجھ نہ آرہی ہو کہ کونسا مصالحہ ہے تو سونگھ کر دیکھ لیں۔ جیسے مرچوں کی نشانی یہ ہے کہ سونگھنے سے آپ کو شدید قسم کا کھانسی کا دورہ پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اجزائے خوردونوش میں سے پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور ایسے جو بھی نام ذہن میں آئیں ایک ایک کلو منگوا کر اپنے سامنے رکھ لیں۔ شاپرز سے نکالیں مت ورنہ دیکھنے والے یہ سمجھیں گے کہ آپ ختم شریف دینے جارہے ہیں۔ اچھا صاحب آپ نے اپنی مرضی کرلی ہماری مرضی بھی کردیکھیے تھوڑی سی، آدھا کلو آلو لیجیے اور ان کو ایک لیٹر پانی میں ڈال کر اور دونوں کو پتیلی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔


اب چونکہ آنچ ہلکی ہے اس لیے تسلی سے بیٹھیں، لہسن چھیل لیں، پیاز کاٹ لیں۔ ننھے کا سویٹر بن لیں یا گُلو کو پڑھا لیں۔ امید ہے دو گھنٹوں کے اندر آلو اُبل جائیں گے۔


آلو ابل جائیں تو ان کو نکال لیں۔ ٹھنڈا کرلیں۔ فرج میں رکھیں یا ٹھنڈے پانی میں یہ آپ کی مرضی۔ اس کے بعد ان کو چھیل لیں۔ چھیل کر کاٹ لیں۔ کاٹیں ایسے جیسے گلاب کا پھول کٹتا ہے۔ چونکہ ہم آپ کو یہاں سکھا نہیں سکتے اس لیے کوکب کا دسترخوان جیسی کوئی کتاب لے کر اس میں سے سلاد کاٹنے والے حصے سے کوئی اچھا سا ڈیزائن منتخب کرلیں۔ اچھا تو اسے کاٹ لیا؟ اب آپ نے مصالحوں میں سے نمک پسند کرنا ہے۔ اسے ایک کولی میں نکالیں اور آلو پر نمک لگا کر مزے لے لے کر کھائیں۔


امید ہے آپ کو آج کی ترکیب پسند آئی ہوگی۔ اگر نہیں آئی تو کوکب کا دسترخوان تو آپ لا ہی چکے ہیں اس پر سے کچھ بھی پسند کرکے پکا لیں اور ہمیں دعائیں
دیں۔


Saturday, June 17, 2006

یونہی گزری تو سوچا۔۔



ایک دن لائبریری جارہی تھا راستے میں آمنے سامنے دو قبرستان آتے ہیں۔ میں‌قریب سے گزری تو ایک جنازہ آرہا تھا۔ گنتی کے 8 یا 10 بندے تھے اس کے ساتھ۔ میرے دل میں بے اختیار ہُوک سی اٹھی کون بدنصیب ہے جس کے جنازے کو کندھا دینے والے بھی اتنے کم ہیں۔دل بہت اداس ہوا۔ ابھی یہ اداسی قائم تھی کہ اندر سے آواز آئی نادان اپنی فکر کر۔ تجھے معلوم ہے کہ اتنے سوار بھی نصیب ہوجائیں گے؟؟


اور میں‌کانپ کررہ گیی ۔ پتا نہیں میرا نصیب اتنے سوار بھی ہیں یا نہیں، کفن بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اپنے وطن کی مٹی میں مل سکوں گی یا نہیں۔


ان سارے خدشوں نے کوڑیالے سانپوں کی طرح پھن اٹھا لیے۔ اور پھر ایک اور سانپ اٹھا ان سب سے بڑا۔ بولا جو جہاں بھی جائے گا آئے گا تو اسی کے پاس نا۔ وہ جس کی رحمت اور کرم کے تو گن گاتی ہے جبار و قہار بھی ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا۔ جب تیرے پاس کچھ زاد راہ نہیں ہوگا۔


پہلے میں صرف کانپا تھی اب مجھے جاڑے کے بخار کی طرح پھریریاں آنے لگیں۔ میں‌ نے بے اختیار اس کے لیے دعائے مغفرت کی جو خوش نصیب تھا اسے سوار تو نصیب ہوئے تھے، اسے کچھ لوگ تو نصیب ہوئے تھے جو اس کے لیے ہاتھ اٹھانے والے تھے۔ اور میں؟؟ میرے سامنے اپنے اعمال تھے اور بےیقینی تھی کہ کوئی میرے لیے بھی ہاتھ اٹھائے گا یا نہیں۔


پھر دل نے صلاح دی۔ تو اگردوسروں کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو کوئی تیرے لیے بھی ہاتھ اٹھانے والا ضرور ہوگا۔ اس دن سے میرا معمول ہے جب بھی کسی قبرستان کے قریب سے گزروں ان کے لیے دل ہی دل میں‌ دعائے مغفرت کی ایک عرضی اوپر روانہ کردیا کرتی ہوں۔ کہ شاید اس طرح میری بخشش کا کوئی وسیلہ بن جائے۔ اتنے ساری سیاہ اعمالیوں میں کوئی کمی پیدا ہوجائے۔


یہ قبرستان ہمارا مقدر ہیں، ایسا مقدر جس سے ہم ساری عمر دور بھاگتے ہیں لیکن اصل میں ہمارا رخ انھی کی طرف ہوتا ہے بالآخر کسی قبر میں بڑے آرام سے جاکر لیٹ‌ جاتےہیں۔ صاحبو یہ سب لکھنے سے مراد یہ نہیں‌کہ میں‌جوگی ہوگیا ہوں، نہ میری فٹ بھر کی داڑھی نکل آئی ہے۔ بس ایک احساس پیدا ہوا تو یہ سب لکھ ڈالا۔ اس جذبے کے تحت کے آپ بھی جب ان قبرستانوں کے قریب سے گزریں تو دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ ضرور اٹھا دیا کریں، چاہے دل میں ہی گزرتے گزرے دعا کردیا کریں۔ شاید یہ عمل ہی ہماری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔


آئیے ایک بارسب مسلمین کے لیے دعائے مغفرت کرلیں۔


یا اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ جتنے بھی مسلمان مرد و عورت وفات پاچکے ہیں ان کی مغفرت فرما آمین۔





What is a LOTTA


پاک بلاگرز آرایس ایس جمع کار ویب سائٹ‌ہے۔ ساجد اقبال کے بلاگ سے اس کی سن گن ملی تو میں بھی اس پر اندراج کے لیے چل پڑا۔ اندراج تو کروا لیا ہے میں 


نے لیکن مجھے بہت ہنسی آئی۔ کیوں آئی۔ آپ بھی دیکھ لیں۔




کیسی رہی۔


:lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol:



میں


میرا میں سے تعارف سب سے پہلے ممتاز مفتی نے کروایا۔ ممتاز مفتی سرعام خود کو کوستا ہے،، اپنی میں والی عادت کو برا بھلا کہتا ہے اور ساتھ ساتھ میں میں بھی کرتا جاتا ہے۔ میں یہ ہوں میں وہ ہوں۔ اسی کو پڑھ کر مجھے میں کو دیکھنے کا شعور اٹھا۔ پھر ایسے ہی آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے میرے ریسیور نے میں کے سگنل وصول کرنے شروع کردیے۔


صاحبو یہ میرے انٹینا کی خرابی کہہ لیں یا میرے نفس کی آوارگی۔ ایک دن یونہی اذان کے وقت بیٹھے بیٹھے مجھے “میں“ کے سگنل وصول ہونے لگے۔


سب سے پہلے ایک مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور میرے کانوں میں آوازیں گونجنے لگیں“حضرات یہ فلاں فلاں مسجد اہلحدیث ہے۔ ہم سڑے ہوئے نظریات اور نام نہاد فقہ کو نہیں مانتے۔ ہم قرآن و حدیث سے براہ راست استدلال کرتے ہیں۔ ہماری مسجد کو پہنچاننا ہو تو یہ دیکھ لیں کہ سب سے پہلی اذان کہاں سے ہورہی ہے۔ اور اب آئیں ہم نماز پڑھ لیں۔“


ایک اور مسجد سے صلوۃ سلام کے بعد اذان کی آواز بلند ہوئی“ حضرات ہم آپ سے فلاں فلاں مسجد اہلسنت ولجماعت حنفی بریلوی سے مخاطب ہیں۔ ہمارے آقا و مولٰی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان سے سب سے زیادہ محبت ہم ہی کرتے ہیں جس کا ثبوت ہر اذان کے ساتھ صلوۃ سلام کا ورد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنے والوں کو ہم دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ہماری مسجد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اذان اور ہر اعلان کے ساتھ ہم صلوۃ سلام کا ورد ضرور کرتے ہیں آئیے اب ہم نماز بھی پڑھ لیں۔“


پھر ایک اور مسجد سے صدائے حق بلند ہوئی“ دیکھیں جناب یہ مسجد فلاں فلاں اہلسنت حنفی دیوبندی ہے۔ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول کریم کے بعد سب سے اونچا مقام دیتے ہیں۔ ہم پیر پرستی اور قبر پرستی سے بیزار ہیں اور ہاں ہماری مسجد کی پہچان یہ ہے کہ ہماری اذان سب سے مختصر ہوتی ہے۔ ہم کسی اور کلمے کا اضافہ نہیں‌کرتے ۔ آئیں اب نماز پڑھ لی جائے۔“


سب سے آخر میں ایک طرف سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے“ جناب ہم اہل تشیع ہیں۔ ہم اہل بیت کے سب سے بڑے محب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کا عاشق ہم سے زیادہ کون ہوگا۔ ہماری مسجد کی نشانی یہ ہے کہ ہم صرف تین بار اذان دیتے ہیں اور ہماری اذان میں کچھ مزید کلمات کا اضافہ بھی ہوتا ہے جس سے آپ باآسانی ہمیں پہچان سکتے ہیں۔ تو آئیے ہم بھی نماز پڑھتے ہیں۔“


مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ اذانیں نیہں بلکہ نفس بول رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو میں دیوبندی ہوں، ارے ادھر کدھر ادھر دیکھ میں ہوں شیعہ ہوں ہم سے بہتر کون مسلمان ہے۔ اوئے ادھر کیا دیکھتا ہے ادھر دیکھ یہ تو کافر ہیں ان کے عقائد ہی ہم سے نہیں ملتے ہم بڑے مسلمان ہیں ہمارا فرقہ بہترین ہے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ مخلوق خدا کو اللہ کی طرف نہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں۔


آؤ ہماری طرف آؤ اہلحدیث ہوجاؤ اسی میں فلاح ہے۔


آؤ بریلویت کی طرف یہی کامیابی کی راہ ہے۔


آؤ ادھر آؤ ادھر آؤ ہم سب سے بڑے ہیں۔


آؤ ہم ہی جنتی ہیں۔


ادھر آجاؤ۔


اور پھر ایسا ہوا کہ میرے اردگرد کھڑی مسجدیں غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ بڑے بڑے گلیور نمودار ہوگئے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑے، اپنے فرقے کی کتابیں اٹھائے، سر پر ٹوپیاں لیے لمبی لمبی ڈاڑھیاں رکھے اور عمامے باندھے، شلواریں ٹخنوں سے اونچی کیے، آپس میں لڑتے نہیں اسے ہماری طرف آنے دو نہیں میری طرف، نہیں میری طرف، اور میں ایک بونا، جو ان کے پیروں کے نیچے آنے سے بچ رہا ہوں کبھی ادھر ہوتا ہوں کبھی ادھر ہوتا ہوں اور آخر ایک طرف بھاگ نکلتا ہوں۔


میری طرف۔۔۔ نہیں ۔۔۔میری طرف۔۔۔ نہیں۔۔ میری طرف۔۔۔۔۔۔۔ یہ ساری آوازیں معدوم ہوتی جارہی ہیں اور پھر سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے میں نہیں رہتا، کوئی بھی نہیں رہتا اور میرے سامنے میرا رب ہے۔ میں دھیرے سے اپنے رب سائیں سے پوچھتا ہوں۔


“سائیں یہ سب لوگ اتنا لڑ کیوں رہے ہیں۔ آپ کے نام پر ہی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ایسا کیوں ہے سائیں۔ آپ تو سراپا محبت ہونا۔ آپ تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہو۔ سائیں تو پھر یہ لوگ کیوں لڑتے ہیں آپ کے نام پر ہی۔ انھیں تو مل جل کر محبت سے رہنا چاہیے۔“


اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے اللہ سائیں مسکرا دیے ہیں جیسے کہہ رہے ہیں یہ سب تو پاگل ہیں، نادان ہیں۔ میری کتاب کو اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان کی عقلیں محدود ہیں۔ اپنی محدود عقلوں سے جو اندازے لگا لیتے ہیں ان پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتے ہیں ان کا خیال ہے سب کچھ انھیں کو عطاء ہوگیا ہے باقی سب جاہل مطلق ہیں‌اور ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ان کی میں انھیں جینے نہیں دیتی۔ اس لیے کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔


Sunday, January 22, 2006

گزارش


میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔


ایک سوختہ انسانوں کی ہے۔ نیچے کچھ لکھا ہے۔


کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔


اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔


اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔


اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔


اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔


میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔


میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ 


بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔


لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔ 


اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔


اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔


انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔


مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔


مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔


مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔


مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔


مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے


مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔


مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔


مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔


مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے


مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے


مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔


مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔


مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے


مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں


مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں


مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد 


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد


اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد




کہانیاں


میز نیازی کہتا ہے 


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، ہر کام کرنے میں


کچھ ایسا ہی شاید ازل سے میرے ساتھ ہے۔ ہر کام میں دیر ہو جاتی ہے۔ جب سوچنے سمجھنے کی توفیق ہوتی ہے تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ جب کام کرنے کا خیال آتا ہے تو وقت باقی نہیں رہا ہوتا۔ جب کسی رستے پر چلنے کی سمجھ آتی ہے تو اُس پر پہرے لگ چُکے ہوتے ہیں۔ اور لکھنا۔۔۔ لکھنا بھی تب سرزد ہوتا ہے جب احساسات وقت کی دھول میں اٹ کر دھول ہو جاتے ہیں، جیسے بارش کے بعد کچی مٹی پر بنے نقش و نگار یا موج گزرنے کے بعد ساحل پر بنے ریت کے گھروندے مِٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ لکھنے میں ہوتا ہے، اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ پیچھے تاثرات کی بجائے ان کے بھُوت باقی رہ جاتے ہیں جنہیں لفظوں کا جا مہ پہنانے پر آسیب زدہ جملے وجود میں آتے ہیں اور ان آسیب زدہ جملوں کے مجموعے پچھلے دس برسوں میں جا بجا اس بلاگ کی زینت بن چکے ہیں۔


ایک عرصے سے ارادہ کر رہا ہوں کہ لکھنا ہے، کچھ ہڈ بیتی اور کچھ جگ بیتی پر، خود پر گُزرے سانحات پر، ان لمحات پر لکھنا ہے جب زندگی اتنی اجنبی ہو گئی تھی کہ خوف آتا تھا، اور اس سے بھی پہلے کی کچھ کہانیوں پر کچھ لکھنا ہے۔ کہانیاں جن کے ساتھ تب سے واسطہ ہے کہ اب یادوں کے بھُوت بھی وقت کے اندھیرے میں گُم ہو چکے ہیں۔ پرائمری میں ایک دوست اپنے جیب خرچ میں سے پچاس پچاس پیسے کی عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں لے کر دیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ ننھی ننھی کہانیاں درجنوں میں جمع ہو گئی تھیں، لیکن پھر کہاں گئیں؟ اور وہ کہانیاں جو میں چوری کے پیسوں سے خرید کر پڑھا کرتا تھا اور پھر پکڑے جانے کے ڈر سے پھاڑ کر پھینک دیا کرتا تھا۔ اور پھر وہ کہانیاں جو نانا نانی کے ہاں جانے پر ماموں کی بیٹھک سے برآمد ہوتی تھیں نسیم حجازی، عمران سیریز، انسپکٹر جمشید اور حکایت ڈائجسٹ کی شکار کی کہانیاں، جرم و سزا کی کہانیاں، ایمان فروشوں کی کہانیاں۔ اور پھر وہ کہانیاں جب ایک لائبریری سے دوست نے کرائے پر عمران سیریز لینا شروع کی جو ہم اکٹھے پڑھتے تھے، اور پھر جب میں نے خود سے یہ کام شروع کر دیا ، ستر اسی کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں دیوتا، مجاہد، اِنکا۔۔۔ ہر مہینے درجن بھر زنانہ اور غیر زنانہ ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں، قدرت اللہ شہاب ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کی چوکڑی، یوسفی، پطرس، اور اس عہد کے دیگر مزاح نگار، قمر اجنالوی کے تاریخی ناول اور ایم اے راحت کے سلسلے، علیم الحق حقی کے عشق اور اس کی پیروی میں لکھے گئے درجنوں ناول، اور تارڑ کے سفرنامے۔ اور پھر انگریزی سیکھتے ہوئے ایپِک فینٹیسی کی صنف سے تعلق رکھنے والی کہانیاں ہیری پوٹر، وہیل آف ٹائم، کوڈیکس الیرا۔۔۔اور پھر انگریزی فلمیں جن کی تعداد ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ہو گی محبت کی کہانیاں، ایڈونچر، ایکشن، سائنس فکشن اور فینٹیسی کی کہانیاں۔۔۔ اتنی کہانیاں ۔۔۔ہر کہانی کی اپنی ایک الگ دنیا، ہر کہانی میں اپنی اپنی زندگی جیتے کردار اور ہر کہانی کو پڑھتے ہوئے، سُنتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ جیتا اور مرتا ہوا میں۔ یوں لگتا ہے جیسے تیس برس نہیں تیس صدیاں گزر گئی ہیں، جیسے بار بار مر کر جیا ہوں اور جی جی کر مرا ہوں، ہر کہانی کے اتنے دُکھ ہیں کہ اصل زندگی کے دُکھ بھی کسی کہانی کا حصہ لگتے ہیں۔


اتنی کہانیاں پڑھیں، اور جب خود کوئی کہانی لکھنی چاہی تو قلم نے یا تو چلنے سے انکار کر دیا یا چلتے چلتے جواب دے گیا۔ رب نے کہانیاں لکھنے والوں کو پتہ نہیں کیا خاص دے رکھا ہوتا ہے جو میرے جیسے معذوروں کے پاس نہیں ہوتا۔ کیسے ایسا سوچ لیتے ہیں، کیسے ایسا لکھ لیتے ہیں کہ ان کے کرداروں کے ساتھ قاری بھی جیتا اور مرتا ہے۔ ایک عرصے تک یہ زُعم رہا کہ شاید کہانیاں پڑھ پڑھ کر اور دیکھ دیکھ کر میری بھی ایسی تربیت ہو جائے، جیسی آ ج کل مشینی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) کے میدان میں گوگل، ایمازون اور اس جیسی کئی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ جیسے میں ڈیپ لرننگ کا ایک الگورتھم ہوں جسے ہزاروں کہانیاں پڑھوائی جائیں اور پھر وہ خود کہانی کار ہو جائے۔ ایک عرصے تک یہی امّید رہی کہ شاید میرا ڈیپ لرننگ کا الگورتھم اس قابل ہو جائے گا۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہ ہو سکے۔ میرے ہارڈوئیر اور سافٹ ویئر کو بنانے والے نے کچھ ایسے بنایا ہے کہ ٹریننگ ڈیٹا جتنا مرضی مل جائے اُس کی بنیاد پر پیٹرن تلاش کرنے کی اور پھر اس پیٹرن کو استعمال کر کے باز تخلیق کی صلاحیت عنقا ہے۔


تو کہانی کار ہونے کا متمنی ایک کہانیاں پڑھنے والا اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح چند سو الفاظ کی تحریریں لکھتا چلا جائے۔ جن میں کوئی چسکا نہیں، کوئی سیاست، معاشرت، مذہب نہیں، کوئی ردعمل ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ نہیں، بس سات ارب انسانوں کی دنیا میں بسنے والے ایک اکلوتے انسان کی بالائی منزل پر اُٹھنے والے نادیدہ طوفانوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ جس میں سوائے لکھنے والے کے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ علمِ سماجیات انسانوں کے باہمی تعلق، اور معاشرت کو، انسانوں کے مجموعے کو موضوع بناتا ہے۔ اور علمِ نفسیات فرد کو موضوع بناتا ہے۔ تو شاید یہ تحریریں بھی جو انسانوں کے مجموعے کے لیے تو شاید بے کار ہوں، لیکن کسی فرد کے حالات سے مماثل ہوں۔ شاید میری طرح کہانیوں کا ڈسا، اور کہانیاں نہ کہہ سکنے کے ازلی دُکھ کا شکار کوئی اور بھی یہاں موجود ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔


Tuesday, December 27, 2005

پیارکا شہر



زمانہ حاضر کےمارکو پولو، البیرونی لیکن عموماً ال اندرونی (یعنی بیشتر وقت کمرے میں رہنے والی مخلوق یعنی ہم) نے اپنے ملک کے عظیم سیّاح، لکھاری اور دانشور جناب بابا مستنصر حسین تارڑ جٹ کی اقتداء میں یورپ کی سیاحت، جہاں گردی وغیرہ وغیرہ کا ارادہ فرمایا تو اس مرتبہ نظرِ انتخاب پیرس پر اور طلبہ کے "تفریحی" دوروں کا بندوبست کرنے والی ایک ایجنسی پر پڑی۔ مابدولت نے پاکستانیوں کی آفاقی عادت کے عین مطابق کچھ احباب کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا تاکہ ہم پھنسیں تو ان کے پیچ بھی کسیں۔ اگر شومئی قسمت انجوائے منٹ کا ایک آدھ کلو ان کی قسمت میں آ جائے تو اس میں حصہ داری کر کے ہر ممکن حد تک ورچوئل "شریک" (یہاں ابرار کا گانا شریکاں نوں اگ لگدی گنگنانے سے معنی و معرفت کے نئے جہان کھلنے کا امکان پایا جاتا ہے) ہونے کا ثبوت دیا جا سکے۔



ایک دوست (جو سیانے واقع ہوئے ہیں) عین موقع پر ود ڈرا کر گئے چنانچہ بقیہ آوارہ گردانِ ملت نے سفر جاری رکھا اور بھاگم بھاگ بس پکڑی جس نے علی الصبح انہیں پیرس ڈیلیور کرنا تھا۔ تو جناب سفر شروع ہوا، اور جیسا کہ ہر سفر کے شروع میں ہوتا ہے، کئی ماہ کی جمع شدہ باتوں کی ٹنکی سے پانی دھڑا دھڑ بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ نل پر چشمے کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ نل واسا کا نل بن جاتا ہے، تھکن اور نیند غلبہ پا لیتی ہے، تو ایسے ہی یہ سفر بھی شروع ہوا۔ جرمنی سے بیلجیئم اور پھر فرانس میں صبح سویرے ایک نخلستان (یہاں پٹرول پمپ پڑھا جائے) میں چہرے کی مرمت اور دیگر متعلقہ امور کی انجام دہی کے بعد دونوں بسوں نے صبح ساڑھے سات بجے "مال" آئفل ٹاور پر لا پھینکا۔ اور پھر حسبِ رواج عوام نے چڑھتے سورج کی مخالف سمت میں انھّے وا کالی تصاویر بنائیں جن میں ازقسم سیلفی، ویلفی، اکلوتی، گروپی اور کہیں کہیں آئفل ٹاور اور اس کے اطراف کو بھی شرفِ عکس بندی سے نوازا گیا تھا۔ اور آخر میں آئفل ٹاور کی قدم بوسی کی نشانی کے طور پر وہاں سے کچھ بچہ آئفل ٹاور خریدے گئے جن میں چابیاں ڈال کر آئندہ زندگی آئفل ٹاور کی یاد میں گزاری جائے گی۔


تصاویر بنانے کی آدھ گھنٹے کی رخصت کے بعد "بچوں "کو دوبارہ بسوں میں ٹھونس کر پیرس کا مفت ٹور کروایا گیا۔ ساتھ ناشتے کے نام پر دو دو سانپ نما ڈبل روٹیاں پیش کی گئیں جن کے بعد عوام کا عام خیال پیرس کی بجائے نیند کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ فرنچ جرمن خاتون گائیڈ کی انگریزی اور کہیں کہیں زبردستی گھُس آنے والی جرمن کبھی کبھی ناشتے کے خمار جو ناشتے سے زیادہ رات بھر کی تھکن کا کمال تھا، کو چیرتی ہوئی کانوں میں گھُس جاتی۔ ایسی ہی ایک ٹِپ "پِٹّی پےَلی" (چھوٹا محل) کا تعارف تھا، جہاں خاتون کے بقول کوئی مفت نمائش وغیرہ لگی ہوئی تھی یا لگی رہتی تھی۔ چنانچہ جہاں جہاں جس جس کو جو جو کچھ یاد رہا سب نے ذہنی نوٹس بنا لیے تاکہ بس سے اُتر کر دماغ کونیند کے چنگل سے چھڑانے کے لیے کچھ لالی پاپ ملے رہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے نیند آور ٹور، اندرونِ شہر پیرس کے چند کلومیٹر کے علاقے میں کئی ایک چکروں، دریائے سَین کے متعدد نظاروں اور پُلوں، اگلے دن ہونے والی پیرس میراتھن ریس کے درجنوں تذکروں اور کچھیاں پہنے بابے بابیوں کو دوڑ کی تیاری میں سویرے سویرے سڑکوں پر ہانپتے دیکھنے کے دوران ہی کسی وقت ٹور ختم ہو گیا۔ ہمیں نقشے اور رہنما کتابچے پکڑائے گئے اور رات ساڑھے گیارہ اسی جگہ دوبارہ جمع ہونے کی تلقین کر کے خداوندانِ ٹور نے بسیں خالی کروا لیں۔ اس کے بعد غریب الوطن تھے، اور غریب الوطنوں جیسے ہزارہا اور سیاح جن پر آج کے دن ان سڑکوں پر رُلنا اور ان دیواروں سڑکوں درختوں مجسموں پُلوں اور از قسم دیگر "وں" کا نظارہ فرض کر دیا گیا تھا۔


ابتدائی فوٹو گرافی کا شوق پورا ہو چکا تھا۔ آئفل ٹاور جو تصویروں میں کسی مسجد کے مینار جتنا ہی لگتا ہے قریب سے دیکھنے پر دیو قامت عمارات کا کزن ثابت ہو کر ہم پر رعب جما چکا تھا، لیکن اب نکوٹین کی طلب اور دیگر جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کا تقاضا ان احساسات کو بُلڈوز کر رہا تھا۔ چنانچہ کسی ریستوران کی تلاش شروع ہوئی جہاں ترجیحاً بیت الخلاء کا فرانسیسی ورژن دستیاب ہوتا، کچھ پوچھ تاچھ کے بعد ایک ڈرگ سٹور سے مساوی داموں میں کافی پینے اور پہلے سے نوش کردہ مائعات نکالنے کا اہتمام کیا گیا اور پھر خاتون گائیڈ کے مشوروں کی روشنی میں اگلا لائحہ عمل طے کیا گیا، خلاصہ جس کا یوں تھا کہ چلا جائے اور چلتے رہا جائے۔ تو پھر چلنا شروع ہوا، تصویر کشی جاری رہی۔ محرابِ فتح سے شانزے لیزے پر چلتے چلتے پیرس کے نظاروں سے آنکھیں گرم ٹھنڈی کرتے ہم، جو آوارہ گرد ہونے کے شدّت سے خواہشمند تھے، اور ہم جیسے ہزاروں جو کچھ ایسی ہی خواہشات رکھتے تھے، اور ان کے درمیان پیرس والے جوہر دو سے بے نیاز اپنے کام نمٹا رہے تھے۔ چلتے چلتے نِکّا محل آ گیا جہاں گائیڈ کے مطابق مُفت بری کی جا سکتی تھی، تو اکثریت رائے سے نمائش دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیکیورٹی سے گزر کر معلوم ہوا کہ نمائش مفت نہیں، یا یہ جگہ پِٹّی پے لی نہیں، خیر وجہ جو کچھ بھی ہو چار حرف بھیج کر پرانا کام یعنی چلنا پھر سے شروع کیا گیا۔ اور چلتے چلتے بالآخر شانزے لیزے کو رحم آ گیا، کہ بائیں طرف کچھ باغات سے نظر آئے جہاں بنچ لگے تھے اور دھوپ تھی اور آرام کا موقع تھا، تو عوام نے یا تھکن نے یا فریاد کُناں ٹانگوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھایا جائے۔ چنانچہ معروف ریستورانوں کے جھرمٹ میں سامنے پبلک بنچ پر بیٹھ کر گھر سے پکا کر لایا گیا چکن پکوڑا کھایا گیا اور فیس بُک پر شریکوں کو ساڑنے کے لیے قُرعہ اندازی سے ایک ریستوران کو "چیک اِن" کے لیے چُنا گیا۔ لنچ ختم ہونا تھا ہو گیا، دن البتہ وہیں تھا اور پیرس بھی باقی تھا، چنانچہ پھِر سےسڑکیں تھیں اور ان پر کچھ تردد سے چلتی ٹانگیں۔



Tuesday, August 16, 2005

تحت الشعور سے ابھر کر آنے والی ایک یاد


آج دوپہر قیلولہ کرنے کے لئے لیٹا ہوا تھا تو پتا نہیں کہاں سے ذہن کی عمیق گہرائیوں میں دفن ایک یاد تحت الشعور سے نکل کر شعور کے پردے پر آ براجمان ہوئی. پانچویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں قرآن پاک حفظ کروں اور اس کام کے لئے مجھے ایک مدرسہ میں ڈال دیا گیا تھا. کچھ مہینوں کے بعد میرے اندر کے شیطان نے ادھم مچایا تو میں نے مدرسے جانے سے انکار کر دیا تھا اور اس کی پاداش میں تشریف پر گھوڑے ہانکنے والے چھانٹے والی چھڑی سے ٹکور کے ساتھ ساتھ میری چھٹی بھی بند کر دی گئی تھی. چناں چہ مجھے پورا ہفتہ رات اور دن وہیں مدرسے میں گزارنا تھے. رات کو گرمی ہونے کی وجہ سے چار منزلہ مدرسے کی چھت پر زمین پر صفیں یا چٹائیاں اور ان پر گھر سے آیا ہوا بستر جو ایک عدد دری تکیہ اور کھیس وغیرہ پر مشتمل تھا بچھا کر سونا ہوتا تھا. اس یاد کا تعلق شاید اس چھٹی بند ہونے کی پہلی یا کسی اور رات سے ہے. قاری صاحب اور ان کے اہل خانہ بھی طلبہ کے ہمراہ چھت پر سویا کرتے تھے. سونے سے پہلے کبھی کبھار طلبہ پر مہربانی کرکے انہیں کچھ کھانے کے لیے منگوا کر دیا جاتا تھا جسے عرف عام میں پنجابی بچوں کے لئے چیجی اور انگریزی ماڈرن لوگ کینڈی وغیرہ کہتے ہیں. آج اس نیم نیند کی کیفیت میں یاد آگیا کہ اس رات میں مدرسے کی چھت پر حالتِ سزا میں اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹا تو قاری صاحب نے ایک مقیم طالب علم کو بلا کر اسے کچھ روپے تھمائے اور طلبہ کے لیے کون آئسکریم منگوائی. مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ اس میں میرے لیے بھی کچھ حصہ ہو گا. تاہم جب آئسکریم آئی اور سب میں تقسیم ہوئی اور مجھے یکسر نظر انداز کر دیا گیا تو ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی وہ خِفّت شاید کسی بہت بھاری پتھر سے بندھ کر ذہن کی گہرائیوں میں جا بیٹھی تھی. اور قریباً اٹھارہ برس کے بعد آج اس پتھر سے بندھی رسی کمزور ہوئی تو یہ یاد بھی کہیں دُور گہرائی سے نکل کر سطح پر آ گئی. یہ سب لکھنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ایک یاد کو اس بلاگ پر شیر کیا جائے. اس کے علاوہ کوئی چھپا ہوا مقصد موجود نہیں ہے یا شاید اس مقصد کو سامنے آنے کے لئے اٹھارہ برس مزید درکار ہوں.



')