یہ جو شام ڈھل رہی ھے
اسے سہل بھی نہ جانو
یہ ٹھہر گئی جو دل میں
یہی شب ہلاکتوں کی
یہی دو پہر کڑی ھے
.
پس ِگردِ عہدوپیماں
یہ جو ہجر کی گھڑی ھے
یہ فشار ِ جاں کا موسم
یہ جو دل گرفتگی ھے
یہ جو وہم ھے لہو میں
یہ جو سہم آنکھ میں ھے
یہ سناں سی وسوسوں کی
جو خیال مں گڑی ھے
یہ جو اک خلش وفا کی
یہ جو ان کہی کہانی
مرے دل میں رہ گئی ھے
یہ تھکن رہ ِ جنوں کی
جو اتر گئی رگوں میں
یہ تری مری خوشی ھے
یہ چراغ چاہتوں کے
جو ہوا میں جل رہے ہیں
انہیں کب تلک سنبھالیں؟
چلو پھر سے توڑ ڈالیں
وہ تمام عہد و پیماں
کہ میں تجھ میں جی رہی ہوں
کہ تو مجھ میں بس رہا ھے
چلو پھر سے سوچتے ہیں
کہ میں تجھ سے نا شناسا
کہ تو مجھ سے اجنبی ھے
وہ جو رسم ِ دوستی ھے
وہ رہے تو جاں سلامت
نہ رہے تو پھر بھی جاناں
تیرا غم سنبھالنے کو
ابھی زندگی پڑی ھے
No comments:
Post a Comment