بلآخر ایک اور صبح بیدار ہوئی۔ یا آنکھیں پھر سے وقت کے
فریب کی زَدّ میں آگئیں؟ کہ وہی گزشتہ صبح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی صبح اور نئے دن کے نام سے نمودار ہوئی چاہتی ہے؟ زمان و مکان اور وقت کا تخلیق کردہ رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جس نے وقت کو عجب فراوانی بخشی ہے کہ بے لگام گھوڑے کی مانند ہاتھ میں آئے بغیر سرپٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ یا کہ پھر ایسا سحر بخشا ہے کہ چُٹکی بجا کر سکّے کے دو پہلوؤں کی طرح دن اور رات کی صورت میں اُن کے رُخ بدلتا رہتا ہے۔
کتنا عجیب ہے یہ سب؟ ایک صبح کل ہوئی تھی، ایک آج ہوئی ہے، اور ایک نے کل امرِ ربی سے ہونا ہے۔ ہر صبح کے ساتھ جڑی انسانی کیفیات میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں اپنا چکر مکمل کرتے رہتے ہیں۔ مگر اِس صبح میں کوئی تغیّر نظر نہیں آتا۔ ہے ناں سحر، جادو، آنکھوں کا فریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ رہی ہوں کہ جب کائینات بنی تھی، معلوم نہیں کہ شروعات دن سے ہوئی تھی یا کہ رات سے، مگر اُس پہلے دِن کی صبح ضرور ہوئی ہوگی۔ اور اِسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اِس دنیا کا کاروبار اپنے انجام کو پہنچے گا، اور تب رات ہو گی یا دن؟ مگر یہ بھی طے ہے کہ اُس دن کی صبح بھی ضرور ہو گی۔
شاید ہمارے نزدیک دن اور رات کی پہچان صرف اندھیرے اور اُجالے تک ہی محدود ہے۔ مگر چاندنی راتیں تو اندھیری نہیں ہوتیں، اور نہ سورج گرہن کے وقت دن روشن ہوتا ہے۔ تو پھر دن اور رات کی پہچان کیا ہے؟ یہ روز نئی صبح کیوں نمودار ہو جاتی ہے؟ کیوں اُس رات کا قصّہ اُسی رات تک محدود رہ جاتا ہے؟ کوئی اگر اپنی کیفیت سے نکل کر نئی صبح چاہتا ہے تو کیوں اُس وقت رات ہو چکی ہوتی ہے؟ اور کوئی اگر صبح سے بیزار رات کا طلبگار ہے تو کیوں اُس کے متھے نئی صبح مار دی جاتی ہے؟ کیا اس کائینات میں رُونما تمام محرک عوامل نے صرف انسان پر ہی اثر انداز ہونا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہماری طبیعت کے مخالف کیوں؟ موافق کیوں نہیں؟
کہنے کو تو صبح ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اندھیرا اب بھی باقی ہے۔
No comments:
Post a Comment