کہیں چاند راہوں میں کھو گیا، کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی
میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا، مری رات کیسے چمک گئی
کبھی اُجلا اُجلا سا نام ہوں، کبھی کھویا کھویا کلام
ہوں
مجھے صبح کرنوں سے بھر گئی ، مجھے شام پھولوں سے ڈھک گئی
تجھے بھول جانے کی کوششیں ، کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تری یاد شاخِ گلاب ہز ، جو ہوا چلی تو لچک گئی
کبھی ہم ملے بھی تو کیا ملے، وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے ، نہ کبھی تمھاری جھجک گئی
مری داستاں کا عروج تھا ، تری نرم پلکوں کی چھاؤں میں
مرے ساتھ تھا تجھے جاگنا ، تیری آنکھ کیسے جھپک گئی
No comments:
Post a Comment