Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Showing posts with label میر تقی میر. Show all posts
Showing posts with label میر تقی میر. Show all posts

Wednesday, November 22, 2017

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے






پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے 
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے 
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک 
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے 
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں 
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے 
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں 
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے 
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں 
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے 
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ 
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے 
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں 
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے 
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا 
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے 
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی 
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے 
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش 
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے



الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا









الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 


دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا 








عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند 


یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا 








حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی 


ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا 








ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 


چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا 








سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں 


بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا 








سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی 


کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا 








کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام 


کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا 








شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں 


جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا 








کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے 


آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا 








یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے 


رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا 








صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی 


رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا 








ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے 


بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا 








کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے 


استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا 








ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی 


سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا 








میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو 


قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا 







ویڈیو











مہدی حسن


Urdu Studio


بھارتی وشواناتھن


بیگم اختر


فرانسس ڈبلیو پریچیٹ


RECITATIONS


شمس الرحمن فاروقی


احمد محفو
')