Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Wednesday, January 10, 2018

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے

 

 

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے

جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے

 

 

شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں

میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے

 

 

وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا

آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے

 

 

اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا

یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے

 

 

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

 

 

میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے

یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے

 

 

 

Tuesday, January 9, 2018

ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

 

 

ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

 

ہر متاعِ نفس نذر آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی

گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

 

اول شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ میخانہ سے اب افق میں کہیں

آخر شب ہے، خالی ہیں جام و سبو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

 

کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے کہ اب آرزو بھی نہیں

وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

 

کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں

تھا سراب اپنا سرمایہ جستجو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

 

اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرِ جاں، اور آباد جب شہر جاں ہو گیا

ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

 

دشت میں رقصِ شوق بہار اب کہاں، باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں

بس گزرنے کو ہے موسم ہائے دہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

 

ہم ہیں رسواِ کن دلی و لکھنؤ ، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو

میر دلی سے نکلے گئے لکھنؤ، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے​

جون ایلیا​

 

امید کے موتی ارزاں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے

 

 

امید کے موتی ارزاں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے

پھولوں کے مہکتے داماں ہیں ،درویش کی جھولی خالی ہے

 

احساس صفاتی پتھر ہے، ایمان سلگتی دھونی ہے

بے رنگ مزاجِ دوراں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے

 

بے نور مروت کی آنکھیں بے کیف عنایت کے جذبے

ہر سمت بدلتے عنواں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے

 

گدڑی کے پھٹے ٹکڑے ساغر، اجسام کیا ڈھانپیں

فریاد کے نقطے حیراں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے​

 

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

 

 

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

 

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب

حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

 

شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر

وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں

 

اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے

اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

 

ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج

ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

 

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی

ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

 

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر

ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں

 

سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں

 

 

سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں

یہاں اہلِ نظر ظلمات کی تعلیم دیتے ہیں

 

یہاں کلیاں مہکتی ہیں مگر خوشبو نہیں ہوتی

شکوفے برملا آفات کی تعلیم دیتے ہیں

 

یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں زرتابی قباؤں میں

سحر کا نام لے کر رات کی تعلیم دیتے ہیں

 

جنہیں فیضانِ گلشن ہے نہ عرفانِ بہاراں ہے

وہ پھولوں کو نئے جذبات کی تعلیم دیتے ہیں

 

رہِ تقدیر اس دن کے لیے کیا دھوپ اور سائے

ترے گیسو جنہیں حالات کی تعلیم دیتے ہیں

 

ہمیں زیبا نہیں دیتا رہِ دشوار کا منظر

کہ صحراؤں میں بھی برسات کی تعلیم دیتے ہیں

 

جہاں ساغرؔ شرابِ زندگی اک زہرِ قاتل ہے

یقیں والے وہاں خدشات کی تعلیم دیتے ہیں

اللہ رے اس چشمِ عنایات کا جادو

 

 

اللہ رے اس چشمِ عنایات کا جادو

تا عمر رہا حُسنِ ملاقات کا جادو

 

معلوم نہ تھا سحر گزیدانِ وفا کو

صبحوں کے پسِ پردہ ہے ظلمات کا جادو

 

آنکھوں میں رواں کوثر و تسنیم کے منتر

زُلفوں میں نہاں شامِ خرابات کا جادو

 

آتا ہو جسے رسمِ محبت کا وظیفہ

چلتا نہیں اس پر غمِ حالات کا جادو

 

بربط کا جگر چیر گئی تار کی فریاد

مطرب پہ اثر کر گیا نغمات کا جادو

 

لہرائے وہ گیسو کہ اٹھیں غم کی گھٹائیں!

اشکوں کی جھڑی بن گئی برسات کا جادو

 

ہم ساحرِ اقلیمِ سخن بن گئے ساغرؔ

اس ڈھب سے جگایا ہے خیالات کا جادو​

جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے

 

 

جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے

زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے

 

کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے

کہ پت جَھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے

 

خیالِ یار کی رنگینیوں میں گم ہو کر

جمالِ یار کی عظمت نکھار دی ہم نے

 

اسے نہ جیت سکے گا غمِ زمانہ اب

جو کائنات ترے در پہ ہار دی ہم نے

 

وہ زندگی کہ جسے زندگی سے نسبت تهی

تمہاری زلف پریشاں پہ وار دی ہم نے

 

کچھ ایسا سرد ہوا جذبہِ وفا ساغر

خود اپنی ذات کو ہنس ہنس کے خار دی ہم نے

چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے

 

 

چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے

پئے سوگواراں فضا رو رہی ہے

 

شہادت پہ اکبرؓ کی ساری خدُائی

گریباں کُھلے ہیں وفا رو رہی ہے

 

فرشتے سرِ عرش ماتم کناں ہیں

کہ پیاسوں کی خاطر گھٹا رو رہی ہے

 

ذرا خاکِ کربل کی توقیر دیکھو

کہ بنتِ نبی  کی ردا رو رہی ہے

 

وہ شبیرؓ آئے ہیں نیزے کی زد پر

تڑپتی ہیں کر نیں' ضیا رو رہی ہے

 

بہاروں کے ہیں چاک دامان یارو

ہے نغموں کا ماتم' نوا رو رہی ہے

 

ہے تیرا جفا اور حلقوم اصغرؓ

جفاؤں پہ ساغر جفا رو رہی ہے

 

 

مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک

 

 

مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک

لیکن ملی ہمیں دلِ نا کامراں کی بھیک

 

ایسے بھی راہِ زیست میں آئے کئی مقام

مانگی ہے پائے شوق نے عزمِ جواں کی بھیک

 

بے نُور ہو گئی ہیں ستاروں کی بستیاں

ساقی عطا ہو بادۂ شعلہ فشاں کی بھیک

 

اب اور کیا تغیرِ تقدیر چاہیئے

جھولی میں ڈال دی تِرے نام و نشاں کی بھیک

 

خود بِک گئے حیات کی نیلام گاہ میں

وہ بانٹتے تھے جو کبھی کون و مکاں کی بھیک

 

دو چار پتیوں پہ ہے رنجش بہار سے

سائل نے مانگ لی ہے کہاں گلستاں کی بھیک

 

اللہ، ان کے نقشِ کفِ پا کی خیر ہو

ذروں کو دے گئے جو مہ و کہکشاں کی بھیک

 

ساغؔر خوشا کہ گوہرِ امید پا لیا

قسمت سے ہات آئی غمِ دوستاں کی بھیک​

 

 

ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ

 

 

ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ

ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ

____________________________

__________________________________

')