Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Thursday, June 9, 2011

دل نگر


یوں توں دل نگر میں داخل ہونے پر روشنیاں، خوشیاں، قلقاریاں، مُسکراہٹیں اور مسرتیں ہی نظر آتی ہیں۔ عمارتوں کا ایک وسیع جہان آباد ہے۔ ہر طرف روشنی پھیلی ہے۔ چراغاں ہی چراغاں، ہر سُو میلے کا سا سماں۔ دن رات میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ ہر وقت انجوائے منٹ کا وقت لگتا ہے۔ پہلی مرتبہ آنے والوں کو جنت کا شبہ بھی ہو جاتا ہے۔ بار بار آنے والے البتہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جگہ تو اسی دنیا میں کہیں ہے، بس ذرا ماحول پکنک سپاٹ والا بنا رہتا ہے۔ ہر وقت ہلا گُلا جاری رہتا ہے۔ ابھی یہاں کیک کٹا تھا، اس کی مٹھاس اور تالیاں ہوا میں سے تحلیل بھی نہیں ہوئیں تو ایک اور ایونٹ چلا آتا ہے۔ ادھر دیکھیں تو اس دفتر نما عمارت میں کوئی نہ کوئی پارٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ ذرا پرے اُدھر دیکھیں ۔۔ارے یہ تو کوئی گھر ہے اور یہاں بھی خوشیوں کے ڈیرے دور سے نظر آ رہے ہیں ۔ فضا میں کچھ دعائیں موجود ہیں۔ نیک روحوں کو ادھر اُدھر رحمتوں کی موجودگی بھی محسوس ہو جاتی ہے۔ 


ان عمارتوں، خوشیوں، مسرتوں اور قلقاریوں سے پرے ذرا مزید بائیں کو مڑیں تو روشنیاں دھیرے دھیرے دھیمی پڑنے لگتی ہیں۔ دیکھنے والا سجاوٹیں دیکھتا دیکھتا اتنی دور چلا آتا ہے کہ اسے دھیرے دھیرے دھیمی پڑتی روشنی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب احساس ہوتا ہے تو واپس مڑنے میں دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بستی کے بائیں طرف موجود بڑے احاطے کا پھاٹک یکدم ہی سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے ابھی ابھی عدم سے وجود میں آیا ہو۔ بڑا سا سیاہ پھاٹک، جس پر ایک بار نظر ڈالنے والا دوسری نظر تو ضرور ڈالتا ہے۔ اور اکثر یہ دوسری نظر اچنبھے کی ہوتی ہے۔ حیرت بھری نظر۔۔۔۔ قریباً ہر کوئی خوشیوں بھری بستی کی طرف نگاہ ڈالتا ہے اور پھر بڑے پھاٹک کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے۔ پھر کوئی بڑبڑاتا ہے، کوئی بدبداتا ہے اور کوئی صرف سوچ کر ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن آواز ہو یا نہ ہو، تاثرات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے کیا کہا ہو گا' ارے ایسی جنت نظیر بستی میں اس بھوت محل کا کیا کام؟'۔ اور پھر یہ سوچ کر ہی وہ واپس نہیں مڑ جاتا۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ آنے والے کے قدم سیاہ پھاٹک کی سمت اٹھنے لگتے ہیں۔ جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے، ایسے ہی آنے والا حیرت، تجسس اور جستجو کے کچے دھاگے سے بندھا کھنچا چلا آتا ہے۔ ہولے ہولے سے پھاٹک تک پہنچتا ہے۔ اپنی آنکھیں نیم ملگجے اندھیرے سے مانوس کرتا ہے۔ پہلے اُچک کر اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اندر کا دھندلا اندھیرا اس کی جستجو کو مہمیز دیتا ہے۔ اور پھاٹک تک آنے والا بالآخر اندر قدم دھر ہی دیتا ہے۔


نیم ملگجے سے اندھیرے میں تھوڑی سی اور سیاہی ڈال دیں تو ایسی روشنی بڑے پھاٹک کے احاطے میں پھیلی ہوتی ہے۔ آنکھیں اس سے مانوس ہونے میں چند لمحے لے لیتی ہیں۔ اور جب آنے والے کی نگاہیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں تو اکثر کو چھوٹا موٹا جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ جھٹکا کیوں نہ لگے سامنے ہی تو تین چار ڈھیریاں ہیں۔ ایک آدھ گڑھا بھی موجود ہے جیسے ابھی ابھی گورکن نے زمین کا سینہ چاق کیا ہو۔ آنے والے کو یو ں لگتا ہے جیسے وہ قبرستان میں گھُس آیا ہے۔ کئی ایک تو ڈر کے مارے یہیں سے بھاگ جاتے ہیں۔ کچھ بہادر مقدس آیات کا ورد کر کے نادیدہ بلاؤں سے تحفظ کا حصار باندھتے ہیں۔ کچھ ڈھیٹ روحیں اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور قدم آگے بڑھا لیتی ہیں کہ چلو یہاں تک آ گئے تو بقیہ کام بھی نپٹاتے ہی چلیں۔ کچھ تو دور سے ہی ڈھیریوں کو سلام کر کے دیگر معائنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کچھ قریب جا کر بغور جائزہ لیتے ہیں۔ ذرا قریب سے دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ ڈھیریاں واقعی قبریں ہی ہیں۔ کوئی پرانی اور پکی ہے، کوئی ذرا نئی اور کچی ہے، کوئی چند برس پرانی ہے اور کوئی چند ماہ پرانی ہے۔ اکثر کا تبصرہ یہی ہوتا ہے کہ ارمانوں کا قبرستان لگتا ہے۔ کبھی کوئی زیادہ غور کے موڈ میں ہو تو تازہ کھدی قبر پر بھی نگاہ ڈال کر اندازہ لگانے کی کوشش کر ڈالتا ہے کہ یہاں بھلا کون سا ارمان دفن ہو گا۔۔۔ کچھ تو یہیں سے واپس مُڑ جاتے ہیں۔ اور کچھ بڑے احاطے کو میوزیم سمجھ کر باقاعدہ سیر پر اُتر آتے ہیں۔


قبروں سے پرے دائیں جانب ایک ادھوری سی عمارت ہے۔ دیواریں کھڑی ہیں، ایک طرف ریت کی ڈھیری بھی لگی ہے۔ چھت موجود نہیں۔ 'شاید کوئی ادھورا منصوبہ ہو گا'، اکثر کا یہی تبصرہ ہوتا ہے۔ قبروں کے بائیں جانب زمین پر کھدائی کے نشان نظر آتے ہیں۔ جیسے کوئی عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ بنا تھا لیکن ٹھیکیدار بھاگ گیا، یا مالک کا خیال بدل گیا۔ بڑے احاطے کی زمین تو آدھے ادھورے ارمانوں کا قبرستان ہے، اس کی فضا میں بھی سوگ جیسے ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دور، کافی دور بستی کے روشنیوں بھرے محلے میں، جہاں ہوا بھی چلتی ہے تو ناچ کر، اِٹھلا کر چلتی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ہوا چلتی نہیں، بس ٹھہری رہتی ہے۔ جیسے سرما میں دھند چلتی نہیں، بس ٹھہری رہتی ہے۔ لیکن دھند میں اور اس سوگ بھری فضا میں فرق درجہ حرارت کا ہے۔ دھند سردی کا تاثر دیتی ہے، یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ بس فضا میں کچھ ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سردی کی بجائے ہلکی سی گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کچھ فاصلے پر بھٹی جلنے سے حدت اردگرد کو نیم گرم سا کر دیتی ہے۔ ایسے ہی بڑے احاطے کی فضا نیم حزن و ملال، پشیمانی اور اداسی کے ملے جلے سے احساسات پیدا کرتے ہوئے نیم گرم سی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ آنے والوں کو تو ماں کی گود جیسا احساس ہونے لگتا ہے۔ کئی ایک تو ایک جانب ہو کر ادھوری عمارت کے ڈھانچے میں کوئی جگہ تلاش کر کے بیٹھ بھی جاتے ہیں اور کئی گھنٹے بیٹھے ہی رہتے ہیں۔ جانے کس سوگ میں بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید بڑے احاطے کے ادھورے ارمانوں کا سوگ مناتے ہیں۔ کون جانے۔۔۔۔


دل نگر میں بڑے احاطے کی حیثیت وہی ہے جیسے پوش علاقے کے پچھواڑے میں ایک کچی بستی کی ہوتی ہے۔ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل لیکن بستی کا ایک لازمی جزو۔ یہ کچی بستی نہ ہو تو سامنے والا حصہ زیادہ خوبصورت کیسے معلوم ہو۔ امتیاز ختم ہو جائے تو شناخت ختم ہو جائے۔ بڑا احاطہ دل نگر کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سُنا ہے کہ ہر دل نگر میں ایک بڑا احاطہ موجود ہوتا ہے۔ ساری روشنیوں، خوشیوں، قلقاریوں، مُسکراہٹوں اور مسرتوں سے کچھ ہی دور، ذرا ایک طرف کر کے ایک بڑا احاطہ ہوتا ہے۔ جس میں کچھ ادھورے ارمان دفن ہوتے ہیں، کچھ ادھوری خواہشیں فضا میں ٹھہری ہوتی ہیں، کچھ ادھورے منصوبے ادھر اُدھر بکھرے ہوتے ہیں۔ سُنا ہے کہ دل نگر کے مکین اکثر بڑے احاطے کا پھاٹک تالا لگا کر بند ہی رکھتے ہیں تاکہ باہر سے آنے والوں کی نظر نہ پڑے اور انہیں کوئی ایسا ویسا تاثر نہ ملے۔ لیکن کبھی کبھی بڑے احاطے کے کواڑ کھُلے بھی رہ جاتے ہیں۔ اور تب کوئی ڈھیٹ قسم کا نڈر مہمان بلا دھڑک بڑے احاطے میں جا گھُستا ہے۔ اور اسے چار لفظ لکھنے بھی آتے ہوں تو وہ اس تحریر کی طرح مشاہدہ قلم بند بھی کر ڈالتا ہے۔ لیکن اکثر دل نگر کے مکین باہر سے آنے والوں کو اپنی خوشیاں ہی دکھاتے ہیں۔ ہنسی ہنسوڑ پن میں ہی اتنی مہمان نوازی کر دیتے ہیں کہ آنے والے کو اور کوئی تمنا ہی نہیں رہتی۔ لیکن کبھی کبھی شاید یہ خوشیاں دکھاوا لگتی ہیں۔۔۔کوئی زیادہ ہی چالاک قسم کا مہمان اپنی مدد آپ کے تحت سیر کرنے نکل پڑتا ہے۔۔۔۔اور پھر ایسی کوئی تحریر وجود میں آ جاتی ہے۔۔۔سنا ہے کبھی کبھی دل نگر میں داخل ہونے پر ایک ہی عمارت سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔بڑے احاطے سے۔۔۔اور باقی سب کچھ اس کے اندر ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن آدھا ادھورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Tuesday, March 1, 2011

احساسِ رحمت


رب کی رحمت بھی عجیب چیز ہے سائیں۔ ہر وقت اس کی رحمت کا حصار رہتا ہے۔ ہر لمحہ اس کے کرم کی بارش برستی رہتی ہے۔ لیکن بندہ ناسمجھ، ناقص العقل نہیں سمجھتا۔ آنکھیں ہوتی ہے لیکن دیکھ نہیں پاتا۔ بینا ہوتے ہوئے نابینا ہو جاتا ہے۔ یہ اس کی رحمت کے صدقے ہی ہوتا ہے کہ اس کی رحمت کا احساس مل جائے۔ اور جس کو اس کی رحمت کا احساس مل جائے اس کے کیا ہی کہنے۔ لگتا ہے جیسے کوئی یار سجن بیٹھا ہے۔ یہیں ساتھ ہی کہیں، یہیں پاس ہی کہیں بیٹھا ہے۔ ہر لحظہ اس کی عطاء کی آرزو رہتی ہے۔ اس کے کرم کی تمنا رہتی ہے۔ اور جب اس کا کرم ہو جائے، جب دعائیں ویسے قبول ہو جائیں جیسے بندے نے چاہا تھا، تو اندر جیسے بہار آ جاتی ہے۔ جیسے عید پر سارا جہاں مُسکرا اُٹھتا ہے۔ جیسے اندر باہر شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ ہر طرف ہر چیز جیسے کھلکھلانے لگتی ہے۔ ہر سُو اسی کی عطاء نظر آتی ہے۔ بڑا پُر لُطف تجربہ ہوتا ہے۔ اس کی رحمت ہو جانا، اور پھر یہ احساس ہو جانا کہ اس کی رحمت ہوئی ہے۔ یہ اسی کا کرم ہوا ہے، اے بندے ورنہ تُو کس قابل تھا ۔ اور پھر رحمت کے بعد سر کا جھُک جانا۔ اس عطاء و کرم و فضل و رحمت پر سر جھُک جانا، نظر جھک جانا اور اس کی مزید رحمت ہو جائے تو دو قطرے آنسوؤں کے، اظہارِ عجز کے، اظہارِ بندگی کے، اظہارِ لاچاری کے۔ دو قطرے ٹپک پڑنا کہ مالک میں بھلا کس قابل تھا، یہ سب تیرا ہی تو دیا ہے۔ یہ جو کچھ میرے تن پر ہے، جو کچھ میرے اندر ہے، میرے پاس ہے یہ سب تیرا ہی تو دیا ہے۔ میرا تو ہونا ہی مجھ پر تیری رحمت ہے مولا۔ میں حقیر،ارذل، ادنیٰ، گھٹیا، گناہوں کی پوٹ اور تیری عطاء۔ کس منہ سے تیرا شکر کروں۔ مجھے تو شکر کرنا بھی نہیں آتا۔ یہ سب تیرے نبی ﷺ کے پیروں کی خاک کا صدقہ سائیں۔ تو سخی تیرے نبی ﷺ کی ذات سخی۔ اور میں تیرے در کا گدا۔ تُو بادشاہ مالک اور میں تیرے بُوہے پر بیٹھا منگتا۔ بھلا منگتے کی کیا اوقات کہ اس پر یہ عطاء ہو جاتی۔ یہ تو تیری کمال مہربانی ہے سائیں، تُونے اپنی نبی ﷺ کا صدقہ، آلِ نبیﷺ کا صدقہ، اصحابِ نبی ﷺ کا صدقہ مجھ پر یہ جو عطاء کردی بھلا میں کس قابل تھا۔


بڑا پُر لطف تجربہ ہے جی۔ کبھی کر کے دیکھیں۔ رب سے رحمت مانگ کر دیکھیں۔ بس رحمت کے طلبگار ہوں۔ اور شکر کریں، ہر نعمت پر۔ اگر یہ کرم ہو جائے، اوریہ کرم ہو جاتا ہے آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے اپنی بے کسی اور بے بسی اور اس کی رحمت کا احساس وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر جو کچھ بھی پیش آئے، جو بھی اچھا پیش آئے، پہننے، کھانے، پینے یا زندگی میں جو کچھ بھی ملے بس آسمان کی جانب نظر اُٹھتی ہے۔ یہ سب تو اُس کی رحمت ہے۔ یہ تو مولا کا کرم ہے۔ اور اپنا آپ اور حقیر لگنے لگتا ہے۔ اس کے لاشمار احسانوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی محبت کا احساس فزوں تر ہو جاتا ہے۔ اس پر یقین اور مان بڑھ جاتا ہے۔

کاش رب یہ مقامِ شکر عطاء کر دے۔

Wednesday, July 14, 2010

I am offline.




Almost everything will work again if you unplug it for a few weeks, including you.

- Anne Lamott

I am offline. 
See you soon. 
Take care all of you. 
Much love and peace.

- D



Friday, May 14, 2010

Thank you for being with me



I started this page 12 years ago when I needed a dedicated space in my life to focus on reading. Since then, it has grown into a place for the poetry, literature, art that has moved me, even changed me. It helped me connect to with thousands of people and introduced me to wonderful, creative people. It’s hard to believe there was a time before I had even heard of poets and writers like Khadija Mastoor, Kishwar Naheed, Mazhar ul Islam, Umera Ahmed, Mohsin Hamid, Daniyal Mueenuddin,

 Jane Hirshfield, Rainer Maria Rilke, Gabriel García Márquez, Rumi. Tumblr, Blogs, Pinterest, and Books have given me that precious gift.

lt brings me great joy to share the poetry, books I am reading and engaging with, but it also takes up a great deal of time. Now a days I am not able to find time to share. I don't know what exactly I feel. I need my space and time.

Thank you for being with me even after the old page got hacked.
Thank you all for the support and love. It means a lot.



Much love, light and peace.

- D





Monday, January 25, 2010

فیس بُک


انڈین فلموں میں دس بارہ ایکسٹرے اکٹھے کرکے منتریوں اور بڑے لوگوں کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ اوپن سورس کی دنیا میں بھی ہائے ہائے کے نعرے لگتے رہتے ہیں جن کا نشانہ عمومًا مائیکروسافٹ اور اس کی پراڈکٹس ہوتی ہیں۔ اور اس کے "حواری" بھی نہیں بچتے، جیسے نوویل جو ڈاٹ نیٹ فریم ورک کا اوپن سورس متبادل مونو بناتی ہے۔ خیر بات تھی فیس بُک کی ہائے ہائے کی۔ اوپن سورس والے جب کسی کی ہائے ہائے کرنا چاہیں تو اس چیز کا اوپن سورس متبادل شروع کردیتے ہیں۔ فلیش پلئیر کا اوپن سورس متبادل آیا جی نیش، چلا یا نہیں چلا یہ الگ بات ہے۔ اسی طرح مائیکروسافٹ آفس کا متبادل اوپن آفس ہے جو کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر والی بات ہے۔


تو جناب اب فیس بُک کے حالیہ پرائیویسی کے خلاف اقدامات نے بہت سے لوگوں کے احتجاج پر مجبور کردیا۔ قصہ ان کا یہ ہے کہ فیس بُک اپنی پارٹنر ویب سائٹس کے ساتھ آپ کی پروفائل سے معلومات شئیر کرے گا چناچہ جب آپ فیس بُک سے وہاں تشریف لے جائیں گے تو آپ کی آںکھوں کے سامنے وہی چیزیں نچائی جائیں گی جنھیں آپ نے وش لسٹ میں رکھا ہوا ہے یا فیورٹ لسٹ میں جیسے کوئی کتاب جو آپ پڑھنا چاہ رہے ہیں۔ امریکی سینٹرز سے لے کر عام لوگوں تک سب نے اس بات پر فیس بُک کو لعن طعن کیا ہے لیکن فیس بُک نے نہیں مان کر دی۔ تو اب اوپن سورس والے میدان میں آگئے، چار طلباء نے مل کر ڈائیاسپورا تشکیل دینے کا سوچا ہے جو کہ فیس بُک کی طرح کی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہوگی لیکن آپ کے کنٹرول میں، آپ کی مرضی کے مطابق پرئیویسی مہیا کرتے ہوئے۔ اور اس کام کے لیے انھوں نے فنڈ ریزنگ بھی شروع کی ہوئی ہے۔ فی الحال ان کے پاس اٹھاون ہزار ڈالر ہوچکے ہیں اور ابھی ان کے بیس دن باقی ہیں چندہ مہم کے۔ یعنی ایک لاکھ ڈالر سے اوپر ہوجائے گا اور اس کے بعد یہ نیٹ ورکنگ سائٹ شروع ہوگی۔ اور میں تو اس کا رکن دوڑ کر بنوں گا استعمال چاہے میں فیس بُک ہی کروں۔ آخر انگلی کٹا کر شہیدوں میں بھی تو شامل ہونا ہے۔ ہمیشہ کی طرح جیسے لینکس میرے پاس انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اوپن آفس بھی انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اس کی رکنیت بھی ہوگی استعمال ۔۔۔۔۔


فیس بُک کے باغی ڈائیاسپورا میں پناہ لے سکتے ہیں انھیں ویلکم کہا جائے گا، ایک اور فیس بُک آگئی ہے ہر ڈومین سے فیس بُک نکلے گی تم کتنی فیس بُک چھوڑو گے۔



Wednesday, September 30, 2009

دل بولے ہڑپہ


لو جی آج ہمارے پاس کچھ وقت تھا تو ہم نے انڈین مووی دل بولے ہڑپہ دیکھی۔ لگان، چک دے انڈیا وغیرہ کی طرح ایک اور کھیل کے گرد گھومتی کہانی اور اس بار پھر سے کرکٹ۔ اور کرکٹ بھی انڈیا پاکستان کی۔ اچھی کہانی ہے لیکن جگہ جگہ یہ لگتا ہے کہ فلمی کہانی ہے۔ اتفاقات اتنے ڈھیر سارے ہیں جن میں رانی مکھر جی کے مردانہ کیرکٹر سے لے کر اس کے شاہد کپور سے ملنے تک کئی واقعات شامل ہیں۔ مووی کا اختتام خاصا جذباتی ہے۔ جیسا کہ بالی وڈ کی فلموں کا خاصا ہے۔ جذبات میں لتھڑا ہوا یہ دی اینڈ بہت سے ننھے ننھے جھول بھی لیے ہوئے ہے۔ جیسے میچ میں شاہد کپور کے ہاتھ ہیروئن کے مرادانہ گیٹ اپ کا حصہ اس کا لینز آجاتا ہے جبکہ مونچھ داڑھی نہیں آتی حیرت کی بات ہے۔ یعنی ہیرو جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر لینز نکال لاتا ہے گویا۔


20 20 میچ میں پاکستان کے دو سو سے زیادہ رن کا پہاڑ کھڑا کروایا گیا اور پھر اسے بڑے سٹائل سے آخری تین چار اورز میں پورا کروایا گیا۔ لمبی چھوڑی ہے فلم لکھنے والے نے بھی۔ بہرحال جی اچھی فارمولا فلم تھی دو گھنٹے اچھے گزر گئے۔


آپ کے سر سے اگر یہ پوسٹ گزر گئی ہو تو معذرت کے ساتھ۔ آپ پہلے اوپر دئیے گئے ربط سے فلم اتاریں، دیکھیں اور پھر اس پوسٹ کو پڑھیں۔ چونکہ ہم نے پہلے کسی فلم پہ تبصرہ نہیں کیا اس لیے آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوگا۔ ;)


سمجھ لیں دل کا ساڑ نکالا ہے۔ کمبختوں نے ملوانا ہیرو ہیروئن کو تھا پاکستان کو ایویں گھسیڑ دیا بیچ میں اور اسے بھی آخر میں ہروا دیا۔ لے دس جاتے جاتے ایک اور بات ہیروئن کھڑی لاہور میں ہے اور مثالیں دئیے جاتی ہے اندراگاندھی اور رانی جھانسی کی۔ لے دس تماشائی تو پاکستانی ہیں تم ان سے مخاطب ہو یا فلم دیکھنے والوں سے۔ غالبًا فلم دیکھنے والوں سے ہی مخاطب ہوگی۔ خیر تسیں فلم دیکھو


Friday, September 4, 2009

فن پارے



لیجیے جناب فن پارے دیکھیں۔

فن کار کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ لیکن میرا ذوق شاید ریڑھی والوں جیسا ہے جس کی
وجہ سے مجھے یہ تصویریں(؟) دیکھ کر "آلو لے گوبھی لے ٹینڈے لے ٹماٹر لے" کی صدائیں یاد آرہی ہیں جو ہماری گلی میں سبزی والے دیتے ہیں اور شاید اپنے آپ کو شاعر بھی سمجھتے ہیں۔

Wednesday, June 17, 2009

اردو بلاگنگ


فدوی اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے۔ سمجھ لیں کہ آثار قدیمہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اردو بلاگنگ کے بابے نبیل، دانیال، زکریا ، قدیر احمد، نعمان وغیرہ کو دیکھ کر بلاگنگ کا خیال آیا اور غالبًا 2006 کے شروع یا 05 کے آخر میں بلاگ بنا لیا تھا۔ پہلے بلاگر پر رہی پھر ایک فری ہوسٹ پر منتقل کیا پھر اردو کوڈر پر رہی اور اب پھر بلاگر پر واپس ہے۔ اس دوران نام بھی بدلا کام بھی بدلا کبھی لکھنا چھوڑا کبھی بہت زیادہ لکھا قصہ مختصر یہ کہ ایک ٹُٹا پجا سی بلاگر ہوں اور اردو کی بلاگر ہوں۔ شروع میں بلاگ پر لکھنے کے لیے گھنٹوں سوچا کرتی اور بہترین لکھنے کی کوشش کرتی پھر احساس ہوا یہ تو آنلائن ڈائری ہے جو مرضی لکھو بلکہ بکواس کرو اور بھول جاؤ۔ چناچہ اب اگرچہ بکواس نہیں کرتی تو زبان سے پھول بھی نہیں جھڑتے۔

ایک وقت تھا جب ٹیکنالوجی پر لکھا، ورڈپریس پر لکھا، لینکس پر لکھا لیکن اب وقت ہی نہیں ہے ورنہ دل تو بہت کرتا ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے۔ اب تو بہت ردو رونق شونق ہوگئی ہے اور اردو بلاگنگ کی بیٹھک بہت بڑی ہوتی جارہی ہے۔ اردو کی طالب علم ہوں اور اردو کی بولنے والی ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ زبان کا خیال رکھیں۔ اردو کے سپیل چیکر دستیاب نہیں ،ہیں بھی تو ڈیفالٹ تنصیب میں نہیں ملتے ،مل بھی جائین تو ہم انسٹال نہیں کرتے ،کر بھی لیں تو انگریزی سے اردو میں ہر بار سوئچ کرنا مسئلہ لگتا ہے۔ کئی سارے مسائل ہیں لیکن اگر ان مسائل کو تھوڑی سی توجہ سے حل کیا جاسکتا ہے۔انگریزی استعمال کرتے ہوئے ہم سیپلنگ کا بہت خیال کرتے ہیں اردو لکھتے ہوئے بھی ہجوں اور املاء کا خیال کرلیا کریں۔ لوگ ذ کو ز لکھ جاتے ہیں ح کو ہ لکھ جاتے ہیں اچھے خاصے لفظ کو بچوں کی طرح ص کی بجائے س سے لکھ جاتےہیں۔ یہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں یہ تاریخ ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کا ورثہ۔ اگر ہم نے اردو کی معیار بندی نہ کی تو بہت نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدارا اپنی زبان کو بچائیں۔ اب تو بار بار ایک بلاگ پر ہی املاء کی غلطیاں نکالنے کے لیے تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ احباب ناراض نہ ہوجائیں۔ بس شرم آتی ہے۔ بخدا دو تین املاء کی غلطیاں دیکھ لوں تو اکتا کر پوسٹ کو ایسے ہی چھوڑ دیتا ہوں پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ آپ احباب سے یہ التماس ہے کہ خدارا تحریر کو ایک بار لکھ کر پڑھ لیا کریں۔ اس کی نوک پلک سنوار لیا کریں کم از کم املاء کی غلطیاں تو ٹھیک کرلیا کریں۔ کسی بھی زبان کا رسم الخط اور اس کا صوتی یعنی فونیٹک سسٹم اس کی بنیاد ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو بچا لیا جائے تو زبان کبھی نہیں مرتی۔ اپنی زبان کو مرنے نہ دیں۔


وسلام


سندھ اور پانی


آج آؤ سنواریں پاکستان پر خاصی جذباتی سی پوسٹ پڑھی۔ اس میں بیان کیے گئے حقائق سے انحراف واقعی ممکن نہیں۔ سندھ کے ڈیلٹے کو واقعی خطرہ ہے اور سمندر تیزی سے آباد زمینیں نگل رہا ہے۔ پانی کی کمی نے واقعی تباہی مچائی ہے اور کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیریں علاقے والوں کا مطالبہ ہے کہ روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جائے جو کہ سمندر میں جاگرے تاکہ ڈیلٹا کا تحفظ ہوسکے۔ جبکہ اوپر والوں کا مطالبہ ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔


مجھے بہت ساری تکنیکی تفاصیل کا نہیں پتا لیکن اتنا جانتی ہوں کہ برسات کے موسم میں سیلاب آجاتا ہے۔ اور وہ سارا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ اگر اس پانی کو ڈیم بنا کر سٹور کرلیا جائے اور پھر دریا میں ہی سارا سال چھوڑا جاتا رہے تو اس سے شاید ڈیلٹا کا کچھ تحفظ ہوسکے۔ یاد رہے میں نہریں نکالنے کی بات نہیں کررہی بلکہ صرف ڈیم بنا کر اسے سٹور کیا جائے اور بجلی پیدا کی جائے اور پھر پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے۔ اس کی مثال پنجاب میں غازی بروتھا پاور پروجیکٹ ہے۔ مزید یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ سمندر کے راستے میں بند بنائے جائیں۔ اس کے لیے ہالینڈ کی مثال کو ذہن میں رکھیں جنھوں نے آدھا ملک سمندر خشک کرکے بنایا ہے۔ تجاویز اور منصوبے ڈھیر۔۔لیکن عمل کوئی نا

Monday, September 1, 2008

محمد علی مکی


آج محمد علی مکی سے بات ہورہی تھی۔ مکی آج کل اردو لینکس ڈِسٹرو پر کام کررہے ہیں۔ ان سے دوران چیٹ ترجمے کا کام، اس کی دیکھ بھال، اردو برادری کی حالت زار اور مستقبل کے نقشے پر کچھ بے معنی بکواس سی کی ہے۔ آپ کی نظر ہے۔ اس پر تھنکیں، اور مجھے چاہے نہ بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ پنجابی کی سمجھ نہ آئے تو اپنے اردگرد سے کسی پنجابی کو پکڑ لیں۔ کوئی نہ کوئی مل جائے گا جو آپ کو بتا دے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ خوش رہیں۔

شاکر: يار مکي پائين
شاکر: ميں نے کبھي يہ کام دل لگا کر نہيں
شاکر: کيا
شاکر: اسليے کہ
شاکر: ہر 3 ماہ بعد اس کا نيا ورژن آجانا ہے
شاکر: اور ايک بار ترجمہ کرنے کے بعد اس کي ديکھ بھال کے ليے پوري ٹيم چاہيے
شاکر: اور کوئي ماں کا لاڈلا اس کام کي زحمت کرنے کو تيار نہيں
شاکر: اس ليے مجھے يہ کام بے کار لگتا ہے
شاکر: اوپر سے اوبنٹو سائيں نے ڈيسکٹاپ کا حليہ بدل لينا ہے اگلے ورژن ميں
شاکر: بندہ کرے تے کي کرے
شاکر: تے کتھوں کتھوں کرے
شاکر: تے کنہوں کنہوں کرے
شاکر: يعني کھانا پينا بھي چھوڑ کر اعتکاف ميں بيٹھ جائے
شاکر: ايک ليپ ٹاپ لے کر
شاکر: اور ترجمہ ہي کرتا رہے ساري عمر، مفت والا
شاکر: خير ميں تہانوں dicourage نہيں کرريا
شاکر: تُسيں کرو اے کم
شاکر: تے ميں جو مدد کرسکيا ميں نال آں
شاکر: پر ساڈے کول کوئي نظام ہونا چائيدا اے
شاکر: ون مين شو د و چار سال چل سکدا اے
شاکر: لانگ ٹرم وچ نئيں چل سکدا
شاکر: ٹيپو سلطان ايک اي سي
شاکر: اوس توں بعد سارے ماں دے يار
شاکر: سالے حرامي ڈرپوک منافق يار مار دھرتي نال فراڈ کرن والے
شاکر: نتيجہ کہ کچھ نئيں بنيا
شاکر: محمد علي مکي وي ايک اے
شاکر: جد مکي نہ رہيا تے
شاکر: فير کي بنےگا؟
شاکر: سانوں بندہ نئيں بندے چائيدے نيں پاء جي
شاکر: جيدي اگلے پنج سال وچ وي گھٹ اي اميد اے
شاکر: سب نوں اپني روزي روٹي دي فکر اے
شاکر: کون کرے اے
شاکر: جد ويلے ہُندے نيں
شاکر: جيسے ميں تھا
شاکر: تو سب کرتے ہيں
شاکر: جب کام مل گيا
شاکر: تو سب بھاگ ليے دم دبا کر
شاکر: سپرٹ نہيں اے سائيں
شاکر: ايس چيز دي ضرورت اے
شاکر: خير چھڈو تُسيں
شاکر: کيہڑياں گلاں وچ پے گئے آں
شاکر: تُسيں انجوائے کرو
شاکر: بھيگي بھيگي رات
شاکر: اسيں وي چلئيے ہُن
مکی: آپ کی باتیں بجا ہیں
مکی: مگر اب کوئی اس طرف نہ آئے تو کیا کیجیے...
مکی: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ناکافی ہے اس کام کے لیے
مکی: مگر مجبوری ہے جی
مکی: یہ کام ٹیموں کا ہی ہے
شاکر: چلو جي جد تک تُسين او
شاکر: تب تک سانوں کوئي ٹيم نئيں چاہيے
شاکر: تُسيں اپنے اندر ايک ڈويژن دے برابر او
شاکر: ون مين آرمي
شاکر: اينہوں جاري رکھو
شاکر: اسيں تہاڈے نال آں
مکی    
شاکر: گلاں وچ وي  
شاکر: تے ہور جنہاں ہوسکے
شاکر: انشاءاللہ کردے رہواں گے
مکی: ‏‫جہاں تک ابنٹو والوں کی بات ہے تو اسی وجہ سے ہم ڈیسٹرو بھی تو اپنی ہی بنا رہے ہیں..
مکی: تاکہ دوسری ڈیسٹروز پر انحصار نہ رہے..
شاکر: پاء جي اتنا بڑا سيٹ اپ نہيں چلے گا
شاکر: عريبين لينکس کي طرح سال بعد ٹھپ ہوجائے گا سب کچھ
شاکر: باہر سےکرسي لے کر اس کا رنگ ہي بدلنا ہے
شاکر: پر اس ميں بھي سياپا کم تو نہيں
شاکر: مسئلہ ہے يہ کہ کسي ڈسٹرو کے ساتھ ٹيم جڑي ہو
شاکر: جو ساتھ ساتھ ترجمے کو ديکھتي رہے
شاکر: تاکہ ايک بني بنائي چيز، جس کي کوالٹي بھي مسلمہ ہو مارکيٹ ميں ہو
شاکر: کم سے کم ايفرٹ ميں زيادہ سے زيادہ کام
شاکر: نہ کہ پہيہ دوبارہ ايجاد کرنا
شاکر: پھر سارے سياپے کرنا
شاکر: بگ آگيا جي
شاکر: او فلانياں اے نئيں ہُندا اوئے
شاکر: ٹيوٹوريل لکھنا
شاکر: يہ کرو وہ کرو
شاکر: اے ساڈے وس دا کم نئيں سائيں
شاکر: خير چھڈو جي
شاکر: اللہ خير کرسيں
شاکر: ميں چلاں سائيں فير
شاکر: تے اے گفتگو لگے گي ميرے بلاگ تے
شاکر: تہاڈي اجازت دے نال
مکی: جی بالکل لکھیں
شاکر: رب راکھا فير
مکی: رب راکھا جی



')