Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Sunday, February 28, 2016

چائے




حضرات چائے کے فضائل کیا گنوائیں۔ سمجھ لیں کہ آسمانی تحفہ ہے جو خدا نے اپنی مخلوق کے غموں پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے اتارا ہے۔ آپ عاشقِ صادق ہیں یا زوجہ کے ستائے ہوئے، دوست احباب یا اہلخانہ میں بیٹھے ہیں یا تنہائی سے شغل فرما، امتحان کی تیاری میں مصروف ہیں یا دفتر کے اضافی کام تلے دبے ہیں، ذہنی کام نے دماغ کی دہی بنا دی ہے یا جسمانی کام نے تھکا مارا ہے، صبح اٹھے ہیں تو بیڈ ٹی رات دیر تک جاگنا ہے تو نیند بھگانے کا تیر بہدف نسخہ؛ سردی، گرمی، خزاں، بہار کسی بھی موسم میں، رات، دن، سہ پہر، دوپہر کسی بھی وقت، گھر میں ٹی وی کے سامنے، بیٹھک، کھڑکی یا میز کے پیچھے، باہر فٹ پاتھ پر کرسی یا بینچ پر بیٹھے، دفتر میں فائلوں کے ہمراہ یا کسی میٹنگ میں مصروف، غرض ایک کپ چائے کہیں بھی آپ کی دنیا بدل سکتی ہے۔

دل جلانے کا من ہے تو دودھ کے بغیر پی لیں۔ دودھ کے ہمراہ دل جلانے کا شوق ہے تو کسی فٹ پاتھی چائے فروش سے مستریوں والی چائے کی فرمائش کر لیں۔ دودھ سے کچھ زیادہ رغبت ہے تو دودھ پتی کروا لیں۔ جاڑوں کی سردیلی صبح، نانی کے گھر میں لکڑی کے چولہے کے ساتھ بیٹھے گھر کی گائے/ بھینس کے دودھ اور گھر کے گُڑ کی بنی چائے پر تو دنیا جہان کی نعمتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ پستہ بادام سے شغف ہے تو کشمیری گلابی سبز چائے آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ پشاوری قہوے اور لیموں کا جوڑ تو شاید ہی کہیں اور پایا جائے۔ یعنی جیسا موڈ ہو ویسی چائے اسے دوبالا کرنے کے لیے حاضر۔

اور پھر چائے اکیلی ہی نہیں آتی، ساتھ طرح طرح کے لوازمات بھی دل لبھانے کو آ موجود ہوتے ہیں۔ بھوک لگی ہے تو چائے پراٹھا، اور اگر والدہ کے ہاتھ کا پکا پراٹھا چائے کے ساتھ مل جائے تو جناب اس کی قدر ہم جیسے پردیسیوں سے پوچھیں۔ توس، سادہ توس، انڈہ لگا توس، ٹوسٹر میں فرائی کردہ توس اور ساتھ ایک کپ چائے: لاجواب۔ ایک فرائی ہاف فرائی انڈہ، ابلا ہوا، ہاف بوائلڈ انڈا ایک چٹکی نمک اور کالی مرچ کے ساتھ چائے کے کپ کی چُسکیاں، سبحان اللہ۔ رس گلے، گلاب جامن اور برفی سے لدی ایک پلیٹ جب چائے کے کپ کے ساتھ گلے میں اترتی ہے تو اس کا مزہ کسی من و سلویٰ سے کیا کم ہو گا۔ اور رس یا بسکٹ چائے کی پیالی میں ڈبو کر کھانے اور پیالی میں ہی رہ جانے کی صورت میں پینے کا لطف بیان کرنے نہیں آزمانے کی چیز ہے۔ اور اگر میٹھا نہیں کھانا چاہتے تو نمکین چیزوں کے ساتھ بھی چائے کی بہت اچھی دوستی ہے: نمکو، سموسے، پکوڑے، چپس اور ساتھ ایک کپ چائے۔


تو صاحبو چائے کچھ ایسا عالمگیر مشروب ہے جو خال ہی کسی چیز کے ساتھ فِٹ نہ بیٹھتا ہوگا، کم ہی کسی صورتحال میں اجنبی محسوس ہوتا ہو گا اور کوئی بدنصیب ہی اسے چھوڑ کر کسی اور مشروب سے دل بہلانے کی آرزو کرتا ہو گا۔ کسی زمانے میں حکیموں کے ہاں ہی ملتی ہو گی ہمیں اس روایت سے انکار نہیں ، لیکن اب تو چائے ہر امیر غریب کی خوراک کا لازمی جزو ہے۔ دل جلانے، دل بہلانے، دل لگانے کے کام آتی ہے۔ وزیروں، مشیروں، شاعروں، ادیبوں، امراء، فقراء، علماء، ہر کسی میں مقبول یہ مشروب جسے ہم اردو میں چائے، انگریزی میں ٹی، پنجابی میں چاء اور جرمن میں ٹے بلاتے ہیں۔ اب اس کی تعریف اور کیا کریں کہ بس ایک کپ چائے نے کچھ ایسا دماغ چلایا کہ ہم نے ایک ڈیڑھ صفحہ اس کی مدح سرائی میں کالا کر ڈالا۔ تو صاحبو چائے پیئو، جیو اور خوش رہو۔



قدﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ , ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺭﺍﺳﺘﮯ


قدﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ , ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺭﺍﺳﺘﮯ

ﻟﻤﺒﺎ ﺳﻔﺮ ﮨﮯ ﮨﻤﺴﻔﺮﺍﮞ , ﺑﻮﻟﺘﮯ ﺭﮨﻮ





ﻧﻔﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺍُﺳﮯ


ﻧﻔﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺍُﺳﮯ
ﺍﮮ ﺭﺏِ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ !! ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮬﮯ .




توازن





ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻧﺎﮔﺰﯾﺮ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﻤﺠهی ﮨﻮﮞ۔ ﮨﺮ ﺭﺷﺘﮧ، ﮨﺮ ﻧﺎﻃﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺝ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ۔ ﺩﻭﺭِ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺗﻮﻗﯿﺮﯼ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻭﺟﮧ ﮨﯽ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﯽ ﻋﺪﻡ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﺪﺍﻥ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ، ﮔﮩﺮﺍ ﺩﻭﺳﺖ، ﺟﮕﺮﯼ ﺩﻭﺳﺖ، ﺭﻓﯿﻖِ ﮐﺎﺭ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﻭﺍﻻ ﺩﻭﺳﺖ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺩﺭﺟﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻗﺴﻢ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﺴﺒﺖ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺩﮮ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﻮﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﻗﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺍﺻﻮﻝ ﻭﺿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ، ﮐﮧ ﺟﺴﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﺪ ﺑﻨﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺒﺮﺍ ﭨﮭﮩﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮨﻢ ﺍُﺱ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔ 


ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﻋﻤﻞ ﮐُﭽﮫ ﺍُﺱ ﺍﯾﮏ ﭼﭙﻮ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭼﭙﻮ ﭼﻼﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﭼﭙﻮ ﭼﻼﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍُﺳﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﺸﺘﯽ ﮈﮬﻠﮏ ﮐﺮ ﻏﺮﻗﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ 


ﺑﺲ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﻝ ﺁﺝ ﮐﻞ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﯼ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺑﺮﺗﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍُﺱ ﮐﺸﺘﻨﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺑُﺮﺩ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ 


ﺗﻮ ﭘﮭﺮ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺪﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﯾﮩﯽ ﮐﻠﯿﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﻧﮧ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺭﮮ ﺑﮭﺌﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ﺩﻭﺳﺖ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ، ﮐﯿﺎ ﮔﮩﺮﺍ، ﺟﮕﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﻭﺍﻻ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﮨﯽ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔



اﻧﺴﺎﻥ





اﻧﺴﺎﻥ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐُﭽﮫ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐُﭽﮫ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ، ﻭﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﻧﮧ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﺎ۔





ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ


ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﺟﺒﺮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﭼﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﺭﻭﺷﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ
ﺳﻮﺭﺝ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺟﻞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺑﮯ ﻧﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﮔﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﺎﺭﺍ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ ﭘﺮ
ﺍﮎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﮨﮯ ﺗﺨﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﻘﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﮮ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﮨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ
ﺍﮎ ﻋﺮﺻﮧ ﺗﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﻧﻘﺶ ﺟﻮ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﻧﮕﮧ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﭘﮯ ﮨﯽ ﺗﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ —

 

Saturday, February 27, 2016

مگر اب یاد آتا ہے


مگر اب یاد آتا ہے 


وہ باتیں تھیں محض باتیں


اب اس کے بعد لگا دل تو دل لگی ھو گی



اب اس کے بعد لگا دل تو دل لگی ھو گی
ہم اُس پے اپنی محبت تمام کر آئے



وہ جس پہ رات ستارے لیے اترتی ہے


وہ جس پہ رات ستارے لیے اترتی ہے

وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لیے



وہ کیا دکھ تھا


وہ کیا دکھ تھا ،
تیری
سہمی 
ھُوئی
خاموش آھوں میں


آنکھوں میں بھر کے رتجگے ، رستوں کو دے کے دُوریاں



آنکھوں میں بھر کے رتجگے ، رستوں کو دے کے دُوریاں

امجدؔ وہ اپنے ھمسفر ، کیسے مزے سے سو گئے.



یادوں کے روپ میں , رھتے ھو میرے ساتھ




یادوں کے روپ میں , رھتے ھو میرے ساتھ 

تمھارے اتنے سے احسان کا ، سو بار شکریہ


میرے بعد کا رستہ ، تم سے کٹ نہ پائے گا


میرے بعد کا رستہ ، تم سے کٹ نہ پائے گا

جو بھی اجنبی دیکھو ، اُسی کے ھو جانا.




Friday, February 26, 2016

ﭘﮩﭽﺎﻥ





پته ۔۔۔۔۔۔ ! ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻋﺰﺍﺏ ﮨﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﯾﺎﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ 
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻭ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﻤﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﻤﯿﺖ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻘﻮﺵ ﮐﺎ ﻣﭧ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﻨﺎ۔۔۔۔۔۔۔ !!! ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﺒﮭﯽ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻤﻨﺎﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔۔۔۔۔ !! ﺍﺳﮯ ﻋﺰﺍﺏ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﻧﻌﺎم.






بهلا ﺳﻮﺅﮞ ﮔﺎ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﻧﺪ ﺗﺎﺭﻭ


بهلا ﺳﻮﺅﮞ ﮔﺎ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﻧﺪ ﺗﺎرو

ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺮﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮕﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ


Tuesday, February 23, 2016

ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﻭﺍﻻ


ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﯿﻠﯽ ﻟﮑﮍﯼ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ

Saturday, February 20, 2016

Aur usney apni khamoshi se hi




Aur usney apni khamoshi se hi
Hamara hisaab kar diyea.!





یہ جو چہرےہیں یہاں چاند سےچہرے تابش


یہ جو چہرےہیں یہاں چاند سےچہرے تابش

یہ میرا عشق مکمل نہیں ہونے دیں گے


تا کہ مجھ کو وہ سوچتی ہی رہے


تا کہ مجھ کو وہ سوچتی ہی رہے 

میں اُسے بَد گمان رکھتا ہوں


محبت کہانیوں میں تھی


محبت کہانیوں میں تھی 
تم سچ میں ڈھونڈنے نکل پڑے





ﻭﮦ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ


ﻭﮦ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ

ﺗُﻮ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ !


زندگی تو نے دکاں کھول کے لکھ رکھّا ہے


زندگی تو نے دکاں کھول کے لکھ رکھّا ہے

اپنی مرضی کا کوئی رنج اٹھائيں، جائيں



ہم دو چار محبت لکهنے والے لوگ


ہم دو چار محبت لکهنے والے لوگ
دنیا جیسا ! بن سکتے تهے نہیں بنے


اُس شخص کی منزل تھی کوہ کاف سے آگے


اُس شخص کی منزل تھی کوہ کاف سے آگے

اور میں راہ میں پڑتے کسی گاؤں کی طرح تھا



انسان یہ سمجھ کر جھوٹ بولتا ہے






انسان یہ سمجھ کر جھوٹ بولتا ہے کہ کبھی پکڑا نہیں جائے گا اور اس یقین کے ساتھ دھوکا دیتا ہے کہ اگلا بیوقوف کبھی اسکی عیاری اور مکاری جان نہیں پائے گا مگر اللہ کا قانون بڑا مختلف ہے انسان کو وہاں آکر ٹھوکر لگتی ہے جہاں اسے پار پہنچ جانے کا سب سے زیادہ یقین ہوتا ہے


دن بھی اداس اور مری رات بھی اداس


دن بھی اداس اور مری رات بھی اداس

ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی


مرِے حال پر مجھے چھوڑ دے ،



مرِے حال پر مجھے چھوڑ دے ،
 مجھے مت بُلا ، مجھے مت رُلا
دلِ مضطرب سے کوئی صدا ،
 جو اُٹھی تو حشر اُٹھائے گی


لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں





لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں یہ کہ ان سے کتنی محبت کی 
گئی 
یہ کہ ان کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں کوئی کتنی راتیں ان کے لیے جاگا ،کتنی صبحیں انگاروں پے گزاریں کیا کچھ چھوڑ دیا ،کیا کچھ داؤ پے لگا دیا ! لوگ بھول جاتے ہیں ،بھولنے والے سب بھول جاتے ہیں 
!


تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر


تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر

کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بد مزہ نہ لگے


میں تِرے عشق میں اِس حال تک آ پہنچا ہوں


میں تِرے عشق میں اِس حال تک آ پہنچا ہوں

جو بھی دیکھے مجھے کہہ اٹھتا ہے: حد ہے ' حد ہے


ہائے وہ لوگ جو گئے چاند سے ملنے اور پھر


ہائے وہ لوگ جو گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے


خاموشیاں ہی بہتر ہیں...


خاموشیاں ہی بہتر ہیں...

لفظوں سے لوگ روٹھ جاتے ہیں...


شام آ گئی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا


شام آ گئی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا

تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر؟


ﺑَﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﻗَﻠَﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻏَﻀَﺐ ﺗﮭﺎ،


ﺑَﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﻗَﻠَﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻏَﻀَﺐ ﺗﮭﺎ،
\
ﺻَﺪ ﺷُﮑﺮ ﮐﮧ ﮨﮯ ﮐﺎﺗِﺐِ ﺗَﻘﺪِﯾﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍَﻭﺭ !...



ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ـ ـ ـ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﺎ ﮐﮩﺎﮞ ؟


ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ـ ـ ـ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﺎ ﮐﮩﺎﮞ ؟

ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ـــ ﺟﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ


ساجد یہ سمجھ نہیں آیا کہ مسیحا


ساجد یہ سمجھ نہیں آیا کہ مسیحا
خود ہنستا رہا، گریہ کناں کیوں مجهے رکها. ..


درد اُٹھا تھا جو دشمن کو شکستہ دیکھا


درد اُٹھا تھا جو دشمن کو شکستہ دیکھا

ہم نشیں ٹوٹ کے بکھرا تو قیامت ہو گی


Wednesday, February 10, 2016

Tuesday, February 9, 2016

I believe that





I believe that Unexpected Results & Problemsare Part of Life , Never loose Hope in any Kind of Situation Because Darkness of Night always Finishes with Light of Day ...........


Kar liyea mefooz khud ko raaoga'an hotey huey


Kar liyea mefooz khud ko raaiga'an hotey huey

Mainey jab dekha kisi ko bad gumaan hotey Huey. !

محبت






محبت اور ضرورت
ضرورت سے محبت
یا پھر
محبت کی ضرورت
محبت اور ضرورت دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہاں اللہ کی 
ضرورت سب کو ہے۔ سب اذیت میں، اذیت سے بچنے کے لیۓ بےساختہ اللہ اللہ کر اٹھتے ہیں۔ مگر اللہ سے محبت کچھ اور ہی چیز ہے۔ کچھ بہت ماورا، شاید بیان سے باہر!
اس محبت میں تو، دنیا کی نظر میں انسان اذیت میں بھی ہو تو اسے وہ اذیت نہیں لگتی۔ بلکہ محبت والے اس میں بھی صبر و شکر و حمد کے بہانے تلاش لیتے ہیں۔ وہاں صبر کرنے کے لیۓ حکمت سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ وہاں محبت 
میں تسلیم ورضا ہی جامِ محبت ہوتا ہے!



ایک اور صبح





بلآخر ایک اور صبح بیدار ہوئی۔ یا آنکھیں پھر سے وقت کے 


فریب کی زَدّ میں آگئیں؟ کہ وہی گزشتہ صبح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی صبح اور نئے دن کے نام سے نمودار ہوئی چاہتی ہے؟ زمان و مکان اور وقت کا تخلیق کردہ رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جس نے وقت کو عجب فراوانی بخشی ہے کہ بے لگام گھوڑے کی مانند ہاتھ میں آئے بغیر سرپٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ یا کہ پھر ایسا سحر بخشا ہے کہ چُٹکی بجا کر سکّے کے دو پہلوؤں کی طرح دن اور رات کی صورت میں اُن کے رُخ بدلتا رہتا ہے۔


کتنا عجیب ہے یہ سب؟ ایک صبح کل ہوئی تھی، ایک آج ہوئی ہے، اور ایک نے کل امرِ ربی سے ہونا ہے۔ ہر صبح کے ساتھ جڑی انسانی کیفیات میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں اپنا چکر مکمل کرتے رہتے ہیں۔ مگر اِس صبح میں کوئی تغیّر نظر نہیں آتا۔ ہے ناں سحر، جادو، آنکھوں کا فریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوچ رہی ہوں کہ جب کائینات بنی تھی، معلوم نہیں کہ شروعات دن سے ہوئی تھی یا کہ رات سے، مگر اُس پہلے دِن کی صبح ضرور ہوئی ہوگی۔ اور اِسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اِس دنیا کا کاروبار اپنے انجام کو پہنچے گا، اور تب رات ہو گی یا دن؟ مگر یہ بھی طے ہے کہ اُس دن کی صبح بھی ضرور ہو گی۔


شاید ہمارے نزدیک دن اور رات کی پہچان صرف اندھیرے اور اُجالے تک ہی محدود ہے۔ مگر چاندنی راتیں تو اندھیری نہیں ہوتیں، اور نہ سورج گرہن کے وقت دن روشن ہوتا ہے۔ تو پھر دن اور رات کی پہچان کیا ہے؟ یہ روز نئی صبح کیوں نمودار ہو جاتی ہے؟ کیوں اُس رات کا قصّہ اُسی رات تک محدود رہ جاتا ہے؟ کوئی اگر اپنی کیفیت سے نکل کر نئی صبح چاہتا ہے تو کیوں اُس وقت رات ہو چکی ہوتی ہے؟ اور کوئی اگر صبح سے بیزار رات کا طلبگار ہے تو کیوں اُس کے متھے نئی صبح مار دی جاتی ہے؟ کیا اس کائینات میں رُونما تمام محرک عوامل نے صرف انسان پر ہی اثر انداز ہونا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہماری طبیعت کے مخالف کیوں؟ موافق کیوں نہیں؟


کہنے کو تو صبح ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اندھیرا اب بھی باقی ہے۔




دُعا



دُعا مانگتے وقت جن کے نام خود بخود دل میں آ جائیں، ان کا
ہماری دُعاؤں پہ زیادہ حق ہوتا ہے۔ شاید ایسا اس لیئے ہے کہ وہ بھی ہمیں کہیں نہ کہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ 

ہماری زندگی میں کُچھ لوگوں کا کردار، محض تپتی ہوئی زمین پہ برستی بارش کی اُن چند بوندوں کی طرح ہوتا ہے۔ کہ جن کے برسنے سے پہلے بھی گُھٹن، بعد میں بھی گُھٹن۔

موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولتے ہوؤں کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے چُپ کروا دیتی ہے، لیکن پھر بھی کچھ لوگ بول پڑتے ہیں۔ اور میں نہیں چاہتی کہ میں بولوں، میں چاہتی ہوں کہ میں بھی چُپ کر 
جاؤں۔


بوجھ


مُجھ سے ایک بار کسی نے پُوچھا تھا کہ کہکشاں آپ کے 
نزدیک زندگی کا سب سے بڑا بوجھ کیا ہے؟"
میں نے کہا تھا کہ صورتحال پہ منحصر ہے۔ ہر انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں، تو کسی کے لیئے تنہائی بوجھ، کسی کو غربت بوجھ لگتی ہے، کسی کے لیئے مال و دولت، کسی کو ذمہ داریاں اور فرائض اور کسی کی نظر میں رشتے سب سے بڑے بوجھ ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا "نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری زندگی کا سب سے بڑا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ تنہائی، مال و دولت، غربت، فرائض و ذمہ داریاں اور نہ ہی رشتے۔"
"ہماری زندگی کا سب سے بڑا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "گناہ" کا بوجھ ہوتا ہے۔ اور پتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب جانتے ہوئے بھی زینہ در زینہ ہم اوپر چڑھتے جاتے ہیں۔ یار یہ گناہ کا بوجھ سب 
سے بڑا بوجھ ہوتا ہے 


موم بتیاں




سوچ رہی تھی کہ آخر خود کو کتنا فریب دینے کی کوشش کروں گی ؟ کچھ دیر کے لیئے دوسرے تو میرے فریب کی زد میں آ سکتے ہیں، مگر میں خود نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے رُوبرو کوئی دوسرا نہیں، میں خود ہوں۔

میں نے اپنے اندر کی تاریکی کو ختم کرنے کی خاطر اپنے ارد گرد بے شُمار موم بتیوں کا سہارا لے رکھا ہے۔ ایک بُجھنے لگتی ہے تو دوسری جلا لیتی ہوں۔ مگر کبھی یہ جسارت تک نہیں کی کہ تھوڑا سا اور آگے بڑھ کراُس ایک بلب کو ہی روشن کر لوں جو سدا کے لیئے میرے وجود کو اُجالوں سے روشناس کر دے۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!

شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈرتی ہوں، اگر وہ بلب روشن ہو گیا تو مجھے 

ساری موم بتیاں بُجھانی پڑیں گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Thursday, February 4, 2016

Wednesday, February 3, 2016

میں ایک بلاگر ہوں۔






میں ایک بلاگرہوں۔ ایک عدد بلاگ بنا کر اردو بلاگنگ نامی سڑک کے کنارے


عرصہ دس برس سے پڑی ہوئی ایک ایسی پتھر ہوں جس پر دھوپ، بارش، گرمی، سردی نے کچھ نشانات چھوڑ دئیے ہیں، کہیں کچھ کائی سی جمی ہے، کچھ خراشیں آ چکی ہیں، کچھ کنارے جھڑ چُکے ہیں اور کچھ رنگ اُڑ چکا ہے۔ یعنی بحیثیتِ مجموعی ایک "قدیم" حجر شمار ہو سکتی ہوں۔ اس "قدامت" پر اکثر اوقات مجھے ایک کمینہ سا فخر رہا کرتا ہے۔

میں اردو بلاگنگ نامی سڑک کی ایک ایسی سنگِ میل ہوں جو ایک ویرانے میں نصب ہے۔ جب یہ سڑک میرے پاس سے گزرتی ہے تو صرف ویرانہ اور بنجر بیابان زمین نظر آتی ہے۔ گو کہ یہ سڑک بڑے زرخیز خِطوں اور علاقوں سے گزرتی ہے، اس کی راہ میں بڑے نابغۂ روزگار لکھاریوں کے گھر آتے ہیں اور پھر اب تو اردو بلاگنگ نامی یہ سڑک ڈان اردو، جنگ بلاگز، ہم سب اور لالٹین جیسے کئی بڑے بڑے شہروں تک بھی جاتی ہے۔ لیکن میں ایک تنہائی پسند پتھر ہوں جسے اس سڑک کا ایک گمنام سا سنگِ میل رہنا منظور ہے۔

میں بلاگر ہونے کے ناطے ایک لکھاری بھی ہوں۔ لیکن میری مثال راج مستری کے مقابلے میں ایک ایسے مزدور کی سی ہے جو اینٹیں ڈھونے کے ساتھ ساتھ فرش ہموار کر کے اس پر سیمنٹ ڈال کر ذرا پکا صحن بنانے کا کام بھی جاننے لگ جاتا ہے۔ اور اسی جاننے میں خود کو راج مستری سمجھنے لگتا ہے۔ میں بھی ایسی ہی ایک نیم پکی ہوئی لکھاری ہوں جس کا مطالعہ کم ہوتے ہوتے صفر تک آن پہنچا ہے۔ جس کے پاس مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ وہ جب لکھتی ہے تو راج مستری نما مزدور کی طرح ایک اونچا نیچا فرش بنا دیتی ہے۔ دیوار کھڑی کرتی ہے تو ٹیڑھی ہوتی ہے، چھت ڈالتی ہے تو پہلی برسات میں ہی رِسنے لگتی ہے۔ میں ایک ایسی لکھاری ہوں جو کنویں میں رہنے والے مینڈک کی طرح صرف ایک اور شخصیت سے واقف ہوتی ہے : اس کا اپنا عکس۔ چنانچہ جب کنویں کا مینڈک کچھ ارشاد کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی شان میں ہی فرمائی گئی کوئی بات ہوتی ہے۔ میری تنگ دستی، کم فہمی اور کوتاہ نظری کسی بھی بیرونی معاملے پر میری تحریر کے امکانات صفر کر دیتی ہے نتیجتاً میں خود پر، اپنے بارے میں، اپنے سے متعلق اشیاء کے بارے میں لکھتی ہوں جس کا پڑھنے والے سے شاذ ہی کوئی تعلق نکلتا ہے۔


اپنے اس بے ترتیب، بے ڈھنگے سفر میں مُجھ سے نادانستگی میں کچھ ایسی بلاگ پوسٹیں سرزد ہو چکی ہیں جنہیں وسیع و عریض صحرا میں پانی کے سراب سے تشبیہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ کہ کبھی کبھی میرے قارئین کو لگتا ہے کہ میں ایک ہنرمند مستری قسم کا لکھاری ہو چکی ہوں۔ لیکن یہ کیفیت برسوں میں ہی کبھی وارد ہوتی ہے۔ اپنی اس مختصر سی بلاگ زندگی میں چلتے چلتے بائی داو ے قسم کے دو چار ایسے کام مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں جن پر بلاشبہ مذکورہ بالا کمینہ سا فخر میں اپنا حق خیال کرتی ہوں۔ ان میں کسی زمانے میں ورڈپریس کے ترجمے کی کوشش، لینکس آپریٹنگ سسٹم کی تنصیب کے اسباق، اردو بلاگنگ کے حوالے سے کچھ پوسٹس، کچھ اردو نیوز ویب سائٹس کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایک ٹیکسٹ آرکائیو بنانا، اور حالیہ برسوں میں اپنے ترجمے کے کام کو آسان بنانے کے لیے ادھر اُدھر سے ڈیٹا اکٹھا کر کے دو تین آفلائن اردو لغت ڈیٹا بیسز کی تخلیق جیسی چیزیں شامل ہیں۔


تنہائی کا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے بِل سے نکلنا مجھے کم ہی پسند ہے ۔ لیکن کبھی کبھی تجربے کی خاطر میں سوشل گیدرنگ میں بھی چلی جاتی ہوں۔ چنانچہ چند ایک اردو بلاگرز جو مجھ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف رکھتے ہیں وہ تصدیق کریں گے کہ ان الفاظ کو لکھنے والی ٹنڈمنڈ شخصیت کو دیکھ ان شاخوں پر کبھی بہار نہ اترنے کا گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔


چنانچہ اے میرے قارئین (اگر کوئی ہے تو) میری بلاگنگ پاکستان میں موسمِ گرما میں بجلی کی فراہمی جیسی ہے جو اکثر غائب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار آ بھی جاتی ہے۔ بلاگنگ کے نام پر ایک داغ ہونے کی حیثیت سے میں شرمندہ شرمندہ کسی کو اپنے بلاگ پر کھینچنے کے لیے جگہ جگہ اپنی بلاگ پوسٹس کے ربط نہیں دیتی ، کسی بڑی ویب سائٹ کو اپنی تحریر نہیں بھیجتی (اگر ایسا کبھی ہوا بھی تو ناقابلِ اشاعت کا پیغام بھی موصول نہیں ہوتا)، اپنے بلاگ پر سینکڑوں پیج ویوز کی شماریات کا اعلان نہیں کرتی (چونکہ سینکڑوں پیج ویوز ہوتے ہی نہیں) اور اپنے بلاگ پر لکھے کو دو چار ماہ بعد خود ہی پڑھ کر خوش ہو لیتی ہوں۔ 


تو جناب آج آپ نے جانا کہ میں کیسی (یعنی کس قسم کی ) اور کیسے (یعنی کس طرح سے) بلاگر ہوں۔ تو آپ اگر مانیں یا نہ '
مانیں میں ایک بلاگر ہوں، اور بلاگنگ کے گلے میں اٹکا ایک ایسا کانٹا ہوں جو 
نہ نِگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا جا سکتا ہے



Tuesday, February 2, 2016

وہ میری خاموشی نہیں سنتا


وہ میری  خاموشی نہیں سنتا 
اور
 میں مجھ سے آواز نہیں دی جاتی

 
')