محبت کے آغاز پہ کھڑی لڑکی کو یہ بتانا بیکار ہے
"محبت اداسیوں کا گیت ہے"
ریڈیو کی زنگ لگی ناب
پرانے فون بوتھ
زرد رنگ خطوط
ٹوٹی چوڑیاں
ویران آنکھیں
بالوں کی سفیدی
مردہ پھول
دروازے پہ ہوتی دستک
یہ سب کہانی کے اختتام پہ ہوتا ہے
ابھی سب بتلا کر اسے بےمزہ مت کرو
مسکراتے چہرے کو ابھی سے کیوں رلاتے ہو ؟
یاسیت کے زرد پھول اسکے بالوں میں لگانا ٹھیک نہیں
یہ اسکی کہانی ہے
اسی کو جینے دو
"اسے محبت لفظ پڑھنے دو"
اسے کہو آسمان پہ تاروں سے کسی کا نام لکھے
چاہت کے اون سے جاڑے کی شاموں میں
کسی کے لیے سویٹر بُنے
اس شخص کے خیالوں میں لڑکھڑائے
فیض کی نظمیں گنگنائے
بےیقین دِلوں کو یقین دلائے کہ
"محبت پرسکون سا اک لمحہ ہے "
No comments:
Post a Comment