خود شناسی کا دعوی کرنا اور خود شناس ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اور اس کا اندازہ مجھے پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والے پے در پے انکشافات کے بعد ہوا۔ ایک عرصے سے میرا خیال تھا کہ میں خاصا مثبت سوچ رکھنے والا انسان ہوں۔ اسی طرح کے کئی ایک بت جو میں نے اپنی ذات کے بارے میں اپنے ذہن میں تراش رکھے تھے۔ ان بتوں کو حالیہ دنوں میں منہ کے بل گرنا پڑا۔ اور مجھے احساس ہوا کہ میں جو دنیا کو جاننے کا دعوے دار بنتا ہوں، چھبیس سال تک اپنے آپ کو ہی اچھی طرح سے نہیں جانتا تھا۔
خود شناسی شاید اس سے بھی ارفع چیز ہے۔ لیکن میں شاید اتنا تو کہہ ہی سکتا ہوں کہ اپنے آپ سے تھوڑی سی واقفیت ہو گئی ہے۔ بڑی بیسک لیول کی واقفیت۔ جیسے دو چار ملاقاتوں میں کسی اجنبی سے آپ ہلکی سی شناسائی پیدا کر لیں۔ تو پچھلے دنوں میں مجھ پر آنے والے کچھ زلزلوں نے بڑے بڑے بت گرا دئیے ، اور اب مطلع صاف ہونے پر جو حقیقت حال سامنے آئی تو اس 'میں' سے اب میری تھوڑی تھوڑی سی شناسائی ہوئی ہے۔ پہلی شناسائی تو یہ ہوئی ہے کہ میں جو اپنے آپ کو جاننے کا زعم رکھتا تھا، اب مجھے یہ پتا چل گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو بالکل بھی نہیں جانتا تھا، شاید اب بھی نہیں جانتا۔ بس کہیں کہیں کچھ دھندلے دھندلے سے نقوش ہیں، کچھ ادھوری ملاقاتوں کے نتائج جن سے اپنے بارے میں نتائج اخذ کیے ہیں۔ کہ شاید یہ بندہ ، جو میرے اندر بیٹھا ہوا ہے، ایسا ہے۔
مجھے کچھ معاملات میں شدید ناکامی کے بعد احساس ہوا کہ میں رسک ٹیکر نہیں ہوں۔ میں اپنے آپ کو محتاط تو سمجھتا تھا، لیکن کئی معاملات میں بزدلی کی حد تک کی احتیاط نے مجھے ٹھوکروں کا منہ دکھایا تو احساس ہوا کہ میں محتاط سے بڑھ کر کچھ چیز ہوں۔ اپنی ذات کا ذرا مزید سخت ہو کر تجزیہ کیا تو احساس ہوا کہ زندگی کے اکثر معاملات میں میرا رویہ ہمیشہ پتلی گلی سے نکل لینے والا ہوتا ہے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میرے سامنے رکاوٹ آ رہی ہے، میں نے نسبتاً آسان راستہ اختیار کر لیا۔ چاہے وہ تعلیمی کیرئیر ہو، یا زندگی کا کوئی اور معاملہ۔ اسی عادت سے منسلک ایک اور عادت معاملات کو لامتناہی طور پر پس پشت ڈالنے کی عادت بھی ہے۔ جس نے مجھے بہت سے برے دن دکھائے، خاص طور پر حالیہ دنوں میں میرے احباب اور میری اپنی ذات نے قدم قدم پر مجھے احساس دلایا کہ میں شدید طور پر ریت میں سر دے کر سب اچھا ہے کی گردان کرنے والا ایک شتر مرغ ہوں۔ میری یہ فرض کرلینے کی عادت کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس کی وجہ سے جو منہ کی کھانا پڑی وہ الگ کہانی ہے۔ تاہم اس شترمرغ والی عادت نے بہت سے معاملات میں میرے لیے راہ ہموار کرنے کی بجائے دشوار اور بعض اوقات بند ہی کر دی۔ انتظار کرنے کی پالیسی شاید ایک حد تک تو ٹھیک ہو، لیکن ہمیشہ انتظار کرتے رہنا آپ کو کہیں بھی نہیں لے کر جاتا، بلکہ آپ وہیں رہ جاتے ہیں اور دنیا آگے بڑھ جاتی ہے۔ اور میں نے یہ تجربہ کر لیا ہے کہ انتظار لامتناہی ، انتظار لا حاصل ہے۔ کم از کم مجھے یہی تجربہ حاصل ہوا ہے کہ جہاں میں نے سوچا کہ انتظار بہتر رہے گا، وہیں انتظار آخر میں تباہ کن ثابت ہوا، دنیا آگے بڑھ گئی اور میں وہیں کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ کبھی کبھی مجھے اسی لیے اپنا آپ جی ٹی روڈ کے کسی ٹول پلازے پر بیٹھے کلرک کی ذات لگتا ہے۔ جو گاڑیوں کو جاتے دیکھتا رہتا ہے، دیکھتا رہتا ہے، منزل مقصود پر روانہ کرتا رہتا ہے اور خود ساری عمر اسی ٹول پلازے پر گزار دیتا ہے۔ یہی کچھ مجھے بھاری قیمت چکاتے ہوئے اپنے آپ کے بارے میں محسوس ہوا۔ کہ میں بھی فطری طور پر ایک جگہ بیٹھ کر دھوپ سینکنے کا عادی ایک کچھوا ہوں جو خطرے کو دیکھ کر گردن اندر کر لیتا ہے، ورنہ مزے سے دھوپ سینکتا رہتا ہے اور آنے جانے والوں کو تکتا رہتا ہے۔ا ور جب وقت گزر جاتا ہے تو بھاگنے کی کوشش میں اپنا گِٹا نکلوا بیٹھتا ہے۔
No comments:
Post a Comment