Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Wednesday, July 14, 2010
Friday, May 14, 2010
Thank you for being with me
I started this page 12 years ago when I needed a dedicated space in my life to focus on reading. Since then, it has grown into a place for the poetry, literature, art that has moved me, even changed me. It helped me connect to with thousands of people and introduced me to wonderful, creative people. It’s hard to believe there was a time before I had even heard of poets and writers like Khadija Mastoor, Kishwar Naheed, Mazhar ul Islam, Umera Ahmed, Mohsin Hamid, Daniyal Mueenuddin,
Jane Hirshfield, Rainer Maria Rilke, Gabriel García Márquez, Rumi. Tumblr, Blogs, Pinterest, and Books have given me that precious gift.
lt brings me great joy to share the poetry, books I am reading and engaging with, but it also takes up a great deal of time. Now a days I am not able to find time to share. I don't know what exactly I feel. I need my space and time.
Thank you for being with me even after the old page got hacked.
Thank you all for the support and love. It means a lot.
Much love, light and peace.
- D
Monday, January 25, 2010
فیس بُک
انڈین فلموں میں دس بارہ ایکسٹرے اکٹھے کرکے منتریوں اور بڑے لوگوں کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ اوپن سورس کی دنیا میں بھی ہائے ہائے کے نعرے لگتے رہتے ہیں جن کا نشانہ عمومًا مائیکروسافٹ اور اس کی پراڈکٹس ہوتی ہیں۔ اور اس کے "حواری" بھی نہیں بچتے، جیسے نوویل جو ڈاٹ نیٹ فریم ورک کا اوپن سورس متبادل مونو بناتی ہے۔ خیر بات تھی فیس بُک کی ہائے ہائے کی۔ اوپن سورس والے جب کسی کی ہائے ہائے کرنا چاہیں تو اس چیز کا اوپن سورس متبادل شروع کردیتے ہیں۔ فلیش پلئیر کا اوپن سورس متبادل آیا جی نیش، چلا یا نہیں چلا یہ الگ بات ہے۔ اسی طرح مائیکروسافٹ آفس کا متبادل اوپن آفس ہے جو کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر والی بات ہے۔
تو جناب اب فیس بُک کے حالیہ پرائیویسی کے خلاف اقدامات نے بہت سے لوگوں کے احتجاج پر مجبور کردیا۔ قصہ ان کا یہ ہے کہ فیس بُک اپنی پارٹنر ویب سائٹس کے ساتھ آپ کی پروفائل سے معلومات شئیر کرے گا چناچہ جب آپ فیس بُک سے وہاں تشریف لے جائیں گے تو آپ کی آںکھوں کے سامنے وہی چیزیں نچائی جائیں گی جنھیں آپ نے وش لسٹ میں رکھا ہوا ہے یا فیورٹ لسٹ میں جیسے کوئی کتاب جو آپ پڑھنا چاہ رہے ہیں۔ امریکی سینٹرز سے لے کر عام لوگوں تک سب نے اس بات پر فیس بُک کو لعن طعن کیا ہے لیکن فیس بُک نے نہیں مان کر دی۔ تو اب اوپن سورس والے میدان میں آگئے، چار طلباء نے مل کر ڈائیاسپورا تشکیل دینے کا سوچا ہے جو کہ فیس بُک کی طرح کی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہوگی لیکن آپ کے کنٹرول میں، آپ کی مرضی کے مطابق پرئیویسی مہیا کرتے ہوئے۔ اور اس کام کے لیے انھوں نے فنڈ ریزنگ بھی شروع کی ہوئی ہے۔ فی الحال ان کے پاس اٹھاون ہزار ڈالر ہوچکے ہیں اور ابھی ان کے بیس دن باقی ہیں چندہ مہم کے۔ یعنی ایک لاکھ ڈالر سے اوپر ہوجائے گا اور اس کے بعد یہ نیٹ ورکنگ سائٹ شروع ہوگی۔ اور میں تو اس کا رکن دوڑ کر بنوں گا استعمال چاہے میں فیس بُک ہی کروں۔ آخر انگلی کٹا کر شہیدوں میں بھی تو شامل ہونا ہے۔ ہمیشہ کی طرح جیسے لینکس میرے پاس انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اوپن آفس بھی انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اس کی رکنیت بھی ہوگی استعمال ۔۔۔۔۔
فیس بُک کے باغی ڈائیاسپورا میں پناہ لے سکتے ہیں انھیں ویلکم کہا جائے گا، ایک اور فیس بُک آگئی ہے ہر ڈومین سے فیس بُک نکلے گی تم کتنی فیس بُک چھوڑو گے۔
Wednesday, September 30, 2009
دل بولے ہڑپہ
لو جی آج ہمارے پاس کچھ وقت تھا تو ہم نے انڈین مووی دل بولے ہڑپہ دیکھی۔ لگان، چک دے انڈیا وغیرہ کی طرح ایک اور کھیل کے گرد گھومتی کہانی اور اس بار پھر سے کرکٹ۔ اور کرکٹ بھی انڈیا پاکستان کی۔ اچھی کہانی ہے لیکن جگہ جگہ یہ لگتا ہے کہ فلمی کہانی ہے۔ اتفاقات اتنے ڈھیر سارے ہیں جن میں رانی مکھر جی کے مردانہ کیرکٹر سے لے کر اس کے شاہد کپور سے ملنے تک کئی واقعات شامل ہیں۔ مووی کا اختتام خاصا جذباتی ہے۔ جیسا کہ بالی وڈ کی فلموں کا خاصا ہے۔ جذبات میں لتھڑا ہوا یہ دی اینڈ بہت سے ننھے ننھے جھول بھی لیے ہوئے ہے۔ جیسے میچ میں شاہد کپور کے ہاتھ ہیروئن کے مرادانہ گیٹ اپ کا حصہ اس کا لینز آجاتا ہے جبکہ مونچھ داڑھی نہیں آتی حیرت کی بات ہے۔ یعنی ہیرو جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر لینز نکال لاتا ہے گویا۔
20 20 میچ میں پاکستان کے دو سو سے زیادہ رن کا پہاڑ کھڑا کروایا گیا اور پھر اسے بڑے سٹائل سے آخری تین چار اورز میں پورا کروایا گیا۔ لمبی چھوڑی ہے فلم لکھنے والے نے بھی۔ بہرحال جی اچھی فارمولا فلم تھی دو گھنٹے اچھے گزر گئے۔
آپ کے سر سے اگر یہ پوسٹ گزر گئی ہو تو معذرت کے ساتھ۔ آپ پہلے اوپر دئیے گئے ربط سے فلم اتاریں، دیکھیں اور پھر اس پوسٹ کو پڑھیں۔ چونکہ ہم نے پہلے کسی فلم پہ تبصرہ نہیں کیا اس لیے آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوگا۔ ;)
سمجھ لیں دل کا ساڑ نکالا ہے۔ کمبختوں نے ملوانا ہیرو ہیروئن کو تھا پاکستان کو ایویں گھسیڑ دیا بیچ میں اور اسے بھی آخر میں ہروا دیا۔ لے دس جاتے جاتے ایک اور بات ہیروئن کھڑی لاہور میں ہے اور مثالیں دئیے جاتی ہے اندراگاندھی اور رانی جھانسی کی۔ لے دس تماشائی تو پاکستانی ہیں تم ان سے مخاطب ہو یا فلم دیکھنے والوں سے۔ غالبًا فلم دیکھنے والوں سے ہی مخاطب ہوگی۔ خیر تسیں فلم دیکھو
Friday, September 4, 2009
فن پارے
لیجیے جناب فن پارے دیکھیں۔
فن کار کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ لیکن میرا ذوق شاید ریڑھی والوں جیسا ہے جس کی
وجہ سے مجھے یہ تصویریں(؟) دیکھ کر "آلو لے گوبھی لے ٹینڈے لے ٹماٹر لے" کی صدائیں یاد آرہی ہیں جو ہماری گلی میں سبزی والے دیتے ہیں اور شاید اپنے آپ کو شاعر بھی سمجھتے ہیں۔
Wednesday, June 17, 2009
اردو بلاگنگ
فدوی اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے۔ سمجھ لیں کہ آثار قدیمہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اردو بلاگنگ کے بابے نبیل، دانیال، زکریا ، قدیر احمد، نعمان وغیرہ کو دیکھ کر بلاگنگ کا خیال آیا اور غالبًا 2006 کے شروع یا 05 کے آخر میں بلاگ بنا لیا تھا۔ پہلے بلاگر پر رہی پھر ایک فری ہوسٹ پر منتقل کیا پھر اردو کوڈر پر رہی اور اب پھر بلاگر پر واپس ہے۔ اس دوران نام بھی بدلا کام بھی بدلا کبھی لکھنا چھوڑا کبھی بہت زیادہ لکھا قصہ مختصر یہ کہ ایک ٹُٹا پجا سی بلاگر ہوں اور اردو کی بلاگر ہوں۔ شروع میں بلاگ پر لکھنے کے لیے گھنٹوں سوچا کرتی اور بہترین لکھنے کی کوشش کرتی پھر احساس ہوا یہ تو آنلائن ڈائری ہے جو مرضی لکھو بلکہ بکواس کرو اور بھول جاؤ۔ چناچہ اب اگرچہ بکواس نہیں کرتی تو زبان سے پھول بھی نہیں جھڑتے۔
ایک وقت تھا جب ٹیکنالوجی پر لکھا، ورڈپریس پر لکھا، لینکس پر لکھا لیکن اب وقت ہی نہیں ہے ورنہ دل تو بہت کرتا ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے۔ اب تو بہت ردو رونق شونق ہوگئی ہے اور اردو بلاگنگ کی بیٹھک بہت بڑی ہوتی جارہی ہے۔ اردو کی طالب علم ہوں اور اردو کی بولنے والی ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ زبان کا خیال رکھیں۔ اردو کے سپیل چیکر دستیاب نہیں ،ہیں بھی تو ڈیفالٹ تنصیب میں نہیں ملتے ،مل بھی جائین تو ہم انسٹال نہیں کرتے ،کر بھی لیں تو انگریزی سے اردو میں ہر بار سوئچ کرنا مسئلہ لگتا ہے۔ کئی سارے مسائل ہیں لیکن اگر ان مسائل کو تھوڑی سی توجہ سے حل کیا جاسکتا ہے۔انگریزی استعمال کرتے ہوئے ہم سیپلنگ کا بہت خیال کرتے ہیں اردو لکھتے ہوئے بھی ہجوں اور املاء کا خیال کرلیا کریں۔ لوگ ذ کو ز لکھ جاتے ہیں ح کو ہ لکھ جاتے ہیں اچھے خاصے لفظ کو بچوں کی طرح ص کی بجائے س سے لکھ جاتےہیں۔ یہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں یہ تاریخ ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کا ورثہ۔ اگر ہم نے اردو کی معیار بندی نہ کی تو بہت نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدارا اپنی زبان کو بچائیں۔ اب تو بار بار ایک بلاگ پر ہی املاء کی غلطیاں نکالنے کے لیے تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ احباب ناراض نہ ہوجائیں۔ بس شرم آتی ہے۔ بخدا دو تین املاء کی غلطیاں دیکھ لوں تو اکتا کر پوسٹ کو ایسے ہی چھوڑ دیتا ہوں پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ آپ احباب سے یہ التماس ہے کہ خدارا تحریر کو ایک بار لکھ کر پڑھ لیا کریں۔ اس کی نوک پلک سنوار لیا کریں کم از کم املاء کی غلطیاں تو ٹھیک کرلیا کریں۔ کسی بھی زبان کا رسم الخط اور اس کا صوتی یعنی فونیٹک سسٹم اس کی بنیاد ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو بچا لیا جائے تو زبان کبھی نہیں مرتی۔ اپنی زبان کو مرنے نہ دیں۔
وسلام
سندھ اور پانی
آج آؤ سنواریں پاکستان پر خاصی جذباتی سی پوسٹ پڑھی۔ اس میں بیان کیے گئے حقائق سے انحراف واقعی ممکن نہیں۔ سندھ کے ڈیلٹے کو واقعی خطرہ ہے اور سمندر تیزی سے آباد زمینیں نگل رہا ہے۔ پانی کی کمی نے واقعی تباہی مچائی ہے اور کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیریں علاقے والوں کا مطالبہ ہے کہ روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جائے جو کہ سمندر میں جاگرے تاکہ ڈیلٹا کا تحفظ ہوسکے۔ جبکہ اوپر والوں کا مطالبہ ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔
مجھے بہت ساری تکنیکی تفاصیل کا نہیں پتا لیکن اتنا جانتی ہوں کہ برسات کے موسم میں سیلاب آجاتا ہے۔ اور وہ سارا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ اگر اس پانی کو ڈیم بنا کر سٹور کرلیا جائے اور پھر دریا میں ہی سارا سال چھوڑا جاتا رہے تو اس سے شاید ڈیلٹا کا کچھ تحفظ ہوسکے۔ یاد رہے میں نہریں نکالنے کی بات نہیں کررہی بلکہ صرف ڈیم بنا کر اسے سٹور کیا جائے اور بجلی پیدا کی جائے اور پھر پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے۔ اس کی مثال پنجاب میں غازی بروتھا پاور پروجیکٹ ہے۔ مزید یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ سمندر کے راستے میں بند بنائے جائیں۔ اس کے لیے ہالینڈ کی مثال کو ذہن میں رکھیں جنھوں نے آدھا ملک سمندر خشک کرکے بنایا ہے۔ تجاویز اور منصوبے ڈھیر۔۔لیکن عمل کوئی نا
Monday, September 1, 2008
محمد علی مکی
آج محمد علی مکی سے بات ہورہی تھی۔ مکی آج کل اردو لینکس ڈِسٹرو پر کام کررہے ہیں۔ ان سے دوران چیٹ ترجمے کا کام، اس کی دیکھ بھال، اردو برادری کی حالت زار اور مستقبل کے نقشے پر کچھ بے معنی بکواس سی کی ہے۔ آپ کی نظر ہے۔ اس پر تھنکیں، اور مجھے چاہے نہ بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ پنجابی کی سمجھ نہ آئے تو اپنے اردگرد سے کسی پنجابی کو پکڑ لیں۔ کوئی نہ کوئی مل جائے گا جو آپ کو بتا دے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ خوش رہیں۔
شاکر: يار مکي پائين
شاکر: ميں نے کبھي يہ کام دل لگا کر نہيں
شاکر: کيا
شاکر: اسليے کہ
شاکر: ہر 3 ماہ بعد اس کا نيا ورژن آجانا ہے
شاکر: اور ايک بار ترجمہ کرنے کے بعد اس کي ديکھ بھال کے ليے پوري ٹيم چاہيے
شاکر: اور کوئي ماں کا لاڈلا اس کام کي زحمت کرنے کو تيار نہيں
شاکر: اس ليے مجھے يہ کام بے کار لگتا ہے
شاکر: اوپر سے اوبنٹو سائيں نے ڈيسکٹاپ کا حليہ بدل لينا ہے اگلے ورژن ميں
شاکر: بندہ کرے تے کي کرے
شاکر: تے کتھوں کتھوں کرے
شاکر: تے کنہوں کنہوں کرے
شاکر: يعني کھانا پينا بھي چھوڑ کر اعتکاف ميں بيٹھ جائے
شاکر: ايک ليپ ٹاپ لے کر
شاکر: اور ترجمہ ہي کرتا رہے ساري عمر، مفت والا
شاکر: خير ميں تہانوں dicourage نہيں کرريا
شاکر: تُسيں کرو اے کم
شاکر: تے ميں جو مدد کرسکيا ميں نال آں
شاکر: پر ساڈے کول کوئي نظام ہونا چائيدا اے
شاکر: ون مين شو د و چار سال چل سکدا اے
شاکر: لانگ ٹرم وچ نئيں چل سکدا
شاکر: ٹيپو سلطان ايک اي سي
شاکر: اوس توں بعد سارے ماں دے يار
شاکر: سالے حرامي ڈرپوک منافق يار مار دھرتي نال فراڈ کرن والے
شاکر: نتيجہ کہ کچھ نئيں بنيا
شاکر: محمد علي مکي وي ايک اے
شاکر: جد مکي نہ رہيا تے
شاکر: فير کي بنےگا؟
شاکر: سانوں بندہ نئيں بندے چائيدے نيں پاء جي
شاکر: جيدي اگلے پنج سال وچ وي گھٹ اي اميد اے
شاکر: سب نوں اپني روزي روٹي دي فکر اے
شاکر: کون کرے اے
شاکر: جد ويلے ہُندے نيں
شاکر: جيسے ميں تھا
شاکر: تو سب کرتے ہيں
شاکر: جب کام مل گيا
شاکر: تو سب بھاگ ليے دم دبا کر
شاکر: سپرٹ نہيں اے سائيں
شاکر: ايس چيز دي ضرورت اے
شاکر: خير چھڈو تُسيں
شاکر: کيہڑياں گلاں وچ پے گئے آں
شاکر: تُسيں انجوائے کرو
شاکر: بھيگي بھيگي رات
شاکر: اسيں وي چلئيے ہُن
مکی: آپ کی باتیں بجا ہیں
مکی: مگر اب کوئی اس طرف نہ آئے تو کیا کیجیے...
مکی: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ناکافی ہے اس کام کے لیے
مکی: مگر مجبوری ہے جی
مکی: یہ کام ٹیموں کا ہی ہے
شاکر: چلو جي جد تک تُسين او
شاکر: تب تک سانوں کوئي ٹيم نئيں چاہيے
شاکر: تُسيں اپنے اندر ايک ڈويژن دے برابر او
شاکر: ون مين آرمي
شاکر: اينہوں جاري رکھو
شاکر: اسيں تہاڈے نال آں
مکی
شاکر: گلاں وچ وي
شاکر: تے ہور جنہاں ہوسکے
شاکر: انشاءاللہ کردے رہواں گے
مکی: جہاں تک ابنٹو والوں کی بات ہے تو اسی وجہ سے ہم ڈیسٹرو بھی تو اپنی ہی بنا رہے ہیں..
مکی: تاکہ دوسری ڈیسٹروز پر انحصار نہ رہے..
شاکر: پاء جي اتنا بڑا سيٹ اپ نہيں چلے گا
شاکر: عريبين لينکس کي طرح سال بعد ٹھپ ہوجائے گا سب کچھ
شاکر: باہر سےکرسي لے کر اس کا رنگ ہي بدلنا ہے
شاکر: پر اس ميں بھي سياپا کم تو نہيں
شاکر: مسئلہ ہے يہ کہ کسي ڈسٹرو کے ساتھ ٹيم جڑي ہو
شاکر: جو ساتھ ساتھ ترجمے کو ديکھتي رہے
شاکر: تاکہ ايک بني بنائي چيز، جس کي کوالٹي بھي مسلمہ ہو مارکيٹ ميں ہو
شاکر: کم سے کم ايفرٹ ميں زيادہ سے زيادہ کام
شاکر: نہ کہ پہيہ دوبارہ ايجاد کرنا
شاکر: پھر سارے سياپے کرنا
شاکر: بگ آگيا جي
شاکر: او فلانياں اے نئيں ہُندا اوئے
شاکر: ٹيوٹوريل لکھنا
شاکر: يہ کرو وہ کرو
شاکر: اے ساڈے وس دا کم نئيں سائيں
شاکر: خير چھڈو جي
شاکر: اللہ خير کرسيں
شاکر: ميں چلاں سائيں فير
شاکر: تے اے گفتگو لگے گي ميرے بلاگ تے
شاکر: تہاڈي اجازت دے نال
مکی: جی بالکل لکھیں
شاکر: رب راکھا فير
مکی: رب راکھا جی
Sunday, June 22, 2008
اور اپگریڈ ہوگئی
ایک فولوور کے بلاگ سے اپگریڈ پلگ ان کے بارے میں پڑھا اور آج صبح قریبًا
دس منٹ لگا کر اپنے بلاگ کو ورڈپریس 2.7 پر اپگریڈ کرلیا۔
شکریہ فولوور ۔
Tuesday, June 17, 2008
کچن کچن
کچن میں جارہے ہیں تو جانے سے پہلے اپنی آستینیں ٹانگ لیں۔ شلوار یا پتلون کو اونچا کرلیں اور دایاں پیر بسم اللہ پڑھ کر اندر رکھیں۔
سب سے پہلے برتنوں کی طرف دیکھیں آپ کو کئی قسم کے برتن نظر آئیں گے جیسے پتیلا، کُجا، ساس پین، فرائی پین، کولا، گلاس وغیرہ۔ اپنی پسند کے کوئی سے تین برتن منتخب کرلیں اور اس کے ساتھ ایک برتن ہماری پسند کا بھی منتخب کرلیں یعنی ایک عدد پتیلی۔
اس کے بعد کھانے کی چیزوں کی طرف آئیں۔ مصالحوں میں سے حسب ضرورت و حسب پسند جو بھی پسند ہو نکال کر سامنے رکھ لیں۔ اگر سمجھ نہ آرہی ہو کہ کونسا مصالحہ ہے تو سونگھ کر دیکھ لیں۔ جیسے مرچوں کی نشانی یہ ہے کہ سونگھنے سے آپ کو شدید قسم کا کھانسی کا دورہ پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اجزائے خوردونوش میں سے پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور ایسے جو بھی نام ذہن میں آئیں ایک ایک کلو منگوا کر اپنے سامنے رکھ لیں۔ شاپرز سے نکالیں مت ورنہ دیکھنے والے یہ سمجھیں گے کہ آپ ختم شریف دینے جارہے ہیں۔ اچھا صاحب آپ نے اپنی مرضی کرلی ہماری مرضی بھی کردیکھیے تھوڑی سی، آدھا کلو آلو لیجیے اور ان کو ایک لیٹر پانی میں ڈال کر اور دونوں کو پتیلی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔
اب چونکہ آنچ ہلکی ہے اس لیے تسلی سے بیٹھیں، لہسن چھیل لیں، پیاز کاٹ لیں۔ ننھے کا سویٹر بن لیں یا گُلو کو پڑھا لیں۔ امید ہے دو گھنٹوں کے اندر آلو اُبل جائیں گے۔
آلو ابل جائیں تو ان کو نکال لیں۔ ٹھنڈا کرلیں۔ فرج میں رکھیں یا ٹھنڈے پانی میں یہ آپ کی مرضی۔ اس کے بعد ان کو چھیل لیں۔ چھیل کر کاٹ لیں۔ کاٹیں ایسے جیسے گلاب کا پھول کٹتا ہے۔ چونکہ ہم آپ کو یہاں سکھا نہیں سکتے اس لیے کوکب کا دسترخوان جیسی کوئی کتاب لے کر اس میں سے سلاد کاٹنے والے حصے سے کوئی اچھا سا ڈیزائن منتخب کرلیں۔ اچھا تو اسے کاٹ لیا؟ اب آپ نے مصالحوں میں سے نمک پسند کرنا ہے۔ اسے ایک کولی میں نکالیں اور آلو پر نمک لگا کر مزے لے لے کر کھائیں۔
امید ہے آپ کو آج کی ترکیب پسند آئی ہوگی۔ اگر نہیں آئی تو کوکب کا دسترخوان تو آپ لا ہی چکے ہیں اس پر سے کچھ بھی پسند کرکے پکا لیں اور ہمیں دعائیں
دیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)