Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Wednesday, February 3, 2016

میں ایک بلاگر ہوں۔






میں ایک بلاگرہوں۔ ایک عدد بلاگ بنا کر اردو بلاگنگ نامی سڑک کے کنارے


عرصہ دس برس سے پڑی ہوئی ایک ایسی پتھر ہوں جس پر دھوپ، بارش، گرمی، سردی نے کچھ نشانات چھوڑ دئیے ہیں، کہیں کچھ کائی سی جمی ہے، کچھ خراشیں آ چکی ہیں، کچھ کنارے جھڑ چُکے ہیں اور کچھ رنگ اُڑ چکا ہے۔ یعنی بحیثیتِ مجموعی ایک "قدیم" حجر شمار ہو سکتی ہوں۔ اس "قدامت" پر اکثر اوقات مجھے ایک کمینہ سا فخر رہا کرتا ہے۔

میں اردو بلاگنگ نامی سڑک کی ایک ایسی سنگِ میل ہوں جو ایک ویرانے میں نصب ہے۔ جب یہ سڑک میرے پاس سے گزرتی ہے تو صرف ویرانہ اور بنجر بیابان زمین نظر آتی ہے۔ گو کہ یہ سڑک بڑے زرخیز خِطوں اور علاقوں سے گزرتی ہے، اس کی راہ میں بڑے نابغۂ روزگار لکھاریوں کے گھر آتے ہیں اور پھر اب تو اردو بلاگنگ نامی یہ سڑک ڈان اردو، جنگ بلاگز، ہم سب اور لالٹین جیسے کئی بڑے بڑے شہروں تک بھی جاتی ہے۔ لیکن میں ایک تنہائی پسند پتھر ہوں جسے اس سڑک کا ایک گمنام سا سنگِ میل رہنا منظور ہے۔

میں بلاگر ہونے کے ناطے ایک لکھاری بھی ہوں۔ لیکن میری مثال راج مستری کے مقابلے میں ایک ایسے مزدور کی سی ہے جو اینٹیں ڈھونے کے ساتھ ساتھ فرش ہموار کر کے اس پر سیمنٹ ڈال کر ذرا پکا صحن بنانے کا کام بھی جاننے لگ جاتا ہے۔ اور اسی جاننے میں خود کو راج مستری سمجھنے لگتا ہے۔ میں بھی ایسی ہی ایک نیم پکی ہوئی لکھاری ہوں جس کا مطالعہ کم ہوتے ہوتے صفر تک آن پہنچا ہے۔ جس کے پاس مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ وہ جب لکھتی ہے تو راج مستری نما مزدور کی طرح ایک اونچا نیچا فرش بنا دیتی ہے۔ دیوار کھڑی کرتی ہے تو ٹیڑھی ہوتی ہے، چھت ڈالتی ہے تو پہلی برسات میں ہی رِسنے لگتی ہے۔ میں ایک ایسی لکھاری ہوں جو کنویں میں رہنے والے مینڈک کی طرح صرف ایک اور شخصیت سے واقف ہوتی ہے : اس کا اپنا عکس۔ چنانچہ جب کنویں کا مینڈک کچھ ارشاد کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی شان میں ہی فرمائی گئی کوئی بات ہوتی ہے۔ میری تنگ دستی، کم فہمی اور کوتاہ نظری کسی بھی بیرونی معاملے پر میری تحریر کے امکانات صفر کر دیتی ہے نتیجتاً میں خود پر، اپنے بارے میں، اپنے سے متعلق اشیاء کے بارے میں لکھتی ہوں جس کا پڑھنے والے سے شاذ ہی کوئی تعلق نکلتا ہے۔


اپنے اس بے ترتیب، بے ڈھنگے سفر میں مُجھ سے نادانستگی میں کچھ ایسی بلاگ پوسٹیں سرزد ہو چکی ہیں جنہیں وسیع و عریض صحرا میں پانی کے سراب سے تشبیہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ کہ کبھی کبھی میرے قارئین کو لگتا ہے کہ میں ایک ہنرمند مستری قسم کا لکھاری ہو چکی ہوں۔ لیکن یہ کیفیت برسوں میں ہی کبھی وارد ہوتی ہے۔ اپنی اس مختصر سی بلاگ زندگی میں چلتے چلتے بائی داو ے قسم کے دو چار ایسے کام مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں جن پر بلاشبہ مذکورہ بالا کمینہ سا فخر میں اپنا حق خیال کرتی ہوں۔ ان میں کسی زمانے میں ورڈپریس کے ترجمے کی کوشش، لینکس آپریٹنگ سسٹم کی تنصیب کے اسباق، اردو بلاگنگ کے حوالے سے کچھ پوسٹس، کچھ اردو نیوز ویب سائٹس کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایک ٹیکسٹ آرکائیو بنانا، اور حالیہ برسوں میں اپنے ترجمے کے کام کو آسان بنانے کے لیے ادھر اُدھر سے ڈیٹا اکٹھا کر کے دو تین آفلائن اردو لغت ڈیٹا بیسز کی تخلیق جیسی چیزیں شامل ہیں۔


تنہائی کا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے بِل سے نکلنا مجھے کم ہی پسند ہے ۔ لیکن کبھی کبھی تجربے کی خاطر میں سوشل گیدرنگ میں بھی چلی جاتی ہوں۔ چنانچہ چند ایک اردو بلاگرز جو مجھ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف رکھتے ہیں وہ تصدیق کریں گے کہ ان الفاظ کو لکھنے والی ٹنڈمنڈ شخصیت کو دیکھ ان شاخوں پر کبھی بہار نہ اترنے کا گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔


چنانچہ اے میرے قارئین (اگر کوئی ہے تو) میری بلاگنگ پاکستان میں موسمِ گرما میں بجلی کی فراہمی جیسی ہے جو اکثر غائب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار آ بھی جاتی ہے۔ بلاگنگ کے نام پر ایک داغ ہونے کی حیثیت سے میں شرمندہ شرمندہ کسی کو اپنے بلاگ پر کھینچنے کے لیے جگہ جگہ اپنی بلاگ پوسٹس کے ربط نہیں دیتی ، کسی بڑی ویب سائٹ کو اپنی تحریر نہیں بھیجتی (اگر ایسا کبھی ہوا بھی تو ناقابلِ اشاعت کا پیغام بھی موصول نہیں ہوتا)، اپنے بلاگ پر سینکڑوں پیج ویوز کی شماریات کا اعلان نہیں کرتی (چونکہ سینکڑوں پیج ویوز ہوتے ہی نہیں) اور اپنے بلاگ پر لکھے کو دو چار ماہ بعد خود ہی پڑھ کر خوش ہو لیتی ہوں۔ 


تو جناب آج آپ نے جانا کہ میں کیسی (یعنی کس قسم کی ) اور کیسے (یعنی کس طرح سے) بلاگر ہوں۔ تو آپ اگر مانیں یا نہ '
مانیں میں ایک بلاگر ہوں، اور بلاگنگ کے گلے میں اٹکا ایک ایسا کانٹا ہوں جو 
نہ نِگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا جا سکتا ہے



No comments:

Post a Comment

')