تمہیں معلوم تو ہوگا
سبھی موسم بدلتے ہیں
کبھی تپتی دوپہریں جون کی
تن من جلاتیں ہیں
کبھی یخ بستہ راتوں کا
دسمبر لوٹ آتا ہے
کبھی پت جھڑ کا موسم خون پیتا ہے درختوں کا
کبھی سُوکھی ہُوئی شاخوں پہ کلیاں کھلکھلاتیں ہیں
خزاں کا دم نکلتے ہی
بہاریں مسکراتیں ہیں
تمہیں معلوم تو ہوگا
سبھی موسم بدلتے ہیں
مگر یہ بھی حقیقت ہے
ہمارے دِل کے آنگن میں
کسی صُورت نہیں بدلا
تمہاری یاد کا موسم
No comments:
Post a Comment