!سنو اے محرمِ ہستی
!سنو اے زیست کی حاصل
مجھے کچھ دن ہوئے شدت
سے یہ محسوس ہوتا ہے
کہ میں دنیا میں خود
کو جس قدر بھی گم کروں
مجھ کو تمہارا دھیان
رہتا ہے
میرے معمول کے سب
راستے اب بھی
تمہاری سوچ سے ہو کر
گزرتے ہیں
تمہاری مسکراہٹ آج بھی
اس زندگی میں روشنی کا استعارہ ہے
تمہارے ہجر سے اب تک
میرے دل کے درودیوار پروحشت برستی ہے
میرے اندر کی ویرانی
مجھے ہر آن ڈستی ہے
بہت سے ان کہے جذبے جو
ہم محسوس کرتے تھے
وہ مجھ سے بات کرتے
ہیں
میری تنہائیں اب بھی
تمہارے عکس کی پرچھائیوں کو ڈھونڈ لیتی ہیں
!سنو اے محرمِ ہستی
میں اپنے آپ سے کب تک
لڑوں؟؟
کب تک میں خود سے جھوٹ
بولوں
,میں تمہارے بعد زندہ
ہوں، مکمل ہوں
میں اپنے کھوکھلے پن
کو چھپاؤں کس طرح خود سے؟؟
اٹھائے کب تلک رکھوں
انا کا ماتمی پرچم؟؟
میں کب تک یہ کہوں سب
سے؟؟
کہ میں اس ہجر میں خوش
ہوں
!سنو اے زیست کی حاصل
مجھے اقرار کرنا ہے،
میں اپنے آپ سے لڑتے
ہوئے اب تھک چکا ہوں
کہ میں تو اس لڑائی
میں
کئی راتوں کی نیندیں
اور کئی خوشیوں بھرے موسم
فقط اک جھوٹ میں جینے
کی خاطر ہار آیا ہوں
!سنو اے محرم ہستی
تمہاری خواب سی آنکھوں
نے مجھ کو باندھ رکھا ہے
میں ان دیکھی یہ ڈوریں
توڑنے کاسوچتا ہوں جب
تو میری سانس رکتی ہے
میں بزدل ہوں،
تمہیں کھونے سے مجھ کو
خوف آتا ہے
تمہارے ہجر میں جینا
تمہیں کھونے سے بہتر ہے
سنو اے محرم ہستی!
مجھے تسلیم کرنے دو!
میری اس زندگانی کا
تمہی روشن حوالہ ہو
میری تکمیل تم سے ہے
تمہیں کھونے کا سوچوں
بھی تو میری سانس رکتی ہے
سنو اے محرمِ ہستی!
..سنو اے زیست کی
حاصل
No comments:
Post a Comment